موضوع: حق تلفی
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 41ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کیے جا رہے ہیں۔)
انسانی رشتوں کے حقوق کی ادائیگی میں ہی زندگی کی اصل خوب صورتی ہے۔ اللہ پاک نے جہا ں ان رشتوں کی پاسبانی کی ہدایت کی ہے وہیں ان کے حقوق بھی واضح کر دئیے ہیں۔
اولادِ آدم کو رب نے بنیادی طور پر دو طرح کے حقوق دئیے ہیں:
.1حقوق اللہ یعنی اللہ پاک کے حقوق
.2حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق
حقوق العباد کی حفاظت،اس کی ادائیگی اور تکمیل کا راستہ قرآن و حدیث کی اطاعت و پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔انسانی حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جو انسانوں کے آپس میں ایک دوسرے پر ہیں،جیسے
*میاں بیوی کے حقوق
*والدین اور اولاد کےحقوق
* استاذ و شاگرد کے حقوق
* پڑوسی کے حقوق
* عام مسلمانوں کے حقوق
* دوستوں کے حقوق
* ملازم کے حقوق
* بہن بھائیوں کے حقوق
* عوام و حکمرانوں کے حقوق
یہ سب حقوق ایسے ہیں کہ اگر ان میں کوتاہی ہوئی تو جب تک صاحبِ حق سے معافی نہ مانگی جائے اور اس سے حق معاف نہ کروایا جائے تب تک ذمہ میں اس کا بوجھ باقی رہتا ہے۔
حقوق العبادکی ادائیگی میں غفلت کرنے سے معاشرے کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے۔ ہر کسی کا حق اسی دنیا میں ہی ادا کرنا آخرت میں ادا کرنے کی نسبت بہت آسان ہے، کیونکہ اگر حقوق معاف کروائے بغیر اس دنیا سے چلی گئیں تو ایک روپیہ دبانے،کسی کو ایک گالی دینے،صرف ایک بار کے گھورنے،جھڑکنے اور الجھنے کے سبب ساری زندگی کی نیکیوں سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جس کے ذمے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور چیز کے معاملے میں ظُلم ہو اسے لازم ہے کہ یہیں دنیا میں اس سے معافی مانگ لے،کیونکہ وہاں (روزِ محشر)نہ دینار ہوں گے اور نہ درہم، اگر اس کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کے حق کی مقدار اس سے لے کر اسے دی جائیں گی،اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس(مظلوم) کے گناہ اس (ظالم) پر رکھے جائیں گے۔([1])
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتی ہے کہ ہمارے آج کے اسلامی معاشرے میں رشتوں کا ادب و احترام اورعظمت و محبت بری طرح پامال ہورہے ہیں،اولاد ماں باپ کی نافرمان بن چکی ہے، بہن بھائی آپس میں حسد و بغض میں مبتلا ہیں جبکہ رشتہ دار ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے لئے دوڑ رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ احکامِ دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔اگر ہم ابھی اور اسی وقت یہ ارادہ کرلیں کہ شریعت کے ہر ہر حکم پر دل و جان سے عمل کریں گی، اللہ پاک کا ڈر اپنے اندر پیدا کر کے اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کریں گی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری ذہنی کشمکش اور نفسیاتی سرکشی میں کمی واقع نہ ہواور ہم شیطانی کھائی میں گرنے سے بچ جائیں۔ ضرورت ہے صرف پکی نیت اور عزم و حوصلے کی۔
محترمہ بنتِ غفور احمد
(درجہ ثانیہ: جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ)
حق تلفی کا مطلب ہے:کسی کے جائز حق کو دبانا، چھیننا یا اسے ادا نہ کرنا۔یہ ایک ایسی برائی ہے جو نہ صرف فرد کی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کے امن و سکون کو بھی برباد کر دیتی ہے۔
انسان جب کسی دوسرے کا حق دبا لیتا ہے تو وہ دراصل ظلم کرتا ہے اور ظلم کبھی دیر تک نہیں رہتا۔دینِ اسلام نے حق تلفی کو سختی سے منع فرمایا ہے اور ہر فرد کو دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔
انسانی معاشرت میں حقوق کی دو بڑی اقسام ہیں:
.1حقوق اللہ یعنی اللہ پاک کے حقوق
.2حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق
حقوق اللہ میں عبادات اور اللہ پاک کے احکام کی پابندی شامل ہے،جبکہ حقوق العباد میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف، دیانت داری اور بھلائی شامل ہے۔
حق تلفی بنیادی طور پر حقوق العباد کی خلاف ورزی ہے۔ اگر کوئی دوسرے کا مال ہڑپ کر لے،اس کی محنت کا بدلہ نہ دے یا وعدہ پورا نہ کرے تو یہ سب حق تلفی میں شامل ہیں۔
حق تلفی کے نقصانات
حق تلفی کے نقصانات نہایت خطرناک ہیں،مثلاً:
*یہ دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے*بھائی چارے کو ختم کر دیتی ہے*معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے*ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگ ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں،وہاں امن قائم نہیں رہ سکتا،وہاں ہر کوئی اپنی ذات کے لئے جیتا ہے اور دوسروں کی پروا نہیں کرتا*اس سے نا انصافی اور بد عنوانی عام ہو جاتی ہے۔
اسلام نے حق تلفی کو ظلم قرار دیا ہے۔چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ کریم فرماتا ہے:
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ 2، البقرۃ: 188)
ترجمہ:اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مظلوم کی بد دعا سے بچو!اگرچہ وہ کافر ہی ہوکیونکہ اس بد دعا کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔([2])
حق تلفی کے خاتمے کے لئے
حق تلفی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ہم انصاف کو اپنا اصول بنائیں۔ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے حقوق پہچانیں اور انہیں وقت پر ادا کریں۔چاہے وہ کسی کا مالی حق ہو،عزت و احترام کا حق ہو یا کسی محنت کا بدلہ،ہر حال میں ایمانداری سے ادا کرنا ہمارا فرض ہے۔
معاشرے میں خوشی،سکون اور بھائی چارہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر کوئی حق داری اور دیانتداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے۔ہمیں اپنے دل و دماغ سے یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی یا حق تلفی نہیں کریں گے۔یہی وہ عمل ہے جو ہمیں ایک اچھا انسان اور ایک مضبوط معاشرے کا حصہ بنا سکتا ہے ۔

Comments