موضوع: موت کی تمنا کرنا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی کسی مصیبت کے پہنچنے کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے اور اگر موت کی تمنا کرنا ضروری ہو تو یوں کہے:اے اللہ !مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے حق میں زندگی بہتر ہے اور مجھے اس وقت وفات دے جس وقت میرے حق میں موت بہتر ہو۔([1])
شرحِ حدیث
امام ابو زکریا یحیی بن شرف نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی مرض،غربت و افلاس،دشمن کے خوف یا اس جیسی دوسری دنیوی تکلیفوں کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ ہے۔ہاں! جب دینی نقصان یا کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا خوف ہو تو اس صورت میں موت کی تمنا مکروہ نہیں اور ہمارے بہت سے بزرگوں نے اپنے دین میں فتنے کے خوف سے موت کی تمنا کی ہے۔اگر کسی کو اس بات کا خوف ہو کہ وہ مرض کی وجہ سے جس مصیبت میں مبتلا ہے وہ اس پر صبر نہیں کر سکے گا تو وہ ارشاد ِ نبوی کے مطابق یوں دعا کرے:اے اللہ !جب تک میرے حق میں زندگی بہتر ہو مجھے زندہ رکھ اور جب میرا مرنا بہتر ہو تو مجھے موت دے دے۔ افضل یہی ہے کہ وہ صبر کرے اور تقدیر پر راضی رہے۔([2])حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بیماری و آزاری(تکلیف)سے گھبرا کر موت نہ مانگے اور جس طریقے سے دعا کی اجازت دی گئی ہے نہایت ہی پیارا طریقہ ہے، کیونکہ اس خیر و شر میں دین و دنیا کی خیر و شر شامل ہے۔ گویا موت کی تمنا کہہ بھی لی مگر قاعدے سے۔([3])
موت کی تمنا کرنا کیوں منع ہے؟
دنیاوی مصائب یا بیماریوں وغیرہ سے گھبرا کر موت کی تمنا کرنا منع ہے کیونکہ مومن کے لئے تو ہر بیماری اور مصیبت اس کے گناہوں کی معافی اور اس کے درجات میں بلندی کا ذریعہ ہوتی ہے۔یہاں تک کہ اگر اس کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔جیسا کہ حضور کا فرمان ہے:جب مومن بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ پاک اسے گناہوں سے ایسے پاک کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے زنگ کو صاف کر دیتی ہے۔([4])تو پھر مصیبت خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو جب اس کے بدلے اتنا عظیم انعام دیا جا رہا ہے تو بھلا اس مصیبت سے گھبرا کر موت کی تمنا کیوں کی جائے!جیسا کہ علامہ ابو الحسن ابنِ بطال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:کسی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ اس مصیبت سے اس کےدین اور دنیا میں اس کے لئے بھلائی ہوتی ہے یا پھر اس مصیبت سے اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔([5])
لمبی عمر ہونا بھلائی ہے:
موت کی تمنا کرنا اس لئے بھی منع ہے کہ موت سے انسان کے نیک اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، جبکہ زندہ رہنے کی صورت میں اگر وہ گنہگار بھی ہو تو ہو سکتا ہے اس کو توبہ کی توفیق مل جائے اور اگر نیک ہو تو مزید نیکیوں کی توفیق مل جائے۔یوں دونوں صورتوں میں مومن کے لئے لمبی عمر میں بھلائی ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے:تم میں سے کوئی بھی موت کی تمنا کرے نہ وقت سے پہلے مرنے کی دعا کرے۔ کیونکہ جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور مومن کے لئے لمبی عمر ہونا بھلائی ہے۔([6])
اسے اس روایت سے سمجھ سکتی ہیں کہ قبیلۂ قُضاعہ کے دو شخص بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر ایمان لائے۔ان میں سے ایک راہِ خدا میں لڑتے ہوئے شہید ہو گیا جبکہ دوسرا سال بھر زندہ رہ کر فوت ہوا۔ایک صحابی نے خواب میں بعد میں مرنے والے کو شہید سے پہلے جنت میں داخل ہوتے دیکھا تو حیران ہوئے اور صبح ہوتے ہی یہ معاملہ حضور سے عرض کیا تو حضور نے ارشاد فرمایا:کیا وہ شخص جو سال بھر زندہ رہا،اس نے شہید کے بعد ایک رمضان کے روزے نہ رکھے؟6 ہزار رکعات نماز نہ پڑھی؟اور اتنی اتنی سنتیں زائد نہ پڑھی تھیں؟([7])
افسوس!آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہو چکا ہے کہ آئے دن عورتوں کے متعلق بھی اس طرح کی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ گھریلو ناچاقیوں،سسرال کے جھگڑوں، تنگ دستی، مہنگائی،اولاد کی نافرمانی وغیرہ مسائل سے تنگ آ کر خود کشی جیسا گناہِ عظیم کر بیٹھتی ہیں۔بلکہ حالات اس قدر نازک ہو چکے ہیں کہ معاذَ اللہ نوجوان لڑکے لڑکیاں عشقِ مجازی میں ناکامی کی صورت میں بھی موت کی تمنا کرتے ہیں بلکہ کبھی تو خود اپنے ہاتھوں سے خود کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔یاد رکھئے! موت کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اسی وقت پر آئے گی لیکن مصائب سے تنگ آ کر موت کی تمنا کرنا یا موت کی دعا کرنا یہ بےصبری اور اللہ پاک کی رحمت سے مایوسی کی علامت ہے۔ایک مومن کی شان نہیں کہ وہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہو بلکہ یہ تو کافروں کا طریقہ ہے۔جیسا کہ سورۂ یوسف میں ہے:
وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ(۸۷) (پ13، یوسف:87)
ترجمہ:اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی نا امید ہوتے ہیں۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
موت کی تمنا کی جائز صورتیں:
دنیاوی آزمائشوں اور پریشانیوں سے گھبرا کر موت کی تمنا کرنا تو منع ہے لیکن بعض صورتوں میں ایسا کرنا جائز بھی ہے۔جیسا کہ شیخ عبدُ الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کی محبت اور اس کی ملاقات کے شوق میں موت کی تمنا کرنا،نیز اس دنیا کی تنگی اور پریشانی سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ملکِ آخرت اور جنت میں پہنچنے کے لئے موت کی آرزو کرنا ایمان اور اس کے کمال کی نشانی ہے۔([8])اسی طرح اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ گرامی حضرت علامہ مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب دین میں فتنہ دیکھے تو اپنے مرنے کی دعا جائز ہے۔([9]) بہارِ شریعت میں ہے:مرنے کی آرزو کرنا اور اس کی دعا مانگنا مکروہ ہے، جبکہ کسی دنیوی تکلیف کی وجہ سے ہو، مثلاً:تنگی سے بسر اوقات ہوتی ہے یا دشمن کا اندیشہ ہے، مال جانے کا خوف ہے اور اگر یہ باتیں نہ ہوں بلکہ لوگوں کی حالتیں خراب ہو گئیں، معصیت میں مبتلا ہیں اسے بھی اندیشہ ہے کہ گناہ میں پڑ جائے گا تو آرزوئے موت مکروہ نہیں۔([10])
شہادت کی دعا کرنا کیسا؟
حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہ کہنا جائز ہے:خدایا!مجھے شہادت کی موت دے، خدایا!مجھے مدینہ پاک میں موت نصیب کر۔چنانچہ عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے دعا کی تھی کہ مولا!مجھے اپنے حبیب کے شہر میں شہادت نصیب کر۔حضرت حفصہ نے عرض کی کہ یہ کیسے ہو سکے گا؟تو آپ نے فرمایا:ان شاء اللہ ایسے ہی ہو گا۔چنانچہ مسجدِ نبوی،محراب النبی،نماز کی حالت میں مُصَلَّائے مصطفےٰ پر آپ کو کافر مجوسی ابو لُؤلُؤ نے شہید کیا۔([11])
موت کی تمنا کے بجائے کیا کریں؟
آزمائشوں سے گھبرا کر موت کی تمنا کرنے کے بجائے صبر کریں اور اللہ پاک کی رضا میں راضی رہیں کہ صبر کرنے والوں اور راضی برضا رہنے والوں کا اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت بلند درجہ ہے۔چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳) (پ2،البقرۃ:153)
ترجمہ: بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ ٹیچر ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ مجلس جامعۃ المدینہ گرلز
[1] بخاری،4/13،حدیث:5671
[2] شرح نووی، 9/7، 8، الجزء:17
[3] مراۃ المناجیح، 2/ 436
[4] ترغیب ترہیب، 4/146، حدیث:42
[5] شرح بخاری لابن بطال، 10/111ملخصاً
[6] مسلم، ص1106، حدیث:6819
[7] مسند امام احمد، 14/126، 127، حدیث:8399
[8] اشعۃ المعات، 1/697 ملخصاً
[9] فضائل دعا، ص 182
[10] بہارِ شریعت، 5/658، حصہ:16
[11] مراۃ المناجیح، 2/436


Comments