حضور ﷺ کی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  سے محبت
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: حضور کی فاروقِ اعظم سے محبت

(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 39ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں۔)

صحابیِ رسول،سسرِ رسول،وزیرِ رسول،یارِ رسول اور یارِ مزارِ رسول،خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی  اللہ  عنہ ۔ نام عمر بن خطاب،کنیت ابو حفص اور لقب فاروقِ اعظم ہے۔ آپ کو ابو حفص کنیت حضور نے دی۔

حضور نبی کریم  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  کو فاروقِ اعظم بہت عزیز ہیں کہ حضور نے انہیں خدا سے مانگا۔جیسا کہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی  اللہ  عنہ ا فرماتی ہیں کہ حضور نے فاروقِ اعظم کے لئے یوں دعا فرمائی: اے  اللہ !خصوصاً عمر بن خطاب کے ساتھ اسلام کو عزت عطا فرما۔([1])

رسول  اللہ  نے فاروق کو  اللہ  سے مانگا

عطاءِ ربِّ سبحاں حضرتِ فاروقِ اعظم ہیں([2])

حضور فاروقِ اعظم سے بہت محبت فرماتے تھے،ان کی محبت کا  عالم یہ تھا کہ ایک موقع پر حضور نے فرمایا: جس نے عمر سے دشمنی رکھی،اس نے مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔([3]) اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور فاروقِ اعظم سے کس قدر محبت فرماتے ہیں۔اسی طرح ایک روایت میں حضور نے ارشاد فرمایا:عمر میرے ساتھ ہے،میں عمر کے ساتھ ہوں۔میرے بعد عمر جہاں بھی ہوں حق ان کے ساتھ ہو گا۔([4])

سبحان  اللہ !میرے نبی کی اپنے اصحاب سے محبت کے اظہار کا کیا ہی خوبصورت انداز ہے!اسی طرح کئی احادیث میں حضور نے فاروقِ اعظم  رضی  اللہ  عنہ  سے محبت کا اظہار فرما یا ۔

فاروقِ اعظم  رضی  اللہ  عنہ  ہر وقت حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  کے ساتھ ہو تے تھے یہاں تک کہ دنیا سے جانے کے بعد بھی حضور کے پہلو میں دفن ہونا نصیب ہو ا۔

ایک دن حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  نے سیدھے ہاتھ مبارک میں حضرت صدیقِ اکبر  رضی  اللہ  عنہ  کا اور الٹے ہاتھ مبارک میں حضرت عمر کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:ہم قیامت کے دن یوں ہی اُٹھائے جائیں گے۔([5])

حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  کی حضرت فاروقِ اعظم  رضی  اللہ  عنہ سے محبت کا بیان بہت لمباہے جو اس مختصر تحریر میں بیان نہیں ہو سکتا۔حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  کی حضرت فاروقِ اعظم سے محبت کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبہ المدینہ کی کتاب فیضانِ فاروقِ اعظم کا مطالعہ کیجئے۔

 اللہ  پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحابہ و اہلِ بیت علیہم الرضوان کی محبت عطا فرمائے اور ہمارا حشر نیکو ں کے سا تھ ہو۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

بنتِ اسماعیل عطاریہ

(شاہ لطیف ٹاؤن کراچی)

صحابہ کرام جیسے جگمگاتے ستاروں میں ایک روشن ستارے کا نام خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب  رضی  اللہ  عنہ  ہے۔

آپ کا دل انوارِ الٰہی سے روشن تھا،شمعِ رسالت سے روشنی پانے کے بعد خود بھی روشنی و ہدایت کا سر چشمہ بن گئے تھے  ۔

مُرادِ رسول :

آپ کو مرادِ رسول بھی کہا جاتاہے۔کیونکہ آپ خود رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  کی مراد ہیں   اور حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  نے آپ کواپنے رب سے مانگا۔چنانچہ  اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی  اللہ  عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے حضرت عمر فاروق  رضی  اللہ  عنہ  کے متعلق یوں دعا فرمائی:اے  اللہ !خصوصاًعمر بن خطاب سے اسلام کو عزت عطا فرما۔([6])

معلوم ہوا کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی  اللہ  عنہ  وہ ہستی ہیں جن کے اسلام لانے کے لئے  حضور  نے  اللہ  پاک سے خصوصی دعا فرمائی اور حضرت عمر گویا مُرادِ رسول ہیں۔بلکہ ایک مرتبہ تو یہاں تک ارشاد فرمایا کہ جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے عمر سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔ ([7])

حضور کے فاروقِ اعظم سے محبت فرمانے پر کئی روایات شاہد ہیں، چند ملاحظہ فرمائیے:

 حضرت عمر بن خطاب  رضی  اللہ  عنہ  نے جب اسلام قبول کیا تو حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم   نے تین مرتبہ ان کے سینے پر اپنا مبارک ہاتھ مارا اور تینوں مرتبہ یہ ارشاد فرمایا:اے  اللہ !ان کے سینے میں جو دشمنی ہے اسے نکال دے اور اس کی جگہ ایمان بھر دے۔([8])

حضور ایک دن فاروقِ اعظم کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: اے خطاب کے بیٹے!تمہیں معلوم ہے میں کیوں مسکرایا؟ عرض کی:  اللہ  پاک اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا:  اللہ  پاک نے عرفات کی رات تمہاری طرف شفقت و رحمت کی نظر فرمائی اور تمہیں اسلام کی چابی قرار دیا۔([9])

فاروقِ اعظم کو بھائی فرمانا:

حضرت عمر بن خطاب  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں:میں نے حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے مجھے اجازت عطا فرمائی اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا:اے بھائی!مجھے اپنی دعا میں نہ بھولنا۔حضرت فاروقِ اعظم  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں:حضور کے اس مبارک فرمان سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس کے بدلے مجھے ساری دنیا بھی مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ایک روایت میں ہے کہ حضور نے یوں ارشاد فرمایا:اے بھائی!ہمیں بھی اپنی دعا میں شریک کرنا۔([10])

مفتی احمد یار خان  رحمۃ  اللہ  علیہ  فرماتے ہیں:حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  نے جو حضرت عمرکو بھائی فرمایا یہ انتہائی کرم کریمانہ ہے جیسے سلطان اپنی رعایا سے کہے:  میں تمہارا خادم ہوں۔مگر کسی مسلمان کا حق نہیں کہ حضور کو بھائی کہے۔ ([11])

حضرت اَسود بن سَرِیع  رضی  اللہ  عنہ  نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یا رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم !میں نے کچھ کلمات سے اپنے رب کی حمد کی ہے اور آپ کی بھی تعریف کی ہے۔حضور نے ارشاد فرمایا:بے شک تمہارا رب تعریف کو پسند فرماتا ہے،تم نے جن کلمات سے اپنے رب کی حمد کی ہے وہ مجھے سناؤ۔میں وہ کلمات سنانے لگا تو اتنے میں کسی نے حاضری کی اجازت مانگی۔حضور نے مجھے خاموش کروا دیا،وہ صاحب داخل ہوئے اور کچھ دیر بات کر کے چلے گئے۔میں نے پھر سے حمد سنانی شروع کی تو وہ صاحب واپس آ گئے،حضور نے مجھے پھر خاموش کرا دیا۔ میں عرض گزار ہوا:یا رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم !یہ کون ہیں جن کے لئے آپ نے مجھے خاموش کروا دیا؟ ارشاد فرمایا:یہ ایسا مرد ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا،یہ عمر بن خطاب ہے۔([12])

 اللہ  پاک حضرت فاروقِ اعظم  رضی  اللہ  عنہ  پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم



[1] ابنِ ماجہ،1/77،حدیث:105

[2] دیوانِ سالک،ص73

[3] معجم اوسط،5/102،حدیث:6726

[4] معجم اوسط،2/92،حدیث:2629

[5] ترمذی،5/378،حدیث:3689

[6] ابنِ ماجہ،1/77،حدیث:105

[7] الشفا،2/54

[8] مستدرک،4/37،حديث:4548

[9] الریاض النضرۃ،1/308

[10] ابو داود،2/115،114،حدیث:1498ملتقطاً

[11] مراۃ المناجیح،3 /299

[12] مسند احمد،24/358،357،حدیث:15590


Share