میت کی رسومات (قسط:04)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: میت کی رسومات (قسط 4)

میت کی رسومات کا ذکر جاری ہے، مزید رسومات یہ ہیں:

نوحہ اور نُدْبَہ کرنا

نوحہ یعنی میّت کے اوصاف مبالغہ کے ساتھ بیان کر کے آواز سے رونا جس کو بین کہتے ہیں بالاجماع حرام ہے۔یوہیں واویلا کرنا،وا مصیبتا(ہائے مصیبت)کہہ کے چلّانا،گریبان پھاڑنا،منھ نوچنا،بال کھولنا،سر پر خاک ڈالنا،سینہ کوٹنا،ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور حرام( ہیں۔)([1])لہٰذا ان سب باتوں سے اجتناب کیا جائے۔

اسی طرح میت کے محاسن شمار کرنا،روتے ہوئے آواز کو بلند کرنے میں حد سے تجاوز کرنا نُدبہ کہلاتا ہے یہ بھی حرام ہے۔ ([2])احادیث سے ثابت ہے کہ میت کے محاسن و صفات کو مبالغے کے ساتھ بیان کرنے پر اس کی پوچھ گچھ  ہوتی ہے، چنانچہ

مروی ہے کہ حضرت عبد  اللہ  رضی  اللہ   عنہ   نے عرض کی: یارسول  اللہ صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم!جب مجھ پر غشی طاری ہو ئی اور عورتیں چلا چلا کر کہنے لگیں:ہائے میرے سردار،ہائے میرے پہاڑ!تو ایک فرشتہ کھڑا ہوا اس کے پاس ایک لوہے کی سلاخ تھی اس نے اسے میرے قدموں میں رکھ کر پوچھا: کیا تم ایسے ہی ہو جیسا یہ کہہ رہی ہیں؟میں نے کہا:نہیں! اگر میں ہاں کہہ دیتا تو وہ مجھے اس سے مارتا۔([3])حضرت معاذ رضی  اللہ  عنہ  کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا،آپ نے اپنی بہن سے ارشاد فرمایا:تم جب بھی ہائے فلاں کہتی تو فرشتہ سختی سے جھڑک کر پوچھتا: کیا تم ایسے ہی ہو؟ تو میں کہتا: نہیں۔ ([4])

الغرض کسی کی وفات پر  اللہ  پاک کی رضا پر راضی رہتے ہوئے ہر خلافِ شرع کام بالخصوص نوحہ، واویلا اور بےصبری کی باتوں سے خود بھی بچیے اور  دوسروں کو بھی بچا ئیے کہ یہ کام  اللہ  پاک کی ناراضی اورقضائے الٰہی سے راضی نہ ہونے کو ظاہر کرتے اور مصیبت پر ملنے والے اجر کو ضائع کرنے کا سبب ہیں، لہٰذا صبر اور میت کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے اور اپنا یہ ذہن بنانا چاہیے کہ پوری کائنات  اللہ  پاک کی ملک ہے وہ جو کچھ بھی لیتا ہے وہ ہمارے پاس عاریتاً ہوتا ہے اور  جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ بھی اسی کا ہے، کیونکہ ہمیں دینے سے وہ اس کی ملک سے خارج نہیں ہوتا، لہٰذاوہ جو چاہے کرے۔ جو اس بات پر یقین کر لے یہ اسے صبر و اجر کی امید کی طرف لے جائے گی۔

غسلِ میت کی رسومات

کسی کی یقینی وفات کے بعد اس کے غسل اور کفن و دفن کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ میت کو نہلانا فرضِ کفایہ ہے۔([5])اس کی اصل  فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو غسل دینا اور اُن کے بیٹے سے یہ کہنا ہے:یہ تمہارے مُردوں کا طریقہ ہے۔ ([6]) میت کو غسل دینے کے حوالے سے بہت سی صحیح وغلط باتیں عوام میں رائج ہیں، چند باتیں ملاحظہ فرمائیے:

میت کو غسل کون دے؟

میت کو غسل دینا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے اور احادیث مبارکہ میں اس کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، جیسا کہ ایک روایت میں ہے: جس نے کسی میت کو غسل دیا وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہو جائے گا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اُسے جنا تھا۔([7]) بہتر یہ ہے کہ مرحومہ کے قریبی رشتہ دار مثلاً ماں، بیٹی، بہن، بہو وغیرہ اگر ہوں تو وہ خود غسل دیں یا غسل میں شریک ہوں، کیونکہ گھر والے نرمی سے غسل دیں گے۔

اگر کوئی قریبی رشتہ دار غسلِ میت کے لئے نہ ہو یا ہمت نہ بنتی ہو یا طریقہ معلوم نہ ہو تو کوئی امانت دار اسلامی بہن غسل دے،جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:بہتر یہ ہے کہ نہلانے والا میّت کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہو، وہ نہ ہو یا نہلانا نہ جانتا ہو تو کوئی اور جو شخص امانت دار و پرہیزگار ہو۔([8]) بعض خوش نصیب دینی گھرانوں میں باقاعدہ تربیت یافتہ غسل و کفن کے طریقے کا علم رکھنے والی اسلامی بہنیں مخصوص ہوتی ہیں جو خاندان میں فوت ہونے والی خواتین کو غسلِ میت دیتی ہیں۔

بعض بار غسلِ میت کے لئے کسی ادارے، سینٹر وغیرہ  سے رابطہ کیا جاتا ہے یا پھر یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کے ہاں جس نے غسل دیا تھا اسی کو بلا لیا جائے، اس پر کچھ خاص توجہ نہیں دی جاتی کہ غسل دینے والی کون ہے،امانت دار بھی ہے یا نہیں،کیونکہ میت کو غسل دینے والی کے لئے اس بات کی خصوصی تاکید ہے کہ دورانِ غسل ظاہر ہونے والے میت کے عیوب اور برائیوں کو امانت کی طرح چھپا کر رکھے، کسی پر ظاہر نہ کرے،اگر وہ امانت دار نہ ہوئی تو میت کے عیوب کا چرچا کرے گی،لہٰذا غسل دینے والی کا امانت دار ہونا بہت ضروری ہے، مگر ان باتوں کا خیال نہیں کیا جاتا بس اجرت طے کر کے کسی کو بھی بلا لیا جاتا ہے اور ایسی خواتین بھی اجرت کے لئے غسل دینے آ جاتی ہیں،چاہے انہیں غسلِ میت کا سنت طریقہ معلوم ہو یا نہ ہو۔چنانچہ

غسلِ میت کی اجرت کے حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ میت کو بغیر کسی اجرت کےغسل دینا افضل و بہتر ہے۔البتہ غسلِ میت پر اجرت لینے کے حوالے سے دو صورتیں ہیں: (1) اگر اس کے علاوہ کوئی اور بھی اس قابل ہو جو غسل دے سکے تو اجرت لینا جائز ہے۔ (2)اگر اس کے علاوہ کوئی اور اس قابل  نہ ہو،صرف یہی غسل دے سکتی ہو تو اجرت لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں اسی پر غسل دینا واجب ہے اور واجب پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ ([9])

بعض عورتوں کے غسل دینے یا میت کے قریب جانے کو برا سمجھا جاتا ہے، مثلاً بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کنواری لڑکی میت کو غسل نہ دے، اگر دے گی  تو اس کے لئے اچھا نہ ہو گا، بلکہ اسے میت کے قریب بھی آنے نہیں دیا جاتا، یہ بات غلط ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں۔([10])ایسے ہی بعض علاقوں میں حاملہ(Pregnant)کو بھی میت کے پاس نہیں جانے دیا جاتا اور گمان کیا جاتا ہے کہ اگر حاملہ عورت میت کے قریب آئے تو  اس پر یا اس کے پیدا ہونے والے بچے پر اس میت کا سایہ ہو سکتا ہے۔شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ملتی۔یہ عوامی غلط فہمی ہے،لہٰذا حاملہ عورت نہ صرف یہ کہ میت کے قریب جا سکتی ہے بلکہ اسے غسل بھی دے سکتی ہے۔([11])

بیری کے پتوں سے غسلِ میت

غسلِ میت کے لئے بیری کے پتے پانی میں جوش دے کر اسے استعمال کیا جاتا ہے،اسے استعمال کرنے کے کثیر فوائد مذکور ہیں کہ اس سے میل خوب کٹتا ہے، جوئیں وغیرہ صاف ہوتی ہیں اور اس سے میت کا بدن جلد بگڑتا نہیں۔تین بار غسل دینا سنت ہے،سات بار تک جائز اور بلا وجہ اس سے زیادہ مکروہ۔ بیری کا استعمال پہلی بار میں سنت ہے، باقی میں جائز۔([12])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز ای ون جوہر ٹاؤن لاہور



[1]بہار شریعت،1/854،455،حصہ: 4

[2] جہنم میں لے جانے والے اعمال، 1/ 518

[3] الترغیب و الترہیب، 4/183، حدیث: 3

[4] معجم کبیر،20/35حدیث: 50

[5] بہار شریعت، 1/810، حصہ: 4

[6] در مختار، 3/109

[7] معجم اوسط، 6/ 429، حدیث:9292

[8] بہار شریعت، 1/811، حصہ: 4

[9] فتاویٰ اہلسنت غیر مطبوعہ، فتویٰ نمبر:Mul-594

[10] تجہیز و تکفین کا طریقہ، ص 95

[11] تجہیز و تکفین کا طریقہ، ص 94

[12] مراۃ المناجیح، 2/461


Share