موضوع: میت کی رسومات (قسط 3)
میت کی رسومات کا بیان جاری ہے، مزید رسومات یہ ہیں:
میت پر اظہارِ غم کے طریقے: جب کوئی فرد دنیا سے جاتا ہے تو اس کے لواحقین کو گہرا صدمہ پہنچتا ہے،جس کے اظہار کے لئے وہ مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں، بالخصوص اس موقع پر خواتین روتی پیٹتی،بے صبری کرتی، نامناسب جملے ادا کرتی اور میت کے اوصاف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔چنانچہ میت پر اظہارِ غم کے مختلف طریقے اور احکام ملاحظہ فرمائیے:
میت پر رونا: اس کی دو صورتیں ہیں: بآوازِ بلند رونا اور بغیر آواز کے صرف آنسو بہانا۔دونوں کے احکام جدا ہیں۔(میت پر ) آواز سے رونا منع ہے اور آواز بلند نہ ہو تو اس کی ممانعت نہیں۔([1])
شدتِ غم کے سبب بے اختیار آنسوؤں سے رونے اور دل کے غم پر پکڑ نہیں،بلکہ اگر رحمت کی وجہ سے ہو تو ان دونوں پر ثواب ملے گا جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ایک نواسے کو آپ کی بارگاہ میں حاضرکیا گیا جس پر نزع کا عالَم طاری تھا،آپ کی آنکھیں بھیگ گئیں، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ! یہ کیا؟تو حضور نے ارشاد فرمایا:یہ رحمت ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے اور اللہ پاک اپنے رحم دل بندوں پر ہی رحم فرماتا ہے۔([2])نیز حضور کے پیارے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ نے جب بچپن میں وصال فرمایا تو حضور نے ارشاد فرمایا:آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہوتا ہے مگر ہم وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے رب کو خوش کرے۔بلا شبہ اے ابراہیم!ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں۔ ([3])لہٰذا آہستہ آواز سے رونے یا صرف آنسو بہانے میں حرج نہیں، بلکہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب جان نکل جائے تو کسی کو رونے سے نہ روکیں، کیونکہ زیادہ غم پر نہ رونا سخت بیماری پیدا کرتا ہے۔ ([4])
رونا نہ آئے مگر دکھانے کے لئے آنسو بہانا کیسا؟عورتیں جب کسی کے گھر میت پر آتی ہیں تو خواہ مخواہ میت والوں سے مل کر روتی ہیں، چاہے آنسو نہ آئیں اور مل کر آواز نکالنا ضروری ہوتا ہے یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:چلاّ کر رونا پیٹنا، بناوٹ سے منہ ڈھانکنا وغیرہ یہ سب نیاحت (نوحہ کرنا) ہے اور نیاحت حرام ہے۔([5])ہاں!اگر کسی کی میت دیکھ کر رونا نہ آتا ہو مگر اپنی قبر و آخرت کی فکر ہونے لگے، خوفِ خدا دل میں پیدا ہو، موت کی تیاری کا ذہن بنتا ہو اور قبر کی تنگی یاد کرتے ہوئے اپنے اعمال کی فکر میں آنکھوں سے آنسو نکل آئے تو یہ اچھا ہے۔چنانچہ حضرت عبدُ اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ([6])
کیا میت پر رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے؟مشہور ہے کہ میت پر رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔یہ بات ایک صحیح حدیث کا حصہ ہے جو اپنے ظاہری معنی میں عوام میں مشہور ہو گئی۔چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے:بے شک مردے پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔([7]) اس حدیثِ مبارک میں عذاب سے مراد وہ دکھ اور تکلیف ہے جو میّت کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب گھر والوں کا چلّا کر رونا سنتی ہے۔([8])نیز یہ وعید اس کے حق میں ہے جس نے وصیت کی ہو کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر نوحہ کیا جائے، اگر اس کی وصیت کو نافذ کرتے ہوئے گھر والوں نے نوحہ کیا تو میّت کو اس کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔اگر اس کی وصیت کے بغیر گھر والے نوحہ کرتے ہیں تو میّت کو اس کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جائے گا،کیونکہ اللہ پاک کا فرمان ہے:
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۚ- (پ8، الانعام: 164)
ترجمہ:اور کوئی بوجھ اٹھانے والا آدمی کسی دوسرے آدمی کابوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ ([9])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
زبان سے نا مناسب یا کفریہ جملے ادا کرنا:بعض لوگ کسی کی وفات پر بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی بولتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ بعض تو معاذ اللہ کفریات تک بکنے سے بھی نہیں ڈرتے۔یاد رکھئے!ایسے موقع پر بھی اگر زبان سے کوئی قابلِ گرفت بات نکالی جائے تو اس پر بھی عذاب کی حق داری ہوتی ہے،مثلاً:میّت پر نوحہ کرنا(یعنی چلّا کررونا، جزع فزع کرنا اور کفریہ کلمات بکنا)اور اگر اچھی بات کی جائے تو ثواب بھی ملتا ہے،جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: اللہ پاک آنکھ کے آنسو اور دل کے غم پر عذاب نہیں دیتا بلکہ اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا رحم فرماتا ہے۔یہ فرما کر اپنی زبانِ اقدس کی جانب اشارہ فرمایا۔ ([10])
فوتگی پر بولے جانے والے کفریہ کلمات:امیرِ اہلِ سنت نے اپنی کتاب”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب“میں فوتگی کے موقع پر بولے جانے والے کئی کفریہ کلمات ذکر فرمائے ہیں،ان میں سے چند یہ ہیں،مثلاً:کسی کی وفات پر یہ کہنا کہ نیک لوگوں کو اللہ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللہ کو بھی ضرورت پڑتی ہے،نیز کسی بچے کی وفات پر کہنا کہ آپ کا پھول جیسا بچہ اللہ پاک کو چاہئے ہو گا،اسی واسطے اس نے لے لیا ہو گا ۔ اس کے علاوہ کسی بیوہ کا اپنے شوہر کے انتقال پر کہنا:یا اللہ! تجھے میرے چھوٹے چھوٹے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا؟کسی کے نوجوان بیٹے کی وفات پر کہنا کہ یا اللہ! اس کی بھری جوانی پر بھی تجھے رحم نہ آیا!اگر تجھے لینا ہی تھا تو اس کی بوڑھی دادی یا بڈھے نانا کو لے لیتا!علاوہ ازیں یکے بعد دیگرے کسی کے ہاں وفات ہو جائے تو کہنا:یا اللہ! ہم نے تیرا کیا بگاڑا ہے!آخر ملک الموت کو ہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے!یہ سب جملے کفریہ ہیں۔ ([11])
چونکہ ان کلمات میں اللہ پاک پر اعتراضات ہیں، جوکہ کفر ہے۔لہٰذا ایسے جملے کہنے والوں پر توبہ اور تجدیدِ ایمان لازم ہے۔
انتقال کی خبر سن کر ”اِنَّا للہ“ کہنا:ہمارے معاشرے میں ہر خاص و عام میں رائج ہے کہ کسی کے انتقال کی خبر سن کر اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون کہتے ہیں،یہ ایک اچھا عمل ہے،کوئی بھی مصیبت،یا پریشانی در پیش ہو تو اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون، اَللّٰھمَّ اْجُرْنِی فِی مُصِیْبَتِی وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْھَا کی کثرت کرنی چاہیے، اگرچہ وہ پریشانی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو!چنانچہ مسلم شریف میں ہے:جو ایسا کرے گا اللہ اسے اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا اور اس سے بہتر بدلہ عطا فرمائے گا۔([12])
حلیہ بگاڑ لینا:بہت سے لوگ(کسی کے مرنے پر) اپنا حلیہ بگاڑ لیتے ہیں،چنانچہ ہر ایسا کام کرنا جس سے حلیہ بگڑ جائے،مثلاً ایسا لباس پہننا جو عادتاً نہ پہنا جاتا ہو یا اس طریقے سے نہ پہنا جاتا ہو یا لباس میں سے کوئی چیز کم کر دینا اور اس کے بغیر نکلنا خلافِ عادت ہو (سب حرام ہے)۔ ([13]) (یہ سلسلہ جاری ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلزE.1 جوہر ٹاؤن لاہور
[1] بہارِ شریعت،2/855،حصہ:4
[2] بخاری، 1/434، حدیث: 1284
[3] بخاری، 1/441، حدیث: 1303
[4] اسلامی زندگی، ص 119
[5] فتاویٰ رضویہ، 9/665
[6] شعب الایمان، 502/1، حدیث: 842
[7] بخاری، 1/441، حدیث:1304
[8] مرقاۃ المفاتیح، 4/224، تحت الحدیث:1741
[9] مرقاۃ المفاتیح،4/208، تحت الحدیث: 1724
[10] مسلم، ص 358، حدیث: 2137
[11] کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص 489 تا 494 ملتقطا
[12] مسلم، ص 356، حدیث: 2127
[13] جہنم میں لے جانے والے اعمال، 1/518
Comments