موضوع: نماز ہو تو ایسی!
ایک روز حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا نماز ادا کر رہی تھیں، جب آپ سجدہ میں گئیں تو چٹائی کا تنکا آپ کی آنکھ میں چلا گیا، آپ اس دل جمعی کے ساتھ بارگاہِ اِلٰہی میں متوجہ تھیں کہ جب تک نماز میں رہیں تنکے کا احساس تک نہ ہوا۔([1]) نماز کے بعد آپ نے کسی سے فرمایا:دیکھو تو میری آنکھ میں کوئی چیز کھٹک رہی ہے۔دیکھا گیا تو جائے نماز کا نوکیلا تنکا آنکھ میں گھس گیا ہے اور اس سے آنکھ زخمی ہو چکی ہے۔([2])
غور کیجئے کہ آنکھ بدن کا کتنا نازک حصہ ہے!آنکھ میں معمولی ذرّہ یا تنکا چلا جائے تو انسان تڑپ کر رہ جاتا ہے مگر حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا کے نماز پڑھتے ہوئے خشوع و خضوع کا عالَم یہ ہے کہ آنکھ میں تنکا گیا، اس سے آنکھ زخمی ہو گئی، اس کے باوجود آپ کو خبر تک نہ ہوئی۔کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
نمازِ زاہدان سجدہ سجودست
نمازِ عاشقان ترکِ وجود است
قیام و قعدہ و تکبیر و نیت
ہمہ محوست در عینِ معیت([3])
وضاحت:زاہدوں کی نماز رکوع و سجدہ ہے اور عاشقوں کی نمازِ ترکِ وُجُود ہے یعنی عشقِ الٰہی سے سرشار لوگ جب نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو خود کو بھول ہی جاتے ہیں۔قیام،قعدہ، تکبیر اور نیت وغیرہ تمام اعمالِ نماز میں یہ عینِ معیّت یعنی بارگاہِ الٰہی میں حاضری کی لذت میں گم ہوتے ہیں۔
نماز میں خشوع کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے:
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)(پ16، طٰہٰ:14)
ترجمہ:میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔غفلت ذکر کا الٹ(Opposite)ہے۔لہٰذا جو پوری نماز میں غافل رہے وہ نماز کو ذکرِ الٰہی کے ساتھ قائم کرنے والا کیسے ہوسکتا ہے!([4])
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ جنہیں نماز سے سوائے تھکاوٹ اور تکلیف کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اس سے مراد غافل نمازی ہیں۔ جب دل ہی غافل ہوگا تو
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۵) (پ1، الفاتحۃ:5)
(ترجمہ: ہمیں سیدھے راستے پر چلا)
میں کیا سوال کرے گا ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ قراءت اور اذکار سے مقصود اللہ پاک کی حمد و ثنا، اس کی بارگاہ میں اظہارِ عاجزی اور دعا کرنا ہے۔ اس کا مخاطب اللہ پاک ہے اور اس کا دل پردۂ غفلت میں ہے تو یہ اسے نہیں دیکھ سکتا بلکہ یہ تو مخاطَب ذات سے بھی غافل ہے، اس کی زبان تو عادتاً حرکت کر رہی ہے اور یہ بات نماز کے مقصود سے کس قدر دور ہے کہ اس کے فرض کرنے کا مقصد ہی دل کی صفائی، ذکرِ الٰہی کی تجدید اور اس پر ایمان کو مضبوط کرنا ہے۔([5])
خشوع نماز کی روح ہے۔تفاسیر میں ہے:نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے،مثلاً:نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے ، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیشِ نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔([6])
علامہ بدرُ الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نماز میں خشوع مستحب ہے۔([7])
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:ہاں نماز کا کمال نماز کا نور نماز کی خوبی فہم و تَدَبُّر و حضورِ قلب(یعنی نماز کو سمجھ کر پڑھنے اور دل سے اللہ پاک کے حضور حاضر رہنے)پر ہے۔([8]) مطلب یہ کہ اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔
خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے نماز شروع کرنے سے پہلے ہر اس چیز سے فراغت حاصل کر لیجئے جو خشوع میں رکاوٹ بن سکتی ہو، مثلاً:بھوک لگی ہو تو کچھ کھالیجئے،پیاس لگی ہو تو پانی پی لیجئے،طبعی حاجت کی شدت ہو تو اس سے فارغ ہوجائیے، بچوں کو دور کر دیجئے، شور والی جگہ سے ہٹ کر نماز پڑھنے کا اہتمام کیجئے،سردی گرمی سے بچنے کا مناسب انتظام کر لیجئے، موبائل فون سائلنٹ کر دیجئے وغیرہ۔
ظاہری عوارض کے ساتھ ساتھ باطنی رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ جس چیز کی انسان کو فکر ہوتی ہے، اس کا دل اسی میں مشغول رہتا ہے۔جب دل میں دنیاوی خیالات بھرے ہوئے ہوں گے تو دل اللہ پاک کی طرف کیسے متوجہ ہو گا! لہٰذا کوشش کیجئے کہ ایسی تمام فضولیات سے پیچھا چھڑائیے جن کے سبب آپ کا دماغ مشغول ہو سکتا ہو اور نماز کی خشوع سے ادائیگی میں رکاوٹ کھڑی ہو سکتی ہو۔نیز ضروری کاموں کی ٹینشن سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے کی پوری کوشش کیجئے اور یہ غور کیجئے کہ میری پیدائش کا مقصد عبادتِ الٰہی ہے، دیگر تمام دنیاوی کاموں کا فائدہ وقتی ہے،جبکہ نماز رب کی رضا دلانے اور آخرت بنانے والی ہے۔یہ دنیا اپنے تمام کاموں اور فائدوں سمیت فنا ہو جائے گی جبکہ آخرت دنیا سے بہتر ہے اور باقی بھی رہے گی۔
ہر نماز کو اپنی زندگی کی آخری نماز سمجھ کر پڑھیے۔یوں بھی کوئی نہ کوئی نماز تو ایسی ہو گی ہی کہ جس کے بعد موت آجائے گی اور اگلی نماز پڑھنے کی مہلت نہیں ملے گی،جبکہ موت کا کوئی وقت بھی مقرر نہیں ہے،لہٰذا یہ سوچ کر اچھی طرح خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھئے کہ کیا پتہ اس کے بعد مجھے اگلی نماز پڑھنے کا موقع ہی نہ ملے اور موت آ جائے!
نماز پڑھنے سے پہلے یہ تصور جمائیے کہ میں رب کی بارگاہ میں حاضر ہو رہی ہوں۔اللہ پاک کی عظمت و جلال اور بزرگی کو پیشِ نظر رکھئے اور یہ بھی غور کیجئے کہ ربِّ کریم مجھے دیکھ رہا ہے اور میرے تمام حالات اور خیالات کو جانتا ہے۔اس مالکِ حقیقی کے قبضۂ قدرت میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور وہ فائدہ و نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔پھر یہ بھی یقین رکھیے کہ میں اپنی عبادت کے ذریعے اللہ پاک کے عظیم حق کو ادا کرنے سے عاجز ہوں۔اس طرح اپنا ذہن بنائیے اور خوف و حیا اور امید و عاجزی کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں اس طرح حاضر ہوں جیسے بھاگی ہوئی مجرمہ باندی اپنے آقا کے پاس لوٹ کر واپس آتی ہے۔
نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں، اذکار اور دعاؤں پہ توجہ رکھیے،ان کا ترجمہ یاد کر لیجئے اور معنی سمجھتے ہوئے نماز ادا کیجئے۔ سورۃ الفاتحہ کے بعد پڑھى جانے والى سورتیں بدل بدل کر پڑھیے۔نماز کے ارکان ادا کرتے ہوئے جہاں نظر رکھنا مستحب ہے وہیں رکھیے یعنی قیام کی حالت میں نظر مقامِ سجدہ پر،حالتِ رکوع میں پشتِ قدم پر،حالتِ سجود میں ناک کی طرف اور حالتِ قعدہ میں اپنی گود کی طرف ہو۔
خشوع و خضوع کے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے اور عمل کا جذبہ بڑھانے کے لئے احیاء العلوم کی پہلی جلد سے نماز کا بیان کے باب نمبر 3 کامطالعہ فرمائیے۔اللہ پاک ہمیں عبادت کی لذت عطا فرمائے اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ملیر کراچی
[1] تنبیہ الغافلین،ص291،رقم:834
[2] سبع سنابل، ص 93
[3] سبع سنابل، ص112
[4] احیاء العلوم، 1/ 216
[5] احیاء العلوم، 1/ 217ملتقطاً
[6] حاشیہ صاوی، 4/1356، تفسیر خازن، 3/320، تفسیر نسفی، ص751
[7] عمدۃ القاری، 4/391، تحت الحدیث:741
[8] فتاویٰ رضویہ، 6/205
Comments