موضوع: جنت و جہنم کتنی قریب ہے؟
حضورنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:جنت تم میں سے کسی کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے اور اسی طرح جہنم بھی۔([1])
شرحِ حدیث
ذکر کی گئی حدیثِ پاک میں بندے سے جنت و دوزخ کے قریب ہونے کو جوتوں کے تسمے سے تشبیہ دی گئی ہے۔البتہ! یاد رہے کہ یہاں تسمے سے مراد جوتوں کے اگلے حصے میں بنی ہوئی وہ جگہ ہے جس میں انگلیاں داخل کی جاتی ہیں (جیسا کہ فی زمانہ انگوٹھے والی چپلوں میں ہوتا ہے)۔([2])جس طرح یہ تسمہ بندے سے بہت قریب ہوتا ہے،اسی طرح جنت و دوزخ بھی بندے سے بہت قریب ہیں اور جس طرح اس تسمے میں انگوٹھا داخل کرنا انسان کے لئے بہت آسان ہے یونہی جنت و دوزخ میں داخلہ بھی بہت آسان ہے۔([3]) جیسا کہ امام شرَفُ الدین حسین بن محمد بن عبد اللہ طَیِّبِیْ رحمۃ اللہ علیہ اسی روایت کی شرح میں فرماتے ہیں:ثواب و عذاب کا حاصل ہونا بندے کی اپنی کوشش سے ہوتا ہے اور کوشش قدموں کے ذریعے ہوتی ہے۔لہٰذا جو کوئی نیک کام کرے گا وہ اللہ پاک کے وعدے کی وجہ سے جنت کا حق دار ہو گا اور جو برا عمل کرے گا تو اللہ پاک کی وعید کی وجہ سے جہنم کا حق دار ہو گا۔([4]) ایک قول کے مطابق اس حدیثِ پاک کا معنی یہ ہے کہ ارادے کی درستی اور نیک اعمال کے ساتھ جنت کا حاصل ہونا نہایت آسان ہے، اسی طرح خواہشاتِ نفس کی پیروی اور برے اعمال کے ذریعے جہنم کا داخلہ بھی بہت آسان ہے۔([5])یعنی جس طرح جوتے کے تسمے میں پاؤں داخل کرنا آسان ہے، اسی طرح جنت و جہنم میں داخلہ بہت آسان ہے۔کیونکہ بظاہر کوئی معمولی نظر آنے والی نیکی بھی جنت میں داخلے کا سبب بن سکتی ہے، یونہی بظاہر کوئی چھوٹا نظر آنے والا گناہ بھی اللہ پاک کی ناراضی اور جہنم میں داخلے کا سبب بن سکتا ہے۔چنانچہ،
علامہ ابو الحسن ابنِ بطَّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس حدیثِ پاک میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ نیکیاں جنت تک لے جاتی ہیں اور نافرمانیاں دوزخ کے قریب کرتی ہیں اور یہ جنت و دوزخ سے قریب ہونا کبھی کسی چھوٹے عمل کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔کیا تمہیں خبر نہیں کہ حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:بعض اوقات انسان اللہ پاک کی رضا والا ایسا کلام کرتا ہے کہ جس کو وہ خود بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اللہ پاک اس کلام کے سبب اس بندے کے حق میں قیامت تک اپنی رضا مندی لکھ دیتا ہے اور بعض اوقات انسان اللہ پاک کی ناراضی والا ایسا کلام کرتا ہے جس کی وہ کوئی پروا نہیں کرتا لیکن اللہ پاک اس بات کی وجہ سے قیامت تک اس بندے سے ناراض ہو جاتا ہے۔([6])
معلوم ہوا! اللہ پاک کی بارگاہ میں کسی بھی عمل کا چھوٹا یا بڑا ہونا نہیں دیکھا جاتا۔اگر کوئی نیک کام اخلاص کے ساتھ کیا جائے تو چاہے وہ چھوٹا ہی ہو اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے اور گناہ اگرچہ چھوٹا ہو لیکن اگر اسے چھوٹا اور ہلکا سمجھ کر کیا جائے تو اللہ پاک کے غضب کا باعث ہو سکتا ہے۔لہٰذا کسی بھی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر چھوڑنا چاہیے نہ کسی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر کرنا چاہیے۔بلکہ جب بھی کسی نیکی کا موقع ملے فوراً کر لینی چاہیے، کیا معلوم وہی نیکی ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔ویسے بھی جب تک سانس باقی ہے ہمارے پاس نیکیاں کمانے کے بہت سے ایسے ذرائع ہیں جن میں نہ تو زیادہ وقت لگتا ہے اور نہ ہی محنت لیکن جب یہ سانسیں بند ہو گئیں تو پھر ایک بار اللہ کہنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔لہٰذا ہمیں اپنی ہر ہر سانس اور ہر ہر لمحے کو نیکیوں میں گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
چند آسان نیکیاں:
بہت سی ایسی نیکیاں ہیں جو بظاہر بہت چھوٹی اور آسان ہیں لیکن کثیر ثواب کا ذریعہ ہیں۔ان میں سے کئی کام تو ایسے ہیں جن کے لئے الگ سے وقت نکالنے کی بھی حاجت نہیں بلکہ ہم اپنے روزمرہ کاموں کے ساتھ ساتھ بھی ان کو کر سکتی ہیں۔بالخصوص خواتین گھریلو کام کاج کے ساتھ ساتھ بھی یہ نیک اعمال کر سکتی ہیں۔ان میں سے چند یہ ہیں:
(1)اچھی اچھی نیتیں کرنا:
جتنا ممکن ہو ہر نیک و جائز کام سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کر لی جائیں، یوں جتنی نیتیں زیادہ ہوں گی اتنا ثواب بھی زیادہ ہو گا۔چنانچہ گھر کے کام کاج میں اچھی اچھی نیتیں کر کے اپنے لئے ثواب کا ذخیرہ جمع کر سکتی ہیں۔مثلاً: صفائی کرتے وقت نیت کر لیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اس نیت سے صفائی کروں گی، نیز گھر کے کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا صحابیات و صالحات کا مبارک طریقہ ہے۔لہٰذا ان کے طریقے پر عمل کروں گی وغیرہ۔
(2) ہر جائز کام سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھنا:
روز مرہ کے ہر جائز کام کو بسم اللہ سے شروع کرنے کی عادت بنائیے،ان شاء اللہ ہزاروں نیکیاں حاصل ہوں گی۔
(3)درودِ پاک پڑھنا:
چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، کام کاج کرتے ہر وقت درود شریف پڑھتے رہنے کی عادت بنائیے،ان شاء اللہ جہاں اس کی دیگر برکتیں ملیں گی وہیں رزق میں برکت بھی ہو گی، گھر امن و سکون کا گہوارہ بنے گا اور اللہ پاک کی خوب رحمتیں بھی نازل ہوں گی۔
(4)ذکرِ الٰہی کرنا:
اس کے لئے بھی الگ سے وقت نکالنے کی حاجت نہیں۔بلکہ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے جب مناسب ہو ذکر اللہ کیا جا سکتا ہے۔لمبے اذکار کی جگہ مختصر اذکار مثلاً:لَآ اِلٰہَ اِلَّا للہ،سُبْحٰنَ اللہ ،اَلْحَمْدُ للہ، اللہ اکبر،بھی پڑھے جا سکتے ہیں کہ جس نے صبح و شام 100، 100 مرتبہ سُبْحٰنَ اللہ پڑھا تو وہ 100 حج کرنے والے کی طرح ہے۔([7])
(6)با وضو رہنا:
ہر وقت با وضو رہنے کی عادت بنائیے۔اس سے ثواب کے ساتھ ساتھ ہر کام میں برکت بھی ہو گی۔
(7)اذان کا جواب دینا:
اذان کا جواب دینا بھی آسان ہے اور اس میں وقت بھی نہیں لگتا، جیسا کہ اس کی ترغیب دلاتے ہوئے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خواتین سے ارشاد فرمایا:اے عورَتو!جب تم بلال کو اذان و اقامت کہتے سنو تو جس طرح وہ کہتاہے تم بھی کہو کہ اللہ پاک تمہارے لئے ہر کلمہ کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں لکھے گا، تمہارے ہزار درجات بلند فرمائے گا اور تمہارے ہزار گناہ مٹائے گا۔([8])
(8)سنتوں پر عمل:
ہمیں اپنی روز مرہ روٹین میں کئی کام سر انجام دینے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم ان کاموں کو سنت کے مطابق کریں گی تو وہ کام بھی ہو جائیں گے اور سنت پر عمل کا ثواب بھی حاصل ہو جائے گا۔مثلاً:کھانا کھائیں تو سنت کے مطابق،پانی پئیں تو سنت کے مطابق،سوئیں تو سنت کے مطابق یونہی ہر کام سنت کے مطابق کرنے کی عادت بنائیں۔
غور فرمائیے!اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فلاں جگہ کپڑوں کی سیل لگی ہے، فلاں جگہ فلاں چیز بہت سستے داموں مل رہی ہے یا فلاں جگہ اس اس طرح کا سستا پیکج چل رہا ہے وغیرہ تو ہم کس طرح اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔حالانکہ اس میں صرف ہمارا دنیاوی فائدہ ہے۔تو جب آخرت کے معاملے میں ہمیں اتنے آسان اعمال عطا کئے گئے ہیں کہ جن میں نہ تو زیادہ وقت لگتا ہے اور نہ ہی پیسہ خرچ ہوتا ہے تو ہم ان پہ عمل کیوں نہیں کرتیں!
وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا
ہم مفلس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*شعبہ ٹیچر ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ مجلس جامعۃ المدینہ گرلز
[1] بخاری،4/244،243،حدیث:6488
[2] دلیل الفالحین، 1/323، 322، تحت الحدیث:105
[3] فیضانِ ریاض الصالحین، 2/227
[4] شرح طیبی، 5/134، تحت الحدیث:2368
[5] فتح الباری، 12/274، تحت الحدیث:6488
[6] شرح بخاری لابن بطال، 10 /198
[7] ترمذی، 5/289، حدیث:3482
[8] تاریخِ ابن عساکر، 55/ 76، 75

Comments