سلسلہ: شرحِ حدیث
موضوع: زندگی کے آخری لمحات کی اہمیت(قسط1)
*محترمہ بِنتِ کریم عطاریہ مدنیہ
حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:ہر بندہ اسی حالت پر اٹھا یا جائے گا جس پر وہ مرا۔([1])
شرحِ حدیث
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:یعنی اعتبار خاتمہ کا ہے، اگر کوئی کفر پر مرے تو کفر پر ہی اٹھے گا اگرچہ زندگی میں مومن رہا ہو اور اگر ایمان پر مرے تو ایمان پر اٹھے گا اگرچہ زندگی میں کافر رہا ہو۔([2]) معلوم ہوا کہ ہر شخص اسی عقیدے اور اسی عمل پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت ہوتا ہے۔لہٰذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارے کیونکہ معلوم نہیں کب زندگی کا چراغ گُل ہو جائے۔
زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے:
زندگی اللہ پاک کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت اور اس کی امانت ہے۔اس کا ہر ہر لمحہ انمول ہے جو ایک بار کھو جائے تو دوبارہ نہیں ملتا۔اگر زندگی کا ایک لمحہ بھی غفلت میں اور یادِ خدا کے بغیر گزار دیا تو وہ بھی بروزِ قیامت حسرت کا باعث ہو گا۔جیسا کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: جنتیوں کو کسی چیز کا بھی افسوس نہیں ہوگا سوائے اس گھڑی کے جو(دنیا میں)اللہ پاک کے ذکر کے بغیر گزر گئی۔([3])
زندگی کے آخری لمحات کی اہمیت:
یوں تو زندگی کا ہر لمحہ ہی قیمتی ہے۔لیکن بالخصوص زندگی کے آخری لمحات کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ یعنی اعمال کا دار و مدار خاتمے پر ہے۔([4]) جبکہ ایک روایت میں ہے کہ اولادِ آدم میں سے بعض مومن پیدا ہوئے،حالتِ ایمان پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں گے، بعض کافر پیدا ہوئے، حالتِ کفر پر زندہ رہے اور کافر ہی مریں گے،بعض مومن پیدا ہوئے، حالتِ ایمان پر زندہ رہے مگر کفر پر مریں گے،بعض کافر پیدا ہوئے، کفر پر زندہ رہے مگر مومن ہو کر مریں گے۔([5]) یعنی دنیا میں مسلمان ہونا اور مسلمان بن کر زندگی گزارنا ہی اصل کامیابی نہیں۔بلکہ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ ہم ایمان سلامت لے کر دنیا سے جائیں۔
بوقتِ نزع آقا ہو نہ جاؤں میں کہیں برباد
مِرا ایمان رکھ لینا سلامت یا رسولَ اللہ
مسلمان ہونا کمال نہیں،مسلمان مرنا کمال ہے:
اللہ پاک کا فرمان ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)
(پ4، الِ عمرٰن:102)
ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔
معلوم ہوا کہ اسلام پر خاتمہ ہونے کا اعتبار ہے۔اگر عمر بھر مومن رہے مرتے وقت کافر ہو جائے تو وہ اصلی کافر کی طرح ہے۔اللہ اچھا خاتمہ فرمائے۔([6])یاد رکھئے! مسلمان ہونا کمال نہیں بلکہ مسلمان مرنا کمال ہے۔([7])
مرنے سے پہلے نیک اعمال کی توفیق:
مرنے سے پہلے اچھے اعمال کی توفیق ملنا بھی اللہ پاک کی نعمت ہے، جیسا کہ مروی ہے:اللہ پاک جب کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے کام لے لیتا ہے۔عرض کی گئی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! وہ کیسے کام لیتا ہے؟ارشاد فرمایا:وہ بندے کو مرنے سے پہلے نیک عمل کی توفیق دے دیتا ہے۔([8])
قیامت تک نیک عمل کا ثواب:
اگر انسان کی موت نیک کام کرتے ہوئے آئے تو اللہ پاک کی رحمت سے امید ہے کہ قیامت تک اس کو اس نیک عمل کا ثواب ملتا رہے گا۔جیسا کہ مروی ہے:جو حج کے لئے نکلا اور مر گیا تو قیامت تک اس کے لئے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو عمرہ کے لئے نکلا اور مرگیا تو اس کے لئے قیامت تک عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو جہاد میں گیا اور مر گیا اس کے لئے قیامت تک غازی کا ثواب لکھا جائے گا۔([9])
برے خاتمے کا خوف:
معلوم ہوا!آخرت کی نجات کا دار و مدار خاتمے پر ہے۔اگر کوئی پوری زندگی ایمان پر قائم رہ کر نیکیاں کرے لیکن خدا نخواستہ زندگی کے آخری لمحات میں ایمان کی نعمت اس سے چھن گئی اور اس کا خاتمہ کفر پر ہوا تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہو گا۔لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ہر وقت ڈرے۔ہمارے بزرگانِ دین کا بھی یہی طرزِ عمل رہا ہے کہ وہ سب سے زیادہ برے خاتمے سے خوفزدہ رہتے تھے۔حالانکہ وہ پوری زندگی اللہ پاک کی اطاعت میں گزارتے ہیں، پھر بھی برے خاتمے سے ڈرتے ہیں اور ایک ہم ہیں جو دن رات اللہ پاک کی نافرمانی میں گزار دیتی ہیں اور یہ خیال تک نہیں آتا کہ اگر اسی حال میں موت آ گئی تو ہمارا کیا بنے گا!اگر معاذ اللہ گناہ کرتے ، سوشل میڈیا پر فحاشی و بے حیائی کے مناظر دیکھتے، گانے باجے سنتے اور بے پردگی کرتے کرتے موت آ گئی تو ہمارا کیا بنے گا! بالخصوص وہ خواتین غور کریں کہ جو شادی بیاہ کے موقع پر فیشن ایبل لباس پہن کر بےپردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، میوزک کی دھن پر ڈانس کرتی ہیں، شادیوں اور دیگر فنکشنز کی وجہ سے نمازیں قضا کر دیتی ہیں، سوشل میڈیا پر نامحرموں سے بات چیت کرتی ہیں، نامحرموں سے ملاقاتیں اور تحائف کا لین دین کرتی ہیں اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرتی ہیں وغیرہ۔اگر اسی حالت میں موت آ گئی تو کیا ہو گا!لمحہ فکریہ ہے!بہت سی نوجوان لڑکیاں ایسی بھی ہیں جو ویسے تو نماز کی پابندی کرتی ہیں لیکن جب خود ان کی اپنی شادی کا موقع ہوتا ہے تو نمازیں قضا کر دیتی ہیں کیونکہ میک اپ پر ہزاروں روپے جو خرچ کئے ہوتے ہیں۔اس ہزاروں روپے کے میک اپ پر پانی بہانا اور وضو کر کے اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہونا ان کے نفس پر دشوار ہوتا ہے۔ذرا سوچئے کہ موت تو اس حالت میں بھی آ سکتی ہے!کتنی ہی حسینائیں ایسی ہوتی ہیں جو شادی کی رات ہی بسترِ عروسی پر جانے کے بجائے قبر میں پہنچ جاتی ہیں۔ وہ خواتین بھی غور کریں جو گاڑی وغیرہ میں معاذ اللہ گانے سنتے ہوئے سفر کرتی ہیں۔اگر اسی حالت میں موت آ گئی تو کیا بنے گا!
موت ایک اٹل حقیقت ہے:
یاد رکھیے!موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن وہ وقت کون سا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں۔لہٰذا نجات اسی میں ہے کہ ہم اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ یہ سوچ کر اللہ پاک کی نافرمانی سے بچتے ہوئے گزاریں کہ ہو سکتا ہے یہی ہماری زندگی کا آخری لمحہ ہو!کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی زبانوں پر زندگی کے آخری لمحات میں کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہوتا اور درودِ پاک کی صدائیں ہوتی ہیں۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی موت نعت شریف سنتے سنتے آتی ہے، جن کی موت سجدے کی حالت میں آتی ہے، قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہوئے آتی ہے، راہِ خدا میں سفر کرتے ہوئے آتی ہے،علمِ دین کی راہ میں آتی ہے،اللہ پاک کی اطاعت کرتے ہوئے آتی ہے۔اے کاش! ہمیں بھی اس صحابی جیسی قسمت مل جائے کہ جن کی زندگی کی ایک گھڑی باقی رہ گئی تھی تو انہوں نے اسے علم سیکھنے میں گزارا اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا۔([10])اللہ پاک ہمارا خاتمہ بھی اچھا فرمائے، ہمیں بھی زندگی کے آخری لمحات تک نیکیاں کرنے کی توفیق بخشے ۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ ٹیچر ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ مجلس جامعۃ المدینہ گرلز
[1] مسلم،ص1178،حدیث:7232
[2] مراۃ المناجیح، 7/153
[3] معجم کبیر، 20/94، حدیث:182
[4] بخاری، 4 /274، حدیث:6607
[5] ترمذی، 4/81، حدیث:2198
[6] تفسیر نور العرفان، ص99
[7] تفسیر نور العرفان، ص30
[8]ترمذی، 4/56، حدیث:2149
[9] مسند ابی یعلیٰ، 5/441، حدیث:6327
[10] تفسیر کبیر، 1/410
Comments