سلسلہ: رسم ورواج
موضوع: میت کی رسومات(قسط1)
*محترمہ بنتِ منصور عطاریہ مدنیہ
کوئی کتنا ہی جی لے آخر مرنا ہی پڑے گا،جب مرنے والا اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو لواحقین اور عزیز و اقارب پر اس کے غسل و کفن دفن کی ذمہ داری آن پڑتی ہے،لیکن تجربہ یہی ہے کہ کفن دفن کے شرعی احکام اور صحیح طریقہ کار سے لاعلم ہونے کے سبب لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض لوگ اپنی برادری و خاندانی رسم و رواج کے مطابق غسل اور کفن دفن کا انتظام کرتے ہیں تو بعض کسی پیشہ ور یا سرد خانے اور ہسپتال سے غسل دینے والے کی خدمت حاصل کر لیتے ہیں اور بعضوں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا تو ایک دوسرے کو مشورے دیتے ہیں کہ یوں یوں کرنا چاہئے۔چونکہ انہوں نے کبھی کسی مردے کو غسل دیا ہوتا ہے نہ انہیں کفن دفن کا طریقہ آتا ہے،لہٰذا ایسی حالت میں بیچارے مردے کو بڑی بےدردی کے ساتھ جیسے تیسے غسل و کفن دے کر دفنا دیا جاتا ہے اور علم نہ ہونے کے سبب بڑے بوڑھوں کی بات پر عمل کر لیا جاتا ہے اس بات کی پروا کیے بغیر کہ یہ عمل شریعت کے نزدیک کیا حکم رکھتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان چاہے کسی قوم، مذہب اور ملک و ملت سے تعلق رکھنے والا ہو، اپنی پیدائش سے لے کر موت تک وہ رسومات کے بندھن میں بندھا ہوا ہے، چنانچہ ہمارے یہاں خوشی و غمی کی دیگر رسومات کی طرح میت کے موقع پر بھی کچھ چیزیں”زندگی کی آخری رسومات“کے طور پر ادا کی جاتی ہیں۔چنانچہ فی زمانہ میت کے متعلق رائج معاملات و رسومات کو دیکھا جائے تو یہ دو طرح کے ہیں: موت سے پہلے اور موت کے بعد۔
موت سے پہلے کے معاملات:
انسان پر موت سے پہلے حالتِ نزع طاری ہوتی ہے،نزع کے لغوی معنی ہیں:کھینچنا اور اس سے مراد روح کا جسم سے نکلنا ہے، اسی کو جان نکلنا اورموت آنا بھی کہتے ہیں۔([1]) یہ وقت چونکہ اخروی کامیابی یا ناکامی کے لئے انتہائی اہم ہے، جیسا کہ مروی ہے:اعمال کا دار و مدار خاتمے پر ہے۔([2])لہٰذا کسی پر ایسا وقت آئے تو قریبی لوگ رونے میں مصروف ہو جاتے ہیں، حالانکہ اس وقت سورۂ یٰسٓ اور سورۂ رعد کی تلاوت کرنی چاہئے۔([3])نیز سنت یہ ہے کہ مرنے والے کو سیدھی کروٹ پر لٹا کر قبلہ رخ کر دیں،یا پھر اسے چِت (کمر کے بل) لٹائیں اور ممکن ہو تو سر کو قدرے اونچا رکھیں تاکہ منہ بھی جانبِ قبلہ ہو جائے، البتہ اگر قبلہ کو منہ کرنے میں دشواری ہو کہ اسے تکلیف ہو گی تو جس حالت پر ہے چھوڑ دیں۔([4])نزع کے وقت اپنے اور اس کے لئے دعائے خیر کرتی رہیے اور کوئی برا کلمہ زبان سے نہ نکالئے کہ اس وقت جو کچھ کہا جاتا ہے فرشتےاس پر آمین کہتے ہیں۔ ([5])
وقتِ نزع کلمہ کی تلقین:
وقتِ نزع کلمہ پڑھنے کی تلقین کرنا مستحب ہے۔([6])یہی وجہ ہے کہ عموماً لوگ مرنے والے کے پاس بلند آواز سے کلمہ پڑھتے ہیں۔لہٰذا اس وقت مکمل کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ ُمُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی تلقین کرنی چاہئے،کیونکہ جو نزع میں ہو،اس کے پاس دو شیطان ماں باپ کی شکل میں آتے ہیں،جن میں سے ایک اسے(معاذ اللہ ) یہودی اور دوسرا عیسائی ہونے کی دعوت دیتا ہے تو کلمہ طیبہ کی تلقین شیطان کے اس وسوسے کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگی اور محض لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللہُ سے یہ وسوسہ دور نہیں ہوگا کہ اتنا یہودی اور عیسائی بھی مانتے ہیں،لہٰذا بوقتِ نزع مکمل کلمہ طیبہ کی تلقین کی جائے تاکہ شیطان کے اس وسوسہ کا علاج ہو سکے۔([7]) یعنی اس کے پاس بلند آواز سے اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھیں۔([8])
حیض و نفاس والی کا نزع کی حالت والے کے پاس جانا کیسا؟
حالتِ نزع والے کے پاس حیض و نفاس والی کو نہیں آنے دیا جاتا،حالانکہ اس میں کوئی حرج نہیں،البتہ!جس کا حیض و نفاس ختم ہوگیا اور اس نے ابھی غسل نہیں کیا اسے اورجس پر غسل فرض ہو اس کو نہیں آنا چاہئےکہ جہاں یہ ہوں وہاں رحمت کےفرشتے نہیں آتے اور اسی طرح مکان میں کتے یا کسی تصویر کا یہی حکم ہے کہ اگر مکان میں ہوں تو ان کو ہٹا دیا جائے۔ ([9])
موت کے بعد کے معاملات:
روح کے بدن سے جدا ہوتے ہی شور شروع ہو جاتا ہے اور میت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ادھر میت کا بدن اکڑنا شروع ہو جاتا ہے، حالانکہ اس وقت میت زیادہ توجہ کی محتاج ہوتی ہے،اس کو اس کے حال پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ ایک چوڑی پٹی جبڑے کے نیچے سے سر پر لے جاکر گرہ دے دیں کہ منہ کھلا نہ رہے اور آنکھیں بند کر دی جائیں اور انگلیاں اور ہاتھ پاؤں سیدھے کر دئیے جائیں، یہ کام گھر والوں میں جو زیادہ نرمی کے ساتھ کر سکتا ہو جیسے باپ یا بیٹا وہ کرے۔([10])
اچانک موت مرنے والے کا حکم:
بعض لوگ اچانک موت کا شکار ہونے والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اسے کلمہ طیبہ پڑھنا نصیب نہیں ہوا۔ حالانکہ اس بارے میں کلام نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خیال رہے کہ اگر مومن بوقتِ موت کلمہ نہ پڑھ سکے جیسے بیہوش یا شہید وغیرہ تو وہ ایمان پر ہی مرا کہ زندگی میں مومن تھا،لہٰذا اب بھی مومن بلکہ اگر نزع کی غشی میں اس کے منہ سے کلمہ کفر سنا جائے تب بھی وہ مومن ہی ہوگا اس کا کفن دفن نماز سب کچھ ہوگی،کیونکہ غشی کی حالت کا ارتداد معتبر نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ مرتے وقت کلمہ پڑھانا حدیث پر عمل کے لیے ہے نہ کہ اسے مسلمان بنانےکیلئے،مسلمان تو وہ پہلے ہی ہے۔([11])
میت کے پیٹ پر آئینہ رکھنا:
بعض لوگ میت کےپیٹ پر الٹا آئینہ رکھنا لازمی سمجھتے ہیں،علمائے کرام اس کے متعلق فرماتے ہیں: میت کے پیٹ پر الٹا یا سیدھا کسی بھی طرح آئینہ رکھنا ضروری نہیں،البتہ!میت کے پیٹ پر لوہا یا گیلی مٹی یا اور کوئی بھاری چیز رکھ دیں کہ پیٹ پھول نہ جائے۔ مگر ضرورت سے زیادہ وزنی نہ ہو کہ ایسا کرنا باعثِ تکلیف ہو گا۔([12])
پیٹ کا بچہ اور ماں دونوں کا انتقال ہو جائے تو؟
جب ماں اور اس کے پیٹ میں موجود بچہ دونوں فوت ہو جائیں تو اس عورت کو اس طرح دفن کیا جائے کہ مردہ بچہ اس کے پیٹ میں رہے۔ مردہ بچہ نکالنے کے لیے مرحومہ کا پیٹ چاک کرنا اور اسے تکلیف دینا جائز نہیں، کیونکہ مردے کو بھی ان چیزوں سے تکلیف ہوتی ہے جن سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے۔([13])
میت کے گھر کھانا پکانا /پکے ہوئے کھانے کو پھینک دینا:
بعض لوگ گھر میں میت ہوتے ہی گھر میں پکا ہوا کھانا پھینک دیتے ہیں اور میت کے گھر کھانا بنانے کو جرم سمجھتے یا اس بات کو لازم سمجھتے ہیں کہ پڑوسی ہی گھر والوں کو کھانا کھلائیں، ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ گھر میں بنا ہوا کھانا اگر کھانے کے لائق ہے، خراب نہیں ہوا تو اسے پھینکنا اسراف و رزق کی بے حرمتی و سخت گناہ ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ عموماً جس گھر میں میت ہو وہ غم کی وجہ سے کھانا نہیں بناتے، اس لیے چاہیے کہ ان کے گھر پہلے دن کھانا بھیج دیا جائے اور اصرار کر کے انہیں کھلایا جائے،لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کھانا بنانا ہی حرام ہو یا بنا ہوا کھانا پھینک دیا جائے بلکہ جب پہلے سے کھانا موجود ہے اگر وہ گھر والوں کو کفایت کرے تو اب دوسروں کو کھانا بھیجنا بھی نہیں چاہیے کہ حاجت نہیں۔([14])نیز اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: موت کی پریشانی کے سبب وہ لوگ پکاتے نہیں ہیں، پکانا کوئی شرعاً منع نہیں، یہ سنّت ہے کہ پہلے دن صرف گھر والوں کے لئے کھانا بھیجا جائے اور انہیں با اصرار کھلایا جائے، نہ دوسرے دن بھیجیں، نہ گھر سے زیادہ آدمیوں کے لئے بھیجیں۔([15])
میّت کے پاس کھڑے ہوکر تلاوت کرنا:
میت کو غسل دینے سے پہلے اس کے پاس کھڑے ہوکر تلاوت کرنا مکروہ ہے،مگر تلاوت کے علاوہ ذکر و اذکار کرنے میں حرج نہیں، البتہ اگر میّت کے پورے بدن کو کسی کپڑے سے ڈھانپ دیا جائے تو غسل دینے سے پہلے بھی تلاوت کر سکتے ہیں۔([16])جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:میّت کے پاس تلاوتِ قرآنِ مجید جائز ہے،جبکہ اس کا تمام بدن کپڑے سے چھپا ہو اور تسبیح ودیگر اذکار ميں مطلقاً حرج نہیں۔([17])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* معلمہ فیضانِ شریعت کورس جامعۃ المدینہ گرلز جوہر ٹاؤن لاہور
[1] تجہیز وتکفین کا طریقہ،ص73
[2] بخاری، 4/274، حدیث: 6607
[3] بہارِ شریعت، 2/808، حصہ: 4 ملخصاً
[4] بہارِ شریعت،2/808،807، حصہ: 4 ملخصاً
[5] بہارِ شریعت،2/808،حصہ:4 ملخصاً
[6] فتاویٰ اہلسنت غیر مطبوعہ،فتویٰ نمبر:Har-5271
[7] فتاویٰ اہلسنت غیر مطبوعہ، فتویٰ نمبر: Har-5271
[8] جوہرہ نیرہ،ص 130
[9] بہارِ شریعت،2/808،حصہ:4ملخصاً
[10] جوہرہ نیرہ، ص 131
[11] مراۃ المناجیح، 2/ 444
[12] فتاویٰ اہلسنت غیرمطبوعہ، فتویٰ نمبر: WAT-344
[13] فتاویٰ اہلسنت غیرمطبوعہ، فتویٰ نمبر:Web-612
[14] فتاویٰ اہلسنت غیرمطبوعہ، فتویٰ نمبر: WAT-3181
[15] فتاویٰ رضویہ، 9/90
[16] فتاویٰ اہلسنت غیرمطبوعہ، فتویٰ نمبر: Har-4203
[17] بہار شریعت، 2/809، حصہ: 4

Comments