اہم نوٹ:ان صفحات میں ماہنامہ خواتین کے 39ویں تحریری مقابلے میں موصول ہونے والے214مضامین کی تفصیل یہ ہے:
|
عنوان |
تعداد |
عنوان |
تعداد |
عنوان |
تعداد |
|
حضورکی فاروقِ اعظم سے محبت |
79 |
یتیموں سے بد سلوکی |
102 |
افواہوں پر کان نہ دھریں |
33 |
مضمون بھیجنے والیوں کے نام
حضور کی فاروقِ اعظم سے محبت:
اٹک حضرو:بنت محمد ایوب۔خوشاب:جوہر آباد:بنت امتیاز حسین۔راولپنڈی: بنت محمد ریاض۔ سیالکوٹ: پاکپورہ: بنت شاہد۔ تلواڑہ مغلاں:بنت رزاق احمد، بنت جاوید سرور، بنت عارف حسین۔ڈسکہ:بنت عبد المجید۔شفیع کا بھٹہ:بنت محمد حبیب، بنت ذو الفقار انور، ہمشیرہ حامد، بنت عرفان، بنت محمد جمیل، بنت اصغر، بنت رزاق بٹ، بنت محمد رفیق، بنت راشد، بنت جعفر حسین، بنت محمد اشفاق، بنت شمس پرویز، بنت محمد ناصر، بنت محمد طاہر، بنت عبد الغفور، بنت شبیر حسین، بنت محمد انور، بنت محمد اشفاق، بنت اشفاق احمد، بنت طاہر، بنت ساجد، بنت محمد رمضان، بنت عثمان علی، ہمشیرہ میر حمزہ، بنت محمد احسن، ہمشیرہ حیدر علی۔گلبہار:بنت سرفراز، بنت محمد الیاس، بنت ریاض، بنت رشید، بنت اعجاز احمد، بنت محمد رحمان، بنت اصغر، اخت فیصل خان، بنت منیر، بنت ناصر، بنت ریاض، بنت رفیق، بنت جبار، بنت مظفر علی، بنت الیاس، بنت علی احمد، بنت بشیر، بنت ذو الفقار علی۔مظفر پورہ:بنت خلیل احمد، بنت عمران، بنت نعمان شہزاد، بنت شاہد علی، بنت محمد نواز، بنت نعیم طارق، بنت محمد شہباز، بنت اعظم۔معراج کے:بنت محمد عارف، بنت محمد سلیم، بنت منیر حسین، بنت منور حسین۔نند پور:بنت ملک طارق محمود، بنت محمد الیاس، بنت محمد انور، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت محمد صدیق، بنت رمضان احمد، ام ہانی۔گہوگا: بنت شہباز احمد۔بھنڈر ٹاؤن فروکہ:بنت محمد یونس۔ فیصل آباد:بنت لیاقت۔کراچی:دھوراجی:بنت محمد عدنان۔شاہ لطیف ٹاؤن:بنت اسماعیل۔ نارتھ کراچی:بنت محمد وزیر خان۔سرجانی ٹاؤن:بنت محمد اسماعیل۔ لاہور: بنت عبد الرشید۔ملتان:نیل کوٹ:بنت غلام حسین۔
یتیموں سے بد سلوکی:
خوشاب:جوہر آباد:بنت امیر۔راولپنڈی: بنت محمد وسیم ظفر۔سیالکوٹ:پاکپورہ:بنت میاں محمد یوسف قمر۔تلواڑہ مغلاں: رانا محمد نعیم، خوشبوئے مدینہ، بنت محمد جمیل۔شفیع کا بھٹہ:ہمشیرہ محمد جواد، بنت محمد ندیم میاں، بنت عارف، بنت محمد اشرف، بنت سعید، بنت عارف محمود، بنت محمد امین، بنت محمد سلیم، بنت عبد القادر، بنت شمس پرویز، بنت محمد اصغر مغل، بنت شبیر احمد، بنت طارق محمود، بنت خوشی محمد، بنت محمد شفیق، ہمشیرہ حنظلہ صابر، ہمشیرہ محمد اسماعیل، بنت جہانگیر، بنت انعام اللہ بٹ، بنت راشد محمود، بنت محمد بشیر، بنت محمد شاہد، بنت محمد امین، بنت محمد یوسف، بنت صغیر احمد، بنت محمد اشرف، ہمشیرہ حماد، ہمشیرہ محمد نوید، بنت محمد جان، ہمشیرہ ریحان، بنت محمد سجاد احمد، بنت سید عاشق حسین شاہ، بنت محمد خالد، بنت اعجاز احمد، بنت کرامت، بنت انتظار حسین، بنت تنویر، بنت اشفاق احمد، بنت خلیل احمد، بنت کاشف شیراز، بنت محمد سرور، بنت شمس، بنت محمد اشفاق بھٹی، بنت اورنگزیب، بنت تنویر، ہمشیرہ فیصل، بنت افضل، بنت محمد بوٹا، بنت امجد ۔گہوگا: بنت شہباز احمد۔گلبہار:بنت محمد شہباز، بنت محمد عنصر، بنت غلام حیدر، ام معبد مدنیہ، بنت رشید احمد، بنت سجاد حسین، بنت شکیل، بنت سماں، ام ہلال، اخت فیصل خان، اخت سلطان، بنت الیاس، بنت جمیل، بنت محمد نعیم، بنت رشید احمد، بنت نواز، بنت محمد عرفان، اخت ثناء اللہ ۔مظفر پورہ:بنت اعجاز، بنت ارشد، بنت محمد نواز، ہمشیرہ محمد قاسم علی، بنت غلام میراں، بنت رانا محمد شہباز، بنت سرفراز احمد، بنت محمد اجمل، بنت محمد طارق، بنت حافظ محمد شبیر، بنت اظہر اقبال، بنت نعیم طارق۔معراج کے:بنت نور حسین۔نند پور:بنت ملک طارق محمود، بنت محمد الیاس، بنت ہدایت اللہ ، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت رمضان احمد، بنت محمد صدیق۔فیصل آباد: بنت ارشد محمود۔کراچی: بنت طفیل الرحمان ہاشمی، بنت فیض فرید۔ فیضان عائشہ:بنت محمد فاروق۔ لاہور: بنت عبد الرشید۔ بنت ناصر۔ملتان: بنت یعقوب۔
افواہوں پر کان نہ دھریں:
راولپنڈی:صدر:بنت مدثر۔سیالکوٹ:شفیع کا بھٹہ:ہمشیرہ محمد آصف، ہمشیرہ حافظ اسامہ بن امین، بنت حیدر، بنت شوکت علی، بنت امجد، بنت اشرف۔گلبہار:بنت سماں، اخت فیصل خان، بنت ایاز، بنت شکیل۔مظفر پورہ:بنت محمد نواز، بنت نعیم طارق۔معراج کے:بنت محمد جاوید، بنت لیاقت علی۔نند پور:بنت محمد الیاس، بنت الیاس، بنت محمد انور، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت ہدایت اللہ ، بنت رمضان احمد، بنت محمد صدیق۔ فیصل آباد: سمندری:بنت محمد اشرف۔کراچی:پی آئی بی:بنت عنایت علی۔دھوراجی:بنت شہزاد احمد۔نارتھ کراچی:بنت محمد زاہد۔راشدی گوٹھ:بنت محمد اسلم چن۔سرجانی ٹاؤن:بنت سید ساجد علی،بنت عبد الوحید۔ لاہور: رائیونڈ:بنت عبد الرشید۔ نشاط کالونی:بنت قاری محمد اقبال۔عرب:بحرین:بنت مقصود۔
افواہوں پر کان نہ دھریں
بنتِ مدثر(اول پوزیشن)
(درجہ:دورۃ الحدیث، فیضانِ فاطمۃ الزہرا صدر راولپنڈی)
ہمارے معاشرے میں کئی باتیں اور خبریں گردش کرتی رہتی ہیں جن کے متعلق تحقیق کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس واقعے کو سب نے کسی سے سنا ہے لیکن کسی سننے والے نے کہنے والے کو دیکھا بھی ہے یا نہیں اس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ایسی خبریں افواہ کہلاتی ہیں اور بد قسمتی سے اس طرح کی اڑتی خبریں آگ کی طرح پھیلتی ہیں اور پھیلانے کے ذمہ دار اسی معاشرے کے افراد ہی ہوتے ہیں۔
شریعت نے شرعی احکام میں افواہوں کو بنیاد تسلیم نہیں کیا، خواہ چاند کی رؤیت کا ثبوت ہو، حدیث کی سند کا اِتِّصال ہو یا حدود جاری کرنے کا معاملہ ہو، افواہیں اور بے بنیاد خبریں معتبر نہیں جب تک کہ شریعت کے معیار کے مطابق پایہ ثبوت تک نہ پہنچ جائیں اور ثبوت کے طریقے بھی کچھ مشکل رکھے،مثلاً: کہیں عدالت تو کہیں تعداد کی قید رکھی۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ26،الحجرات:6)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو انجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
افواہ اور حقیقت میں فرق کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ بعض مرتبہ شیطان بھی مسلمانوں میں جھوٹی خبریں پھیلا دیتا ہے۔افواہوں کا عام ہو جانا زمانہ قدیم سے چلتا آ رہا ہے۔غزوۂ احد کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شہادت کی جھوٹی خبر اڑا دی گئی۔بیعتِ رضوان کے موقع پر شہادتِ عثمان کی افواہ پھیلی۔واقعۂ اِفک کے موقع پر اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان کو پھیلایا گیا۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کی وجہ سے افواہوں کے پھیلنے کا تناسب کافی بڑھ چکا ہے۔کسی بھی خبر کو مشرق سے مغرب تک پہنچنے میں چند سیکنڈز لگتے ہیں اور کئی لوگ لائیکس اور ویوز کے حصول کی خاطر سوشل میڈیا پر بے سر و پیر باتیں اپلوڈ کرتے رہتے ہیں۔کبھی کوئی من گھڑت حدیث،کسی صحابی یا بزرگ کی طرف منسوب بات یا کوئی شرعی مسئلہ گردش میں ہوتا ہے اور لوگ اسے بغیر تحقیق کے آگے شیئر کرتے جاتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہوتی۔ لہٰذا کسی بھی ایسے میسج کو وائرل کرنے سے پہلے کسی مستند عالمِ دین سے کنفرمیشن ضرور حاصل کی جائے۔کئی لوگ عوام میں خوف پیدا کرنے کے لئے سنسنی خیز خبریں پھیلاتے ہیں۔ایسی خبریں معاشرے کے امن کو پارہ پارہ کرتی اور فساد کا سبب بنتی ہیں۔یونہی افواہوں کا بڑا حصہ کسی فرد،کمپنی یا تحریک کے منفی پہلوؤں کو نمایاں کرنے پر مشتمل ہوتا ہے،خواہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔
یاد رکھئے!شریعت میں عزتِ مسلم کی بڑی اہمیت ہے۔ غیبت،چغلی اور بہتان کی حُرمت کے ذریعے مسلمان کی عزت کو محفوظ بنایا گیا ہے۔جب کبھی آپ تک ایسی کوئی بات پہنچے تو اپنے آپ کو اس فرد کی جگہ رکھ کر سوچئے کہ اگر میں ہوتی تو کیا کرتی؟یقیناً اس خبر کو جتنا ممکن ہوتا دبانے کی کوشش کرتی، لہٰذا کسی تیسرے فرد کے متعلق یہی رویہ اختیار کیجئے کہ حدیثِ پاک میں کامل مومن کی ایک نشانی یہ بھی بیان کی گئی کہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔([1])
افواہوں پر کان نہ دھرنا دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے حق میں بھی مفید ہے۔افواہوں پر توجہ نہ دینے کے نتیجے میں ذہنی تشویش سے نجات ملے گی،لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ ہو گا، امن و سکون کی فضا پیدا ہو گی،ذہنی اور جسمانی صحت اچھی رہے گی۔اس معاشرے میں رہتے ہوئے جھوٹی خبروں سے خود کو بچانے کے لئے خود کو کرنے والے کاموں میں مصروف کر لیجئے نہ کرنے والے کاموں سے خود ہی نجات مل جائے گی۔ بے فائدہ چیزیں چھوڑ دینے کو حُسنِ اسلام سے شمار کیا گیا۔ ([2]) سوشل میڈیا اور سوشل گیدرنگ کو محدود کر لیجئے اور جن متعلقہ افواہوں کے لئے تحقیق ضروری ہو تو مستند ذرائع سے تصدیق کر لیجئے۔یوں خود بھی سکون سے زندگی گزاریے اور دوسروں کو بھی سکون کی دولت بانٹئے۔

Comments