موضوع: سیدہ ام سلمہ رضی اللہُ عنہا (قسط 1)
آپ رضی اللہُ عنہا کا نام ہند،کنیت اُمِّ سَلَمَہ،والد کا نام حذیفہ یا سہیل اور کنیت ابو اُمَیَّہ ہے جبکہ والدہ کا نام عاتکہ بنتِ عامر کنانیہ ہے۔پہلے اپنے چچا زاد بھائی ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد بن مغیرہ کے نکاح میں تھیں جو حضور کے رضاعی بھائی تھے۔ اُمِّ سلمہ و ابو سلمہ دونوں قدیم الاسلام ہیں اور دونوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔نیز ان کے بیٹے سلمہ حبشہ ہی میں پیدا ہوئے۔ پھر مکہ میں آئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
اُمِّ سلمہ پہلی عورت ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ میں آئیں۔ مدینہ ہی میں ان کے ہاں عمر،دُرّہ اور زینب پیدا ہوئے۔([1])
آپ عرب کے سب سے عزت دار قبیلے قریش کی شاخ بنی مخزوم کی چشم و چراغ تھیں۔([2]) حضرت مُرَّہ بن کعب جو کہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتویں جدِّ محترم ہیں، میں جا کر آپ کا نسب حضور کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔([3])
حضور اور آپ کے خاندان میں بہت قریبی رشتہ داری تھی۔حضور کی پھوپھی عاتکہ بنتِ عبد المطلب اُمِّ سَلَمَہ کی سوتیلی والدہ تھیں۔([4]) حضرت ابو سَلَمَہ رضی اللہُ عنہ کے آپ سے دو بیٹے سَلَمَہ و عمر اور دو بیٹیاں زینب و دُرَّہ تھے۔([5])
آپ اپنے پہلے شوہر ابو سلمہ رضی اللہُ عنہ سے بے حد محبت کرتی تھیں اور شوہر کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری کے معاملے میں آپ کا کردار خواتین کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ چنانچہ ایک دن حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہُ عنہا نے حضرت ابو سَلَمَہ رضی اللہُ عنہ سے کہا:مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ میاں بیوی دونوں جنتی ہوں،اس کے بعد وہ عورت کسی سے شادی نہ کرے تو اللہ پاک ان دونوں کو جنت میں جمع فرمائے گا۔اسی طرح جب عورت مر گئی اور اس کے بعد اس کا شوہر زندہ رہا۔آئیے!ہم عہد کریں کہ آپ میرے بعد شادی کریں گے نہ میں آپ کے بعد شادی کروں گی۔اس پر ابو سلمہ نے فرمایا: میری ایک بات مانیں گی؟ اُمِّ سَلَمَہ نے عرض کی:میں جب بھی آپ سے مشورہ کرتی ہوں اس میں میرا ارادہ آپ کی فرمانبرداری کا ہی ہوتا ہے۔یہ سن کر ابو سَلَمَہ بولے:جب میں وفات پا جاؤں تو تم شادی کر لینا۔ اس کے بعد آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی:اَللّٰھُمَّ ارْزُقْ اُمَّ سَلَمَۃَ بَعْدِیْ رَجُلًا خَیْرًا مِّنِّیْ لَا یُحْزِنُھَا وَ لَا یُؤْذِیْھَا الٰہی!اُمِّ سَلَمَہ کو میرے بعد مجھ سے بہتر شوہر عطا فرما جو اسے غم زدہ کرے نہ تکلیف دے۔([6]) آپ فرماتی ہیں:جب حضرت ابو سَلَمَہ کا انتقال ہوا تو میں سوچتی کہ ابو سَلَمَہ سے بہتر کون ہو گا!پھر ان کی بتائی ہوئی دعا مانگی تو اللہ پاک نے مجھے ان کے بدلے حضور عطا فرما دیئے۔([7]) یعنی ایمان کہتا تھا کہ اس دعا کی برکت سے مجھے ان سے بہتر خاوند ملے گا مگر عقل وسمجھ کہتی تھی ناممکن ہے۔ میں نے عقل کی نہ مانی ایمان کی مانی اور دعا پڑھ لی،اس کی برکت سے حضور کے نکاح میں آئی جن پر لاکھوں ابو سَلَمَہ قربان۔([8])ابو سَلَمَہ کے انتقال کے بعد آپ نے ان کی دیگر بچوں کو بھی اپنے حقیقی بچے سمجھ کر پالا پوسا اور مال خرچ کیا۔ جیسا کہ حضرت زینب بنتِ ابی سلمہ رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں:میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یا رسولَ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!میں ابو سَلَمَہ کی اولاد پر خرچ کروں تو کیا مجھے اجر ملے گا؟میں اُنہیں اِدھراُدھر نہیں چھوڑ سکتی وہ میری اولاد ہیں۔فرمایا:ہاں!جو تو ان پر خرچ کرے گی تجھے اس کا اجر ملے گا۔([9]) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ابو سَلَمَہ کی کچھ اولاد دوسری بیوی سے تھی جو اُمِّ سَلَمَہ کی سوتیلی اولاد تھی۔عمر،زینب اور کچھ اولاد خود اُمِّ سَلَمَہ کے بطن سے تھی یعنی اُمِّ سَلَمَہ کی حقیقی اولاد محمد، دُرّہ۔ یہاں سوال سوتیلی اولاد کے متعلق ہے،ورنہ آپ بنی ابی سَلَمَہ نہ فرماتیں۔(فرمایا:ان بچوں پر خرچ کرنے کا تجھے ثواب ملے گا) کیونکہ وہ یتیم بھی ہیں اور تمہارے عزیز ترین بھی۔ان پر خرچ کرنا یتیم کو پالنا بھی ہے اور عزیز کا حق ادا کرنا بھی،اپنے فوت شدہ خاوند کی روح کو خوش کرنا بھی۔([10])
حضور سے نکاح:4 ہجری جبکہ ماہِ شوّال کے ختم ہونے میں دس دن باقی تھے تب سیدہ اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہُ عنہا کی عدت ختم ہوئی اور یہ مہینا ختم ہونے سے کچھ پہلے ہی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آپ سے نکاح فرما لیا۔([11])اور اس مبارک حجرے میں ٹھہرایا جہاں پہلے اُمُّ المساکین حضرت زینب بنتِ خزیمہ رضی اللہُ عنہا رہائش پذیر تھیں کیونکہ اس وقت ان کا انتقال ہو چکا تھا۔([12])
حضور سے آپ کی شادی کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہُ عنہا کی عدت ختم ہونے کے بعد پہلے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے آپ کو پیامِ نکاح دیا لیکن آپ نے انکار کر دیا،پھر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے پیامِ نکاح دیا،آپ نے انہیں بھی انکار کر دیا۔اس کے بعد حضور نے کسی کے ذریعے پیغام بھجوایا تو آپ نے جواباً عرض کی:حضور اور ان کے نمائندے کو خوش آمدید!آپ بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر میری طرف سے عرض کیجئے:میں غیرت مند عورت ہوں (یعنی مجھے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس بیویوں سے رنجش کا ڈر ہے)،عیال دار ہوں اور میرا کوئی ولی موجود نہیں۔نمائندے نے بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر ان کا پیغام سنایا تو آپ نے کہلا بھیجا کہ جہاں تک تمہارے اس قول کا تَعَلُّق ہے کہ میں عیال دار ہوں۔اس سلسلے میں اللہ پاک تمہارے بچوں کو کافی ہو گا۔تمہارا یہ کہنا کہ میں غیرت مند خاتون ہوں۔اس کے لئے میں اللہ پاک سے دعا کروں گا کہ وہ تمہاری غیرت دور فرما دے اور جہاں تک تمہارے اولیا کی بات ہے تو موجود و غیر موجود میں سے کوئی بھی اسے نا پسند نہیں کرے گا۔جب آپ تک یہ پیغام پہنچا تو آپ نے اپنے بیٹے عمر بن ابو سَلَمَہ سے فرمایا: اے عمر!اٹھو اور حضور کے ساتھ میرا نکاح کر دو۔([13])
ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ شوہر کا انتقال ہو گیا تو آپ بڑی بے کسی میں پڑ گئیں، چند چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوگی میں زندگی بسر کرنا دشوار ہوگیا،ان کا یہ حال زار دیکھ کر حضور نے ان سے نکاح فرما لیا اور بچوں کو اپنی پرورش میں لے لیا، اس طرح یہ حضور کے گھر آگئیں اور تمام اُمّت کی ماں بن گئیں۔([14])حضرت ابو سلمہ کی ایک اور بیٹی اُمِّ کلثوم فرماتی ہیں:جب حضور نے حضرتِ اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان سے فرمایا:میں نے نجاشی کی طرف ایک چادر اور چند اُوْقِیَہ(ایک اوقیہ تقریباً تین تولے چار ماشے کا ہوتا ہے) مشک بھیجا ہے، میرا نہیں خیال کہ یہ چیزیں اس کے پاس پہنچنے تک وہ زندہ رہے گا اور یہ اسے ملیں گی بلکہ مجھے واپس کر دی جائیں گی۔ جب وہ مجھے واپس کر دی جائیں تو وہ تمہارے لئے ہیں۔ راوی فرماتے ہیں:جیسا حضور نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا کہ آپ کا تحفہ واپس کر دیا گیا،پھر آپ نے تمام مقدس بیویوں کو ایک ایک اُوْقِیَہ مشک عطا فرمائی اور باقی سارا مشک اور چادر اُمِّ سَلَمَہ کو عطا فرما دئیے۔([15]) (یہ سلسلہ جاری ہے)
[1]سیرت رسول عربی،ص609ملخصاً
[2]فیضان امہات المومنین،ص160
[3]فیضان امہات المومنین،ص159
[4]الجوہرۃ فی نسب النبی و اصحابہ العشرہ،2/66
[5]مواہب لدنیہ،1/407
[6]طبقات ابن سعد،8 /70
[7]مسلم،ص359،حديث:2126 ملتقطاً
[8]مراۃ المناجیح،2/445
[9]مسلم،ص389،حدیث: 2320
[10]مراۃ المناجیح،3/118
[11]طبقات ابن سعد،8/69
[12]طبقات ابن سعد،8/ 73
[13]طبقات ابن سعد،8/71
[14]جنتی زیور،ص 488
[15]مسند امام احمد،45/246،حديث:27276
Comments