بُری عادتیں (قسط:14)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع:بری عادتیں (قسط 14)

دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے، ذیل میں بیان کردہ بُری عادت بھی ایسی ہی ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

خود کو افضل و لائق سمجھنا

باطنی گناہوں میں سے ایک تباہ کن مرض تکبر بھی ہے۔ جس کا مطلب ہے:خود کو افضل اور دوسروں کو گھٹیا سمجھنا۔ چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی،رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔([1])

تکبر بندے کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔بعض اوقات تو تکبر کرنے والا اللہ پاک کے مقابلے میں بھی آ جاتا ہے۔ فرعون، قارون، ہامان اور شداد جیسوں سے تکبر نے ہی خدائی کا دعویٰ کروایا تھا۔

تکبر کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔جن میں سے ایک سبب کثرتِ علم بھی ہے کہ جب انسان اس خاص وصف اور کمال کو پا لیتا ہے تو اس کے دل میں اس سے متعلق خوشی اور خود کو باعزت سمجھنے کا ایک خوش گوار احساس پیدا ہوتا ہے جو کہ ایک فطری جذبہ ہے لیکن کبھی کبھار یہ خیال اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ انسان خود کو دوسروں سے افضل و برتر اور دوسروں کو گھٹیا تصور کرتا ہے۔چونکہ علمِ دین سیکھنا بہت فضیلت والا عمل ہے، اس لئے شیطان بعض اوقات دینی اسٹوڈنٹس کو تکبر میں ڈال دیتا ہے جو کہ بہت بڑی آفت ہے بلکہ ایک روایت میں تکبر کو علم کی آفت قرار دیا گیا ہے۔([2])

علم اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے، اسی علم کی برکت سے انسان کو اپنی اور اپنے رب کی پہچان نصیب ہوتی ہے،  لیکن اگر علم سے  بڑائی اور تکبّر پیدا ہو تو یہ علم وبال کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس تکبر کا علاج یہ ہے کہ انسان شیطان کے انجام کو یاد رکھے کیوں کہ شیطان نے تکبّر کرتے ہوئے حضرت  آدم علیہ السلام سے خود کو افضل قرار دیا تھا تو ہمیشہ کے لئے بارگاہِ خداوندی سے دھتکار دیا گیا۔لہٰذا  تکبر کا شکار دینی اسٹوڈنٹس کو ابلیس کے انجام سے نصیحت  حاصل کرنی چاہیے کہ وہ فرشتوں کا استاد ہونے کے باوجود تکبر کے سبب بارگاہِ الٰہی سے دھتکار دیا گیا اور اس کے تکبر اور احساسِ برتری نے اسے تباہ و برباد کر دیا۔لہٰذا خود کو اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرایا کریں۔ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارا انجام کیا ہو گا!کہیں ایسا نہ ہو کہ جس علم سے پہچانِ الٰہی اور خوفِ خداوندی حاصل کرنا تھا وہی علم آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بن جائے۔

بعض دینی اسٹوڈنٹس بھی دورانِ طالبِ علمی تکبر کی آفت کا شکار ہو جاتے ہیں۔اگرچہ تکبر ایک باطنی مرض ہے لیکن اس کا اظہار ظاہری اعمال سے ہوتا ہے۔متکبر اسٹوڈنٹس اپنی انانیت کی وجہ سے اپنی غلطی تسلیم نہیں کر پاتے، بلکہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں جو کہ بہت گھٹیا حرکت اور اللہ پاک کو ناراض کرنے والا کام ہے۔ایسے اسٹوڈنٹس اپنے ٹیچرز کے سامنے بھی اکڑتے اور بد تمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ٹیچرز کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے  اور کلاس فیلوز کو بھی تکلیف میں مبتلا کر تے ہیں۔ بعض اسٹوڈنٹس ذہانت پر یا  اپنے اچھے نمبرز اور گریڈز کی بنیاد پر دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں اور یہ جتاتے ہیں  کہ وہ سب سے زیادہ قابل و ذہین ہیں۔متکبر اسٹوڈنٹس  ٹیچرز کی نصیحت اور رہنمائی کو نظر انداز کر دیتے  اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔بعض اوقات جو اسٹوڈنٹس کسی مضمون میں بہتر ہوں، وہ کمزور یا پیچھے رہ جانے والے کلاس فیلوز  کا مذاق اڑاتے یا ان پر تنقید کرتے ہیں۔پیٹھ پیچھے باتیں کرتے اور انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔کچھ بد نصیب اسٹوڈنٹس اپنی دولت، لباس یا گھر کی شان و شوکت کو بنیاد بنا کر خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔

ٹیچرز یا کوئی سینئر اسٹوڈنٹ کوئی بہتری کی بات کرے تو  کچھ  اسٹوڈنٹس سختی سے اسے رد کر دیتے ہیں، یہ بھی تکبر کی علامت ہے۔جب غلطی واضح ہو تب بھی ایسے اسٹوڈنٹس اسے  مانتے نہیں بلکہ الٹا دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔

بعض اسٹوڈنٹس اپنی ذہانت، صلاحیتوں اور قابلیت کا ایسے اظہار کرتے ہیں جس کا مقصد دوسروں کو نیچا دکھانا ہوتا ہے  نہ کہ علم کا فائدہ پہنچانا۔ایسے اسٹوڈنٹس اساتذہ کی نظروں میں گر جاتے ہیں اور اپنے کلاس فیلوز کی نظروں میں بھی ایسوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔جبکہ علمِ دین تو عاجزی سکھاتا، غرور و تکبر سے دور رہنے کا درس دیتا اور ظاہر و باطن کی اصلاح کی سوچ فراہم کرتا ہے۔لہٰذا عاجزی و تواضع طلبہ و طالباتِ علمِ دین کا زیور ہونا چاہیے، نہ کہ تکبر۔

جو رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر مسلمانوں کے لئے نرم ہو جائے، ان کے سامنے عاجزی سے پیش آئے تو الله کریم  لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت پیدا فرما دیتا ہے، اسے بڑی بلندی بخشتا ہے اور اس کو لوگوں کے لئے مفید بنا دیتا ہے۔

جن اسٹوڈنٹس کے دماغ پر برتری کا احساس غالب آنے لگتا ہے تو وہ اپنے ٹیچرز کو بھی معاذ اللہ اپنے سے کمتر سمجھنے لگتے ہیں جس کا اظہار ان کے نازیبا الفاظ و حرکات سے ہوتا ہے، اس گھٹیا ترین  عمل کے نتیجے میں وہ علمِ دین سے ہی محروم رہ جاتے ہیں اور ان کا تکبر  انہیں لے ڈوبتا ہے۔نیز جو اسٹوڈنٹس اکڑتے اور شیخیاں مارتے ہیں وہ دوسروں کی نظروں میں ذلیل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ علمِ دین سیکھنے کے تسلسل کو بھی باقی نہیں رکھ سکتے۔تمام دینی  طلبہ و طالبات کو چاہیے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی بے بسی و بے کسی کو ہمیشہ یاد رکھیں اور عاجزی اپنائیں۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور دوسروں کی خوبیوں کو تسلیم کریں،اس سے تکبر قریب نہیں آئے گا۔اپنے رہن سہن، لباس اور اندازِ گفتگو کو سادہ رکھیں کہ اس سے برتری کا احساس نہیں ہو گا۔تکبر سے حفاظت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس دعا کو معمول کی دعاؤں میں شامل کر لیں، اس کی برکت سے تکبر سے حفاظت ہو گی:

اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِی فِی نَفْسِی صَغِیْرًا وَ فِی اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا([3])

الٰہی!مجھے میری نگاہ میں چھوٹا اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا بنا دے۔([4])

دینی اسٹوڈنٹس کو چاہیے کہ وہ امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کا عطا کردہ نیک بننے کا آسان نسخہ”نیک اعمال“کے رسالے کے مطابق اپنے شب و روز گزارنے کا معمول بنا لیں۔ چنانچہ طالبات کے 83 نیک اعمال کے  رسالے کے نیک عمل نمبر 58 میں ہے: کسی مضمون میں  آپ کی معلومات زیادہ ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے کم معلومات والی آپ کو حقیر لگے، اس طرح کا وَسوسہ آنے کی صورت میں کیا آج آپ نے خود کو اللہ پاک کی بے نیازی سے ڈرایا ؟

اس نیک عمل پر عمل کی برکت سے خود پسندی اور تکبر سے بچنے میں کامیابی حاصل ہو گی۔لہٰذا علم و عمل سے خود کو آراستہ کرنے کے لئے نیک اعمال کے رسالے کو روزانہ غور و فکر کر کے پُر کرنے کا معمول بنا لیجئے۔اللہ کریم ہمیں ہر قسم کے ظاہری و باطنی گناہوں بالخصوص تکبر سے محفوظ فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم



[1]مسلم،ص61،حدیث:265

[2] احیاء العلوم، 3/426

[3] مرقاۃ المفاتیح، 8/843، تحت الحدیث:5119

[4] مراۃ المناجیح، 6/ 666


Share