موضوع: تین اعلیٰ صفات
حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی حضرت مومنہ رحمۃ اللہ علیہا بھی بلند مرتبہ عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا:آپ کو یہ مرتبہ کس طرح ملا؟ارشاد فرمایا:اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت کے مطابق اللہ پاک کے احکام پر عمل کرنے،ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور نیک لوگوں کی خدمت کرنے کی برکت سے۔ ([1])
حضرت مومنہ رحمۃ اللہ علیہا کی یہ تین اعلیٰ صفات ہم میں سے ہر ایک کو اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔تاکہ ہمیں بھی ان اوصاف کی برکتیں حاصل ہوں:
سنت کے مطابق احکامِ الٰہی پر عمل
سنت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سارے فرمان اور وہ افعال اور احوال ہیں جو مسلمانوں کے لئے قابلِ عمل ہیں،حضور کے یہ افعال شریعت کہلاتے ہیں۔([2]) سنت کا مفہوم اگرچہ کافی وسیع ہے لیکن فقہی اصطلاح میں عام طور پر سنت کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں:سنتِ مؤکدہ و غیر مؤکدہ۔ سنتِ مؤکدہ کو بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والی ملامت کی حق دار ٹھہرتی ہے۔اسے چھوڑنے کی عادت بنانے والی فاسقہ، مردود الشہادۃ اور عذاب کی حق دار ہو جاتی ہے۔حدیثِ مبارک میں سنتِ مؤکدہ چھوڑنے پر معاذ اللہ شفاعت سے محرومی کی وعید بیان کی گئی ہے۔جبکہ سنتِ غیر مؤکدہ پر عمل باعثِ ثواب ہے اور چھوڑنا شرعاً نا پسندیدہ،مگر چھوڑنے پر کوئی وعید یا بار بار چھوڑنے کی صورت میں کوئی گناہ نہیں۔([3])
یاد رہے!سنتوں پر عمل نہ صرف رضائے خدا و رسول کا ذریعہ اور ان سے کامل محبت کی علامت ہے بلکہ اس سے فرائض و واجبات کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔اس لئے ہمیں چاہیے کہ نہ صرف عبادات بلکہ تمام معاملات میں جہاں تک ممکن ہو،اپنے پیارے آقا کی سنتوں کو اپنائیں کہ سنتوں پر عمل نہ صرف باعثِ ثواب اور عبادات کو آراستہ کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ اس کی بدولت ہمارے دنیاوی کام، مثلاً: کھانا، پینا، سونا وغیرہ بھی عبادت بن جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے حقوق کا خیال
بندوں کے حقوق کا خیال رکھنا نہ صرف معاشرتی طور پر امن و سکون اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کا باعث ہے بلکہ آخرت میں کامیاب ہونے کا ذریعہ بھی ہے کہ یہ حقوق حق داروں کے معاف کئے بغیر معاف نہیں ہوتے۔اگر دنیا میں یہ حقوق ادا نہ کئے تو قیامت کے دن یہ حقوق ادا کرنے کے لئے اپنی نیکیاں دینا ہوں گی یا صاحبِ حق کے گناہ اپنے ذمے لینا ہوں گے۔یعنی اللہ پاک کے حقوق پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی وجہ سے جہنم کے حق دار قرار پائیں گے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بندوں کے حقوق کو پورا کرنے پر خصوصی دھیان دیں۔
نیک لوگوں کی خدمت
رضائے الٰہی کے لئے نیک لوگوں کی خدمت کرنا باعثِ ثواب ہے،خواہ یہ خدمت مالی ہو یا عملی۔موقع محل کے مطابق آگے بڑھ کر نیک لوگوں کے کام کیجئے،ان کے لئے آسانیاں پیدا کیجئے، بالخصوص علمائے اہلِ سنت کی کہ یہ حضرات عام طور پر سفید پوش ہوتے ہیں۔لہٰذا اپنی حیثیت کے مطابق ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی مالی خدمت کیجئے تاکہ وہ معاشی فکروں سے آزاد ہو کر دین کی خدمت کرتے رہیں۔ اللہ پاک ہمیں اچھی عادات اپنانے اور بری عادات سے پیچھا چھڑانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ملیر کراچی
[1] طبقات الصوفیہ،ص390،رقم:4
[2] مراۃ المناجیح، 1 /145
[3] جنتی زیور، ص304 ملخصاً۔قانون شریعت،ص222ملخصاً

Comments