موضوع: سیدہ زینب بنتِ جحش (قسط 1)
ام المومنین حضرت زینب بنتِ جَحْش اسدیہ رضی اللہ عنہا کا نام بَرَّہ تھا،لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبدیل فرما کر زینب رکھا۔([1])
آپ کے والد کا نام جَحْش اور والدہ کا نام اُمَیْمَہ بنتِ عبد المطلب ہے جو حضور کی پھوپھی ہیں۔([2])
حضرت خُزیمہ میں جا کر آپ کا نسب حضور کے نسب سے مل جاتا ہے۔حضرت خُزیمہ حضور کے 15 ویں دادا جان ہیں۔ والدہ کی طرف سے دوسری پشت میں ہی آپ کا نسب حضور کے نسب سے مل جاتا ہے۔([3])
آپ کی کنیت اُمُّ الحَکَم([4])اور لقب اَوَّاھَہ ہے جو آپ کوبارگاہِ رسالت سے عطا ہوا تھا۔اَوَّاھَہ کا معنی ہے:خشوع کرنے والی اور اللہ پاک کی بارگاہ میں گڑ گڑانے والی۔([5])
آپ نے حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں اور ان کے بعد ہجرتِ مدینہ میں بھی شرکت فرمائی۔([6])
سیدہ زینب کا پہلا نکاح:
ان کی پہلی شادی حضرت زید بن حارِثہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی۔حضرت زید قبیلۂ قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے۔ لڑکپن میں گرفتار ہوکر مکے میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ بطور غلام فروخت ہوئے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حوالے کر دیا، حضور نے نبوت سے پہلے ان کو آزاد کر کے منہ بولا بیٹا بنا لیا اس لئے لوگ ان کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ حضرت زید ابتدا میں ہی اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے، ان پر حضور کی خاص توجہ تھی۔ آپ اہم امور میں ان سے کام لیتے اور لشکر کی قیادت تک ان کے حوالے کردیتے۔([7])
حضرت زید بن حارِثہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضور نے حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کو 10دینار، 60 درہم، کپڑوں کا ایک جوڑا، 50 مُد کھانا اور 30 صاع کھجوریں بطورِ مہر عطا فرمائیں۔([8])
حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کچھ زیادہ عرصہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے نکاح میں نہ رہیں،پھر آپس میں نااتفاقی پیدا ہو گئی۔([9])کیونکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا خاندانِ قریش کی ایک بہت ہی شاندار خاتون تھیں اور حسن وجمال میں بھی یہ خاندانِ قریش کی بے مثال عورت تھیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ کو اگرچہ حضور نے آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا مگر پھر بھی چونکہ وہ پہلے غلام تھے،اس لئے حضرت زینب رضی اللہ عنہا ان سے خوش نہیں تھیں اور اکثر میاں بیوی میں ان بن رہا کرتی تھی۔([10])
آخر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دینے کا ارادہ کر لیا لیکن جب پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس بارے میں بات کی تو آپ نے انہیں منع فرما دیا۔([11])لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہو کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کی خبر دے دی۔([12])
حضور سے سیدہ زینب کا نکاح:
حضرت زید رضی اللہ عنہ کے طلاق دینے کے بعد جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہو چکی تو حضور نے ان کے پہلے شوہر حضرت زید کو پیغامِ نکاح دینے کے لئے ان کے گھر روانہ کیا۔چنانچہ حضرت زید حضرت زینب کے گھر پہنچے اور ان کی طرف پیٹھ کر کے حضور کا پیغامِ نکاح دیا۔([13]) لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے ربّ سے مشورہ کئے بغیر کچھ نہیں کر سکتی،اتنا کہہ کر نماز پڑھنے کی جگہ تشریف لائیں اور سجدے میں سر رکھ کر بارگاہِ الٰہی میں یوں عرض کی:
یا اللہ !تیرے نبی نے مجھے پیغامِ نِکاح دیا ہے،اگر میں تیرے نزدیک ان کے نکاح میں آنے کے لائق ہوں تو تُو ان کے ساتھ میرا نکاح فرما دے۔دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے یہ آیت نازِل فرمائی:
فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا (پ22، الاحزاب: 37)
ترجمہ:پھر جب زید نے اس سےحاجت پوری کر لی تو ہم نے آپ کا اس کے ساتھ نکاح کردیا۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یہ آیت نازل ہونے کے بعد حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا:کون ہے جو زینب کے پاس جائے اور اس کو یہ خوش خبری سنائے کہ اللہ پاک نے اس کو میرے نکاح میں دے دیا ہے؟ خادمۂ مصطفےٰ حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا دوڑتی ہوئی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئیں اور یہ آیت سنا کر خوش خبری دی۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے خوش ہو کر اپنا زیور اتار کر خادمۂ مصطفےٰ کو بطور انعام دے دیا، پھر سجدۂ شکر کیا اور دو ماہ کے روزے رکھنے کی مَنَّت مانی۔([14])
اس کے بعد حضور اچانک آپ کے مکان میں تشریف لے گئے تو آپ نے حضور سے انتہائی حیرانی سے بغیر خطبہ اور بغیر گواہوں کے نکاح فرمانے کی وجہ پوچھی تو حضور نے ان کی حیرانی کو دور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نكاح فرمانے والا ہے اور حضرت جبریل علیہ السلام گواہ ہیں۔([15])
راجح قول کے مطابق یہ نکاح 4 ہجری ذی قعدہ کی پہلی تاریخ کو ہوا اور اسی سال و مہینے میں آپ کی رخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لئے پردے کا حکم نازل ہوا۔([16])
نکاح کے وقت حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کی عمر 25([17])یا 35 سال تھی۔ ([18])
سیدہ زینب بنتِ جحش کے اوصاف و کمالات
آپ حضور کی مقدس بیویوں سے اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ خدا نے مجھ کو ایک ایسی فضیلت عطا فرمائی ہے جو حضور کی مقدس بیویوں میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔([19]) اللہ پاک کی قسم!میں حضور کی دیگر مقدس بیویوں کی طرح نہیں ہوں کیونکہ ان کے نکاح مہروں کے ساتھ ہوئے اور ان کے باپ دادا وغیرہ نے کئے ہیں جبکہ میرا نکاح خود رب نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ فرمایا اور میرے بارے میں قرآنِ کریم کی آیات نازِل فرمائیں جنہیں مسلمان پڑھتے ہیں اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔([20])
ایک اور روایت میں اپنے شاندار فضائل کو حضور کے سامنے یوں بیان کرتی ہیں کہ میں آپ پر آپ کی تمام مقدس بیویوں سے زیادہ حق رکھتی ہوں، میرا مقامِ نکاح ان سب سے بہتر ہے، پردے کے لحاظ سے ان سے زیادہ پختہ ہوں اور رشتہ داری کے لحاظ سے ان سے زیادہ(آپ کے)قریب ہوں۔مجھے رحمٰن نے اپنے عرش کے اوپر سے آپ کے نکاح میں دیا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اس معاملے میں سفیر پیغام بنے۔ میں آپ کی پھوپھی کی بیٹی ہوں اور آپ کی مقدس بیویوں میں میرے علاو ہ کوئی آپ کی قریبی رشتہ دار نہیں۔ ([21])
[1]بخارى،4/153،حديث:6192
[2]اسد الغابہ، 7/138
[3]فیضان امہات المومنین، ص212، 211
[4]اسد الغابہ، 7/138
[5]اسد الغابہ، 7/140
[6]اسد الغابہ، 3 / 195
[7]سیرتِ رسولِ عربی، ص611ملخصاً
[8]تفسیر بغوى، 3/457
[9]تفسیر بغوى، 3/458
[10]سیرت مصطفی، ص671
[11]ترمذی، 5/145، حدیث:3223ملخصاً
[12]مدارج النبوت، 2/476
[13]مسند امام احمد، 20/326، 327، حديث:13025ملخصاً
[14]مدارج النبوت، 2/478، 477
[15]معجم كبیر، 24/40، حديث:109
[16]سیرت سید الانبیا، ص 351، 350
[17]سیر اعلام النبلاء، 3/483
[18]سیرتِ رسولِ عربی، ص 613
[19]سیرتِ مصطفیٰ، ص673ملخصاً
[20]طبقات ابن سعد، 8 / 81
[21]مستدرك، 5/32، حديث:6851
Comments