سلسلہ: فیضانِ اعلیٰ حضرت
موضوع: قصیدہ معراجیہ (قسط 2)
*محترمہ بنتِ اشرف عطاریہ مدنیہ
2
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
مَلک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:
شادیاں: خوشیاں۔ ملک: فرشتے۔ لے: سُر، انداز۔ گُھر: گانے کا ایک مخصوص انداز۔ عنادل: بلبل۔
مفہومِ شعر:
فرشتے اور آسمان اپنی اپنی طرز میں بلبل کی طرح خوشی کے نغمے الاپ رہے تھے: یہ کیسی بہار ہے! یہ کتنی خوشیوں والی رات ہے!ہر طرف خوشی و شادمانی کا سماں ہے،یہ خوشیاں مبارک ہوں اور باغوں کو بھی یہ آبادیاں مبارک ہوں۔
شرح:
شادی فارسی زبان کے لفظ شاد سے نکلا ہے جس کے معنی خوشی کے ہیں۔عموماً شادی سے مراد نکاح کی خوشی لی جاتی ہے۔البتہ شادی کے معنی خوشی اور جشن کے ہیں۔بہار کا موسم انتہائی خوشگوارموسم ہوتا ہے،حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی معراج کی خوشی میں عرش و فرش پر بہار کا سماں تھا۔ خیالِ رضا پہ قربان!فرماتے ہیں کہ بہار بھی خوشی سے جھوم رہی تھی،اس بہار کو فرشتے اور آسمان خوشی کی مبارکباد پیش کر رہے تھے۔چونکہ حضور کے مبارک قدموں کی برکت سے چمن کو آبادیاں نصیب ہوئیں، لہٰذا فرشتے اور آسمان بلبل کی طرح شیریں انداز میں اسے مبارک باد پیش کر رہے تھے۔
3
وہاں فلک پر یہاں زمین میں رَچی تھی شادی مچی تھی دُھومیں
اُدھر سے اَنوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:
فلک: آسمان۔ شادی: خوشی۔ انوار: نور کی جمع۔ نفحات: خوشبوئیں۔
مفہومِ شعر:
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی معراج کی خوشی میں زمین و آسمان میں دھومیں مچی ہوئی تھیں،آپ کے استقبال کے لئے اللہ پاک کی طرف سے انوار ہنستے مسکراتے آ رہے تھے اور زمین میں ہر طرف خوشبوئیں پھیلی تھیں۔
شرح:
شبِ معراج زمین و آسمان میں خوشی منائی جارہی تھی اور حضور کی عظمت و کرامت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ایک طرف حضور کو دلہا بنایا جا رہا تھا تو دوسری طرف آسمان پہ حضور کی آمد و استقبال کی تیاریاں جاری تھیں، پھر جب حضور معراج کو چلے تو آسمانوں سے انوار کی بارش ہونے لگی اور زمین سے خوشبوؤں کے فوارے ابلنے لگے۔
4
یہ چُھوٹ پڑتی تھی اُن کے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نَصْب آئنے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:
چھوٹ:آزادی۔رُخ:چہرہ۔نصب: گڑے ہوئے، مقرر کیے گئے۔
مفہومِ شعر:
حضور کے مبارک چہرے کے نور سے عرش تک ہر چیز روشن ہو رہی تھی ایسے لگتا تھا جیسے قدم قدم پہ آئینے نصب کیے گئے ہیں جن سے ہر چیز جگمگا رہی ہو۔
شرح:
معراج کی رات حضور کے مبارک چہرے سے روشنی پھوٹ رہی تھی،گویا محسوس یوں ہوتا تھا کہ ہر جگہ آئینے نصب ہیں جن سے ہر چیز چمک رہی ہے۔چونکہ حضور کا چہر ۂ انور ویسے ہی نورانی تھا اور جب اس چہرۂ انور پہ خوشی کے آثار ہوتے تو یہ اور زیادہ دمکنے لگتا،جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور ان کے پاس خوشی کی حالت میں تشریف لائے تو آپ کے چہر ۂ مبارک کے خطوط چمک رہے تھے۔([1])
5
نئی دُلھن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نِکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:
پھبن:سج دھج۔حجر:پتھر،یہاں اس سے مراد حجرِ اَسْوَد ہے۔ بناؤ: سنگھار، سجاوٹ۔
مفہومِ شعر:
معراج کی رات کعبہ معظمہ بھی نئی دلہن کی طرح خوب سجا سنورا تھا اور حجرِ اسود کعبے کی کمر میں کالے تِل کی طرح لگ کر اس کے حسن و جمال میں اضافہ کر رہا تھا۔
شرح:
شبِ معراج کعبے کے حُسن و جمال کا عالم ہی جدا تھا،وہ نئی نویلی دلہن کی طرح سجا سنورا تھا اور گویا اسے نظرِ بد سے بچانے کے لئے حجرِ اسود کالے تِل کا کام کر رہا ہو ۔
6
نظر میں دُولھا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سر جھکائے
سیاہ پردے کے مُنھ پر آنچل تجلّی ذات بحت سے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:
آنچل: پلو۔ بحت: خالص۔
مفہومِ شعر:
کعبہ معظمہ نے اپنی نظر میں حضور کے جلووں کو ایسے بسایا کہ حیا کی وجہ سے گویا اس کی محراب نے اپنا سر جھکا دیا اور اس کے سیاہ غلاف پر اللہ پاک کے خالص جلووں میں سے ایک جلوے کا نورانی آنچل ڈال دیا گیا۔
شرح:
جب حضور حرم شریف میں تیار ہو رہے تھے تو کعبے نے حضور کے جلووں کو اپنی آنکھوں میں بسا لیا،حیا کی وجہ سے محرابِ کعبہ جھک گئی،اس وقت کعبے کے سیاہ غلاف پر انوار و تجلیات کی برسات ہو رہی تھی۔
یاد رہے!کعبہ شریف پر پہلے غلاف نہیں ہوتا تھا،سب سے پہلے اسعد تُبَّع حِمْیَرِی نے کعبہ شریف پر غلاف چڑھایا،([2]) اس کے بعد کعبہ شریف پر غلاف چڑھانے کا معمول ہوگیا۔نیز کعبہ شریف کے غلاف کا رنگ شروع سے سیاہ نہیں تھا،مختلف زمانوں میں دوسرے رنگوں کے غلاف بھی چڑھائے گئے، البتہ اب عرصۂ دراز سے سیاہ رنگ کا ہی غلاف چڑھایا جاتا ہے۔
7
خوشی کے بادل اُمنڈ کے آئے دِلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمہٴ نعت کا سَماں تھا حرم کو خود وَجد آرہے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:
طاؤس:مور۔امڈنا:ابھرنا،ظاہر ہونا۔ سماں: نظارہ۔ وجد میں آنا: جھومنا۔
مفہومِ شعر:
معراج کی خوشی میں ہر طرف خوشی کے بادل چھا گئے، دل خوشی سے جگمگا رہے تھے،ہر طرف حضور کی ثناخوانی کا منظر تھاجس کو دیکھ کر حرم پر بھی وجدانی کیفیت طاری تھی۔
شرح:
زمین وآسمان میں خوشی کا سماں تھا، ملک فلک حضور کی ثنا خوانی میں مصروف تھے،کعبہ بھی وجد میں تھا اور یہ کوئی نئی بات نہ تھی کیونکہ پہلے بھی اس پر حضور کی ولادت کی خوشی میں تین دن اور تین راتوں تک وجد طاری رہا تھا۔([3])
معراج کی رات ہر طرف آپ کی نعت خوانی ہو رہی تھی:
فرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ عرش پہ طُرفہ دھوم دھام
کان جدھر لگائیے انہی کی داستان ہے
کائنات کی ہر چیز حضور کی ثنا خواں کیوں نہ ہو کہ خود اللہ پاک آپ کا ثنا خواں ہے،ربّ کریم نے اپنے پاکیزہ کلام میں اپنے محبوب کی کئی طرح تعریف فرمائی ہے۔کہیں چند آیات میں حضور کی نعت موجود ہے تو کہیں پوری سورت ہی حضور کے اوصاف بیان کرتی نظر آتی ہے،کہیں حضور کے مبارک شہر کی تو کہیں مُبارک چہرے کی قسم بیان فرمائی گئی،کہیں حضور کے خُلْقِ عظیم کا ذکر ہے تو کہیں سیاہ زلفوں کا ذکر ہے، کہیں حضور کے مومنوں پر رؤف و رحیم ہونے کا ذکر ہے تو کہیں اپنی محبت کو پانے کے لیے اپنے محبوب کی پیروی کو لازمی قرار دیا، الغرض سارا قرآن ہی حضور کی نعت ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان) گوجرہ منڈی بہاؤ الدین

Comments