بُری عادتیں (قسط:15)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: بری عادتیں (قسط 15)

دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے،ذیل میں ایک اور ایسی وجہ کو ذکر کیا جا رہا ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

معاشی حالات کی وجہ سے علم سے دور ہو جانا

حضرت امام شافعی  رحمۃ  اللہ  علیہ  فرماتے ہیں: جو دولت کے زور اور خودی کے گھمنڈ میں علم حاصل کرتا ہے،ناکام رہتا ہے۔ البتہ جس نے خاکساری،تنگ دستی اور احترام کے ساتھ علم سیکھا وہ کامیاب ہوا۔([1])

معلوم ہوا!حصولِ علم کے لئے دولت کی کثرت ہونا ضروری نہیں۔اگر ہم اپنے علما و مشائخ کے حالاتِ زندگی پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ یتیمی،مسکینی،تنگ دستی اور غربت و افلاس ان کے شوق و ذوق کی چٹانوں کو ہلا نہ سکے۔معاشی مسائل اور وسائل کی کمی ایسی چیزیں نہیں ہیں جو راہِ علم میں حائل ہو کر ہمیں منزل تک پہنچنے سے روک دیں۔ بعض اوقات گھر والوں کی طرف سے بھی پریشر ہوتا ہے کہ گھر میں کمانے والا کوئی نہیں،گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے،لہٰذا پڑھائی کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے تو اس وجہ سے بھی پڑھائی کا سلسلہ روک دیا جاتا ہے۔

اگر اسٹوڈنٹس حصولِ علم میں سنجیدہ اور اپنے مشن سے کامل وفا کرنے والے ہوں تو یہ حالات کی خرابی علمِ دین حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی۔نیز اگرحکمتِ عملی اور حالات و واقعات کے تقاضوں کے مطابق اچھے انداز میں معاملات کو سنبھالا جائے اور جذبہ سچا ہوا تو ہزار راہیں نکل آئیں گی۔

اگر ہم چند صدیوں پہلے کے راہِ علمِ دین کے مسافروں کے معاشی حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ہم تو بہت زیادہ آسائشوں میں ہیں۔ہمارے علمی سفر میں دشواریاں سہولیات نہ ہونے سے نہیں بلکہ آسائشوں کی کثرت کے سبب بھی ہیں۔ جبکہ اُس دور میں کاریں اور ریل گاڑیاں تھیں نہ سائیکل و رکشے تھے، نہ شاندار سڑکیں۔ بجلی جیسی روشنی تو دور کی بات ہے ان کو تو چراغ کے لئے تیل مل جانا بھی غنیمت تھا۔ دوسروں کے گھروں کی روشنی میں کھڑے ہو کر رات بھر مطالعہ کر لیتے اور کھانے کے لئے باسی روٹی کے ٹکڑے مل جاتے تو فضلِ خداوندی سمجھتے۔

منقول ہے کہ امام ابنِ جریر طبری  رحمۃ  اللہ  علیہ  جیسے عظیم مفسرِ قرآن نے طالبِ علمی کے دور میں تنگ خرچی کی وجہ سے اپنے کرتے کی دونوں آستینیں بیچ ڈالیں۔نیز امیر المومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری  رحمۃ  اللہ  علیہ  نے کھانا نہ ملنے پر تین دن متواتر جنگل کی بوٹیاں کھائیں۔([2])

امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم  رحمۃ  اللہ  علیہ   کے متعلق منقول ہے کہ بچپن میں  آپ کے سر سے والد کا سایہ اُٹھ گیا،والدہ نے گھرچلانے کے لئے انہیں ایک دھوبی کے پاس بٹھا دیا، ایک بار یہ امامِ اعظم  کی مجلس میں جا پہنچے، وہاں کی باتیں انہیں اس قدر پسند آئیں کہ یہ دھوبی کو چھوڑ کر وہیں بیٹھنا شروع ہوگئے۔ والدہ کو جب پتا چلتا تو وہ انہیں اٹھاتیں اور دھوبی کے پاس لے جاتیں، جب معاملہ بڑھا تو ان کی والدہ نے امامِ اعظم سے کہا: اس بچےکی پرورش کرنے و الا کوئی نہیں، میں نےاسےدھوبی کے پاس بٹھایا تھا تاکہ کچھ کماکر لاسکے،مگر آپ نے اسے بگاڑ کررکھ دیا ہے۔ امامِ اعظم نے فرمایا: اے خوش بخت! اسے علم کی دولت حاصل کرنے دے وہ دن دُور نہیں جب یہ باداموں اوردیسی گھی کا حلوہ اور عمدہ فالودہ کھائےگا۔ یہ بات سن کر امام ابو یوسف کی والدہ بہت ناراض ہوئیں،کہنے لگیں:(آپ ہم سے مذاق کرتےہیں بھلا)ہم جیسے غریب لوگ باداموں اوردیسی گھی کا حلوہ کیسے کھا  سکتے ہیں؟بہرحال امام ابو یوسف استقامت کے ساتھ علمِ دین حاصل کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ جب عہدۂ قضا ان کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک بار خلیفہ نے ان کی دعوت کی، دورانِ دعوت خلیفہ نے باداموں اور دیسی گھی کا حلوہ اور عمدہ فالودہ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: اے امام!یہ حلوہ کھائیے،روز روز ایسا حلوہ تیارکروانا ہمارے لئے آسان نہیں ۔یہ سُن کر امام ابو یوسف کو امامِ اعظم کی بات یاد آئی تووہ مسکرانے لگے،خلیفہ کے پوچھنے پر فرمایا:میرے استاد ِمحترم امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ  اللہ  علیہ  نے برسوں پہلے میری والدہ سے فرمایا تھا کہ تمہارا یہ بیٹا باداموں اور دیسی گھی کا حلوہ اور فالودہ کھائے گا، آج میرے استادِمحترم کا فرمان پورا ہوگیا۔پھر انہوں نے اپنے بچپن کا سارا واقعہ خلیفہ کو سنایا تو وہ بہت حیران ہوئے اور کہا: بے شک علم ضرور فائدہ دیتا اور دین ودنیا میں بلندی دلواتا ہے۔([3])

علامہ محمود بن سعید مقدیش صفاقسی تونسی  رحمۃ  اللہ  علیہ  نے اپنی کتاب نزہۃ الانظار فی عجائب التواريخ و الاخبار کے خاتمے میں شیخ ابو عبد  اللہ  محمدالغراب  رحمۃ  اللہ  علیہ  کے احوال میں لکھا ہے کہ ان کے والد ایک تاجر تھے انہوں نے ایک بار انہیں ڈھیر سارا مال دیا اور کہا:جاؤ،حج کر آؤ اور بچے ہوئے پیسوں سے(واپسی میں مصر سے)مالِ تجارت خریدتے آنا(تاکہ انہیں بیچ کر نفع حاصل کیا جا سکے۔)شیخ ابو عبد  اللہ  رحمۃ  اللہ  علیہ  حج سے واپسی پر جب مصر پہنچے تو بچے ہوئے سارے پیسوں کی کتابیں خرید کر اپنے ساز و سامان کے ساتھ بھر لیں۔ جب گھر پہنچے تو ان کے والد نے سمجھا یہ سب مالِ تجارت ہے،مگر جب اتارا گیا تو کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ان کے والد نے کہا:بیٹے!مالِ تجارت کہاں ہے؟شیخ ابو عبد  اللہ  رحمۃ  اللہ  علیہ  نے فرمایا:یہ کتابیں ہی میری تجارت ہیں(یعنی تجارتِ اخروی۔)ان کے والد غضب ناک ہو کر بولے:تو نے میرا سارا مال برباد کر دیا اور مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔شیخ ابو عبد  اللہ  رحمۃ  اللہ  علیہ  نے اپنے شیخ سے ماجرا عرض کیا تو ان کے شیخ نے ان کے والد کو بلوا کر فرمایا:(تجارتِ فانیہ کے بجائے)باقی رہنے والی نفع بخش تجارتِ (تجارتِ اخروی)کر لینے پر آپ ناراض کیوں ہو گئے؟دلی اطمینان رکھیے اور مالداری کی خوش خبری لیں کیوں کہ کتابوں کی خریداری،  خوش حالی و مال داری لاتی ہے۔(یہ جو آپ کے لڑکے نے کیا)یہ تجارتِ اُخروی حاصل ہوئی اور اس کے بدلےمیں  اللہ  پاک آپ کو تجارتِ دنیوی عطا فرمائے گا۔پھر شیخ نے ان کے لئے اور ان کی نسل کے لئے حفاظت و برکت کی دعا کی۔ اللہ  پاک نے دعا قبول فرمائی اور آگے چل کر دنیوی کاروبار میں انہیں بہت نفع ہوا اور انہیں ڈھیر ساری دولت ملی۔شیخ محمود مقدیش بتاتے ہیں کہ وہ کتابیں آج تک(تیرہویں صدی کی پہلی چوتھائی تک) محفوظ و موجود ہیں اور لوگ ان کتابوں سے آج تک(دینی و علمی) نفع پا رہے ہیں۔([4])

یہ روشن واقعات ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں، ہمارے بزرگوں نے کتنی مشکلیں کاٹ کر علم حاصل کیا اور اس کی روشن تعلیمات کو ہم تک پہنچایا اور اب ہماری حالت یہ ہے کہ اعلیٰ و شاندار دینی مدارس و جامعات اور ان میں عمدہ انتظامات میسر ہونے، جیب خرچ ملنے اور مفت تعلیم اور کتابوں کی مفت فراہمی کے باوجود حصولِ علم میں ناکام واقع ہوئی ہیں۔لہٰذا اتنی سہولیات کے باوجود بھی معاشی حالات کا رونا رونا اور غربت و افلاس کو بہانہ بنانا محرومی کی علامت ہے۔ اللہ  پاک ہمیں حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* لاہور



[1] جامع بیان العلم و فضلہ،ص137،رقم:446

[2] مطالعہ کی اہمیت، ص 5

[3] عیون الحکایات، ص278 ملخصاً

[4] نزہۃ الانظار فی عجائب التواريخ و الاخبار، 2/371، 370


Share