یتیموں پر شفقت
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: یتیموں پر شفقت

باپ گھر کی چھت کی طرح ہوتا ہے کہ جیسے چھت زمانہ کی ٹھنڈی و گرم ہواؤں سے حفاظت کرتی ہے ایسے ہی باپ بھی زمانے کے درد و دکھ اپنے سینے میں سمیٹ کر اپنے بچوں کو سکون اور ٹھنڈک فراہم کرتا ہے،بلا شبہ ایسے شفیق و مہربان باپ کا دنیا سے چلے جانا بچوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا،وہ آسمان سے سیدھا زمین پر آ گرتے ہیں، ان کے لئے دنیا تاریک ہوجاتی ہے،ایسے میں کوئی انہیں سہارا دے، ان کی خواہشات و ضروریات پوری کرے اور سینے سے لگائے تو ان کے غم کا بوجھ کچھ ہلکا ہوجاتا ہے اسی لئے ہمارے دین اسلام نے یتیموں پر شفقت اور ان سے حُسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور اس پر بڑے خوبصورت انعام و اکرام کی خوشخبری سنائی گئی ہے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو یتیم کے سر پر صرف اللہ ہی کی رضا کے لئے ہاتھ پھیرے تو ہر اس بال کے بدلے جس پر اس کا ہاتھ گزرے گا اس کو بہت سی نیکیاں ملیں گی اور جو کسی یتیم لڑکی یا یتیم لڑکے کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر فرمایا کہ میں اور وہ اس طرح جنت میں رہیں گے۔([1])

یاد رہے!بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں، جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ  رہے۔([2]) حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:انسان کا وہ بچہ یتیم ہے جس کا باپ فوت ہوگیا ہو، جانور کا وہ بچہ یتیم ہے جس کی ماں مر جائے،موتی وہ یتیم ہے جو سیپ میں اکیلا ہو اسے دُرِّیتیم کہتے ہیں، بڑا قیمتی ہوتا ہے۔([3])

یتیموں کے ساتھ شفقت بھرا سلوک کرنا،ان کی خبر گیری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے،جو لوگ یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ان کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ جو مسلمانوں میں سے کسی یتیم کو اپنے کھانے پینےمیں شامل کرے تو اللہ پاک اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا بشرطیکہ وہ کوئی ایسا گناہ  نہ کرے جس کے سبب اس کی بخشش نہ ہو(یعنی کفر وشرک نہ کرے۔ ) ([4])اور ایک روایت میں ہے:مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہتر وہ گھر ہے جس میں کوئی یتیم رہتا ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بدتر وہ گھر ہے جس میں کوئی یتیم رہتا ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔([5])

جن کے گھروں میں یتیم ہیں وہ خوب غور کریں کہ وہاں یتیم بچوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے،صرف یتیم رشتہ دار پر ہی نہیں بلکہ مطلقاً ہر یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اجر و ثواب ملنے کی امید ہے۔

یتیم کے ساتھ معاشرتی سلوک:

یتیم ہونا کوئی عیب نہیں، اگر یتیم ہونا عیب ہوتا تو اللہ پاک اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یتیم نہ فرماتا۔مگر افسوس!ہمارے معاشرے میں یتیم کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک رکھا جاتا ہے، وہ باپ کی شفقتوں سے محروم ہوکر زمانے کی ٹھوکروں پر آجاتا ہے۔بلکہ یتیم پر ظلم کرنے میں غیروں سے زیادہ سگے رشتہ دار پیش پیش ہوتے ہیں، ہم اپنے آس پاس اس کی مثالیں دیکھتی ہی ہیں کہ کبھی والد کے انتقال کے بعد بچے اپنے چچا تایا کے زیرِ کفالت آ جاتے ہیں، تو اکثر چچی تائی کی جھڑکیاں اور بےجا ڈانٹ ڈپٹ کا شکار رہتے ہیں،یہاں تک کہ کھانے،پینے اور پہننے ہر چیز میں ان کا دل دکھایا جاتا ہے،انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے،دل سے ان کو اپنایا نہیں جاتا،اپنے بچوں کے بچے ہوئے کھانے اور پہنے ہوئے کپڑے ہی ان کو دیئے جاتے ہیں،عموماً یہ سلوک بچوں کے چچا تایا کی غیرموجودگی میں کیا جاتا ہے اور کبھی چچا تایا بھی اس بدسلوکی میں شریک ہوتے ہیں۔اسی طرح اگر نند بیوہ ہو جائے اور وہ اپنے ننھے یتیم بچوں کے ساتھ بھائی کے گھر آ جائے تو بھی اکثر بھابھیوں کا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ باپ کا ورثے میں چھوڑا ہوا مال چچا تایا ہڑپ کر لیتے ہیں اور اس میں  بھی اہم کردار انہی خواتین کا ہوتا ہے جو اپنے شوہر کا مال تو ان یتیموں پر خرچ کرنا ناگوار جانتی ہیں مگر ان کا مال بڑی مکاری اور ڈھٹائی کے ساتھ ہڑپ کر جاتی ہیں، یہ سب علمِ دین کی کمی کا نتیجہ ہے۔آیات و احادیث میں جہاں یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر خوشخبری موجود ہے وہیں یتیم سے بدسلوکی کی ممانعت اور سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:

فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹)(پ 30،ا لضحی: 9)

ترجمہ:تو کسی بھی صورت یتیم پر سختی نہ کرو۔

اور جو لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں ان کے متعلق فرمایا گیا:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰)(پ4،النسآء:10)

ترجمہ:بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اورعنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آ گ میں جائیں گے۔

یتیم کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟

یتیم پروری کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ذرا تصور کیجیے کہ اگر میری اولاد یتیم ہو جائے تو میں کیا چاہوں گی کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے ؟ بس ویسا ہی سلوک دوسرے یتیموں سے کیجئے، ان کو اپنے بچوں کے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائیے،اپنے بچوں جیسے کپڑے ان کے لئے خرید لائیے،جیسے اپنے بچوں سے مسکرا کر بات کرتی ہیں ایسے ہی ان سے بھی مسکرا کر بات کیجئے،ان کے سر پر ہاتھ پھیریئے، گالوں پر تھپکی دیجئے،ان کی اچھی بات پر شاباشی دیجئے اور ان کی غلط بات پر نہایت اچھے طریقے سے ان کو سمجھانے کی کوشش کیجئے،جو تحفے اپنے بچوں کے لئے لاتی ہیں ان کے لئے بھی لے آئیے،یقین مانیے!تحفہ ملنے پر آپ کے اپنے بچوں کو وہ خوشی نہیں ہوگی جو ان یتیم بچوں کو ہوگی ۔

حضور کی یتیموں پر شفقت:

ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں،آپ کی رحمت سارے جہان کے لئے عام ہے،آپ یتیموں کے بھی والی ہیں، اسی رحمت کی جھلک ملاحظہ فرمائیے کہ جنگ اُحد کے دن واپسی پر حضور سے ایک چھوٹے بچے نے پوچھا:میرے والد کا کیا ہوا؟فرمایا:وہ تو شہید ہوگئے، اللہ پاک ان پر رحم فرمائے!بچہ یہ سن کر رونے لگا تو حضور نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کرلیا، پھر فرمایا:کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہ تمہاری ماں!([6])

ہمیں بھی چاہیے کہ یتیم سے اچھا سلوک کریں،اس سے مسکرا کر ٹھنڈے اور میٹھے لہجے میں گفتگو کریں،اگرچہ ہم باپ کی شفقت سے محرومی کی کمی پوری نہیں کرسکتیں، لیکن نیک سلوک کر کے غم ہلکا ضرور کر سکتی ہیں۔

الغرض یتیموں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے، ان سے اچھا سلوک کریں گی تو ان کو خوشی ملنے پر آپ کے دل کو جو راحت ملے گی اور روح کو جو سکون ملے گا اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا تجربہ شرط ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو یتیموں،مسکینوں کے ساتھ محبت بھرا برتاؤ کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ



[1] مسند امام احمد،36/474،حدیث:22153

[2] در مختار، 10/416

[3] نور العرفان، ص 121

[4] ترمذی، 3/368، حدیث:1924

[5] ابنِ ماجہ، 4/193، حدیث:3679

[6] مجمع الزوائد، 8/295، حدیث:13517


Share