سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا (قسط:02)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: سیدہ ام سلمہ (قسط 2)

ام المومنین حضرت بی بی ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  کی زندگی صبر و استقامت،جذبہ ایمانی،جوشِ اسلامی،علم و عمل،محنت و جفا کشی،عقل و فہم کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کی مثال مشکل ہی سے مل سکے گی،ان کے کارناموں اور بہادری کی داستانوں کو تاریخِ اسلام کے اوراق میں پڑھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اے آسمان بول!اے زمین بتا!کیا تم نے حضرت اُمِّ سَلَمَہ  رضی اللہ عنہا  جیسی شیر دل اور پیکرِ ایمان عورت کو ان سے پہلے کبھی دیکھا تھا۔([1])حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے ساتھ نکاح کے بعد گھر میں قدم رکھتے ہی آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور سلیقہ شعاری و ہنر مندی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں نبھانے میں فوری مصروف ہو گئیں۔جیسا کہ مروی ہے کہ جب آپ گھر میں داخل ہوئیں تو مٹی اور پتھر سے بنے چند برتن دکھائی دئیے۔آپ نے برتنوں میں جھانکا تو ایک میں جَو اور دوسرے میں تھوڑا سا گھی تھا۔آپ نے جَو لے کر پیسے،پھر انہیں گوندھا اور گھی لے کر سالن کے طور پر پکایا۔شادی کی رات یہ پہلا کھانا آپ نے حضور کے ساتھ کھایا۔([2])

اعلیٰ اوصاف

.1آپ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔([3])

.2آپ پردہ دار،پاک دامن،عورتوں میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والی،سب سے زیادہ حسن و جمال والی، نسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ شرف والی اور شرعی احکام و قوانین میں مہارت رکھنے والی تھیں۔([4])

.3حضور کی مقدس بیویاں حضرت عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما  آپ کے حسن و جمال کے گن گاتی تھیں۔ ([5])

.4آپ کامل عقل اور درست رائے جیسی صفات سے آراستہ تھیں۔حضور کو حدیبیہ کے دن دیا گیا ان کا مشورہ ان کی کامل عقل اور درست رائے کی دلیل ہے۔([6])کیونکہ حضور نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر آپ سے مشورہ کر کے آپ کی رائے کو شرفِ قبولیت سے نوازا۔([7])شارحِ بخاری حضرت علامہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:اس میں مشورہ کرنے کی فضیلت، صاحبِ فضل و کمال عورت سے مشورہ کرنے کا جواز،اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا  کی فضیلت اور آپ کی سمجھ داری  و ذہانت کا بیان ہے،یہاں تک کہ امام الحَرَمین امام ابو المَعالی عبدُ الملك بن عبدُ  الله  جُوَينی  رحمۃ اللہ علیہ  نے آپ کے بارے میں فرمایا:حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا  کے علاوہ ہم کسی ایسی خاتون کے بارے میں نہیں جانتے جس کی رائے درست ثابت ہوئی ہو۔([8])

.5آپ نے حبشہ میں قیام کے دوران شاہِ حبشہ کی قبر پر نور دیکھا۔([9])

.6حضور  نمازِ عصر کے بعد اپنی مقدس بیویوں کے پاس باری باری تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ کے پاس تشریف لاتے کیونکہ آپ عمر میں ان سے بڑی تھیں۔ ([10])

.7حضور نے آپ کو بیماری کے سبب سواری پر سوار ہو کر طواف کی اجازت عطا فرمائی۔([11])

.8آپ کی سخاوت کا یہ عالَم تھا کہ ایک بار چند مسکینوں نے صدا لگائی تو آپ نے لونڈی سے فرمایا:ہر ایک کو کچھ دو،کچھ نہ ہو تو ایک ایک کھجور ہی انہیں دے دینا۔([12])

.9آپ کے پاس حضور کے موئے مبارک تھے،جب کسی انسان کو نظرِ بد لگ جاتی یا کوئی اور بیماری آ جاتی تو آپ  ان موئے مبارک سے علاج فرماتیں۔([13])

.10آپ نے فرشتوں کے سردار حضرت جبریلِ امین علیہ السلام کی صحابیِ رسول حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ  کی شکل میں زیارت کرنے کا شرف پایا۔([14])

.11حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کی توبہ کی قبولیت سحری کے وقت نازل ہوئی اور اس وقت حضور بی بی اُمِّ سلمہ کے حجرے میں تھے۔([15])

.12کئی جنگوں اور غزوات میں آپ کو حضور کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ چنانچہ

.13غزوۂ مریسیع یعنی غزوۂ بنی مصطلق میں اُمُّ المومنین حضرت عائشہ اور اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہما  بھی حضور کے ساتھ شریک تھیں۔([16])

.14حضور ایک بار یہودیوں کی مدینے پر چڑھائی کو روکنے کے لئے صحابہ کرام  علیہم الرضوان  کا لشکر لے کر خیبر روانہ ہوئے تو آپ کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔([17])

.15حضور نے غزوہ طائف میں حضرت اُمِّ سَلَمَہ اور حضرت زینب کے لئے دو خیمے گاڑے تھے اور جب تک طائف کا محاصرہ رہا آپ ان دونوں خیموں کے درمیان میں نمازیں پڑھتے رہے۔جب قبیلۂ ثقیف کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو ان لوگوں نے اسی جگہ پر مسجد بنالی۔([18])

.16ایک بار جب آپ نے اس بات کی خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر ہم بھی مرد ہوتے تو جہاد کرتے اور مردوں کی طرح جان فدا کرنے کا ثوابِ عظیم پاتے۔([19])اس پر یہ آیت  مبارکہ:

وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْاؕ-وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَؕ- (پ5،النسآء  :32)

(ترجمہ:اور تم ا س چیز کی تمنا نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پرفضیلت دی ہے۔مردوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے،اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے)

نازل ہوئی اور انہیں تسلی دی گئی کہ مرد جہاد سے ثواب حاصل کر سکتے ہیں تو عورتیں شوہروں کی فرمانبرداری اور پاک دامنی سے ثواب حاصل کرسکتی ہیں۔([20])

.17حضور نے ان کے سنوارے جانے کو جنت کے سنوارے جانے سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:ان(شہدا      سے افضل مجاہدین)کے لئے جنت یوں سنواری جاتی ہے جیسے اُمِّ سَلَمَہ کو نبی کے لئے سنوارا گیا۔([21])

.18آپ کی شفقتیں اور مہربانیاں صرف اپنی اولاد تک محدود نہ تھیں بلکہ اپنی خدمت گزار خواتین کی اولاد پر شفقت کرنے کے معاملے میں بھی آپ کا کردار لائقِ تقلید تھا۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب امام حسن بصری  رحمۃ اللہ علیہ  کی والِدہ جو کہ آپ کی کنیز تھیں کسی کام میں مصروف ہوتیں اور آپ رونے لگتے تو اُمُّ المومنین انہیں چپ کرانے کیلئے  اپنا دودھ پلا دیا کرتیں تھیں۔([22])

.19حضور کے وصال کے وقت آپ کا ہاتھ حضور کے سینہ اقدس پر تھا جس کی برکت سے کئی دنوں تک آپ کے اس ہاتھ سے کستوری کی خوشبو آتی رہی۔([23])

.20آپ کو قرآن سمجھنے کا اس قدر شوق تھا کہ آپ حضور سے مختلف آیات کی تفاسیر پوچھتی تھیں۔([24]) آپ ایک بہترین قاریہ بھی تھیں،چنانچہ جب آپ سے حضور کی قراءتِ قرآن کے متعلق پوچھا گیا تو آپ حضور کی قراءت اس طرح بتانے لگیں کہ ایک ایک حرف الگ الگ۔([25]) یعنی حضرت اُمِّ سَلَمَہ( رضی اللہ عنہا )نے خود قراءت کر کے سنائی تو اس قراءت شریف میں دو خوبیاں تھیں ایک تو نہایت ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر تھی، دوسرے ہر حرف اپنے مخرج سے صحیح ادا ہوتا تھا۔معلوم ہوا کہ آپ بڑی قاریہ تھیں،ورنہ حضور انور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی قراءت کی نقل نہ کرسکتیں۔([26])

.21حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے آپ کو کربلا کی سرخ مٹی عطا فرما کر ارشاد فرمایا تھا کہ جب یہ خون ہو جائے توجان لینا کہ حسین شہیدہو گیا۔چنانچہ آپ نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھ دی اور کہا کرتیں کہ جس دن یہ مٹی خون ہو جائے گی کیسی سختی کا دن ہو گا۔([27])

.22آپ انتہائی درد دل رکھنے والی خاتون تھیں جو لوگوں کے جرم و قصور معاف کروانے اور ان کی جائز سفارش کرنے کے معاملے میں سر گرم رہا کرتی تھیں،چنانچہ حضور کے چچا حارث بن عبدالمطلب کے بیٹے ابو سفیان اور حضور کے پھوپھی زاد بھائی عبد اللہ بن ابی اُمیہ جو بی بی اُمِّ سَلَمَہ   رضی اللہ عنہا  کے سوتیلے بھائی بھی تھے، نے اگرچہ حضور کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں اور حضور بھی ان دونوں سے انتہائی ناراض و بیزار تھے،مگر حضرت اُمِّ سَلَمَہ  رضی اللہ عنہا  نے ان دونوں کا قصور معاف کرنے کے لئے بہت ہی پرزور سفارش کی تو حضور نے انہیں معافی سے ہی نہیں نوازا بلکہ ابو سفیان بن حارث کے متعلق فرمایا:مجھے امید ہے کہ ابو سفیان بن حارث میرے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قائم مقام ثابت ہوں گے۔([28])

.23آیتِ تطہیر آپ کے مقدس گھر میں نازل ہوئی اور حضور نے آپ کو اور آپ کی بیٹی کو اپنے اہل ِ بیت میں شامل فرما کر آپ کی دلجوئی فرمائی۔چنانچہ اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سَلَمَہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں:میرے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی:

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)22،الاحزاب:33)

(ترجمہ:اے نبی کے گھر والو!اللہ  تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر نا پاکی دور فرما دے اور تمہیں  پاک کر کے خوب صاف ستھرا کر دے۔)

تو حضور نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن و حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو بلا کر فرمایا:یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں:میں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !کیا میں بھی اہلِ بیت سے ہوں؟حضور نے فرمایا: کیوں نہیں!ان شاء اللہ۔([29])  ایک روایت میں ہے کہ جب حضور نے امام حسن و حسین اور سیدہ خاتون جنت کے متعلق یہ فرمایا: اللہ پاک کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے اہلِ بیت!بے شک وہی سب خوبیوں اور عزت والا ہے۔تو یہ سن کر اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا  رونے لگیں،حضور نے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کی:آپ نے حسنین کریمین اور بی بی فاطمہ (رضی اللہ عنہم) کو اہلِ بیت فرمایا لیکن مجھے اور میری بیٹی کو یہ شرف نہیں بخشا۔آپ نے فرمایا:تم اور تمہاری بیٹی بھی اہلِ بیت میں سے ہیں۔([30]) بعض روایات میں ہے کہ حضور انور نے اُمِّ سَلَمَہ( رضی اللہ عنہا ) کو بھی کمبل میں لے لیا،پھر یہ دعا فرمائی۔خیال رہے کہ لفظ پنجتن پاک اس حدیث سے لیا گیا ہے اور یہ واقعہ بہت بار ہوا کبھی اُمِّ سَلَمَہ ( رضی اللہ عنہا )  کو کمبل شریف میں داخل نہیں کیا اور کبھی داخل فرما لیا ہے۔([31])

.24حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  سے آپ کو بڑی محبت تھی، چنانچہ ایک بار  حضور آرام کے بعد بیدار ہوئے تو آپ کے مبارک جسم پر کھجور کی چھال سے بنے بستر کے سبب پڑنے والے نشان دیکھ کر رونے لگیں تو حضور نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے رونے سے منع فرمایا۔([32])

.25حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  سے آپ کی محبت اور آپ کے عشق کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ اپنے غلاموں کو پوری زندگی حضور کی خدمت گزاری کی تاکید کیا کرتیں۔ چنانچہ ایک بار آپ نے اپنے غلام حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:میں تمہیں اس شرط پر آزاد کرتی ہوں کہ تم پوری زندگی حضور کی خدمت کرتے رہو۔انہوں نے عرض کی:اگر آپ یہ بات شرط  نہ بھی کرتیں تب بھی میں کبھی حضور سے جدائی اختیار نہ کرتا۔پھر آپ نے انہیں حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی خدمت گزاری کی شرط پر آزادی عطا فرمائی۔([33])

.26آپ میں موجود خوبیوں  اور عمدہ ترین اوصاف کی گواہی دیگر ازواج سے بھی منقول ہے،چنانچہ ایک بار حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے عرض کی:خالہ جان!حضور کو کون سی مقدس بیوی زیادہ محبوب تھیں؟فرمایا:میں اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی۔البتہ!حضرت زینب بنتِ جحش اور حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہما  کو بارگاہِ اقدس میں خاص مقام حاصل تھا اور میرا خیال ہے کہ میرے بعد یہ دونوں حضور کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔([34])

احادیثِ مبارکہ کی خدمت:

امہات المومنین کو بہت سی حدیثیں یاد تھیں مگر حضرت عائشہ و اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہما  ان میں ممتاز تھیں۔([35]) آپ سے 378 حدیثیں مروی ہیں۔جن میں سے تیرہ پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہے اور تین کے ساتھ امام بخاری اور تیرہ کے ساتھ امام مسلم منفرد ہیں۔باقی دیگر کتب میں ہیں۔([36]) آپ نے حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ،ابو سَلَمَہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما  سے احادیث روایت کی ہیں۔([37]) جبکہ حضرت ابنِ عباس،حضرت عائشہ،حضرت ابو سعید خدری، حضرت عمر بن ابو سَلَمَہ،حضرت انس،حضرت زینب ([38])ان کے علاوہ آپ کی اولاد، بھائی،بھتیجے،غلاموں،صحابہ و تابعین وغیرہ نے آپ سے احادیث روایت کی ہیں۔([39])

سفرِ آخرت:

اُمُّ المومنین حضرت ا ُمّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ حضر ت سعید بن زید رضی اللہ عنہ  پڑھائیں، لیکن جب آپ کا انتقال ہوا تو جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھایاکیونکہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا انتقال آپ سے پہلے ہی ہو گیا۔([40])امام شمس الدین ابو عبدُ  الله   محمد بن احمد ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:حضور کی مقدس بیویوں میں سب سے آخر میں انتقال فرمانے والی آپ ہی ہیں۔آپ نے بہت لمبی عمر پائی یہاں تک کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا زمانہ پایا۔ان کی شہادت کی وجہ سے آپ پر غشی طاری ہو گئی، آپ بہت زیادہ غمگین ہوئیں یہاں تک کہ بہت کم عرصہ زندہ رہنے کے بعد انتقال فرما گئیں([41]) اور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا۔([42])

تاریخِ وصال:

ان کی وفات کے بعد دنیا اُمَّہاتُ المومنین سے خالی ہو گئی۔([43])مدینہ منورہ میں 84 برس کی عمر پا کر وفات پائی، ان کی وفات کا سال 53ھ ہے۔بعض مؤرخین کا قول ہے کہ ان کے وصال کا سال  59ھ ہے اور ابراہیم حربی نے فرمایا کہ 62 ہجری  میں ان کا انتقال ہوا اور بعض کہتے ہیں کہ 63 ہجری کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے۔([44])



[1]جنتی زیور،ص488

[2]طبقات ابن سعد،8/ 73

[3]فیضان امہات المومنین،ص24

[4]سیر اعلام النبلا،3/475،474ملتقطاً

[5]اصابہ،8/406ملخصاً

[6]اصابہ،8/406ملخصاً

[7]بخاری،2/227،حدیث:2732ماخوذاً

[8]فتح الباری،6/294،تحت الحدیث:2733

[9]مراۃ المناجیح،8/273

[10]سبل الہدی،11/ 190

[11]بخاری،3/ 335،حدیث:4853ملخصاً

[12] استیعاب،4/493 ملخصاً

[13]بخارى،4/76،حديث:5896

[14]بخارى،2/510،حديث:3634ملخصاً

[15]سيرة ابنِ ہشام،ص397

[16]سیرت مصطفیٰ،ص306

[17]مواہب لدنیہ،1/282ماخوذاً

[18]سیرۃ ابن ہشام،ص502

[19]تفسیر جلالین،ص75

[20]تفسیر صراط الجنان،2/193

[21]مکاشفۃ القلوب،ص49

[22]تفسیر روح البیان،8/ 354

[23]دلائل النبوة للبيہقى،7/219

[24]معجم کبیر،23/368،367حدیث:870مفہوماً

[25]مشکاۃ المصابیح،1/413،412،حدیث:2204

[26]مراۃ المناجیح،3/271

[27]معجم کبیر،3/108،حدیث:2817

[28]مواہب لدنیہ،1/311،310

[29]شرح السنہ،7/204،حدیث:3805

[30]تاریخ ابن عساکر،3/209

[31]مراۃ المناجیح،8/452

[32]المطالب العالیہ،7/608،حديث:3176

[33]ابوداود،4/31،حديث:3932

[34]طبقات ابن سعد،8 /91

[35]سیرت رسول عربی،ص607

[36]سیرت رسول عربی،ص610

[37]اصابہ،8/406

[38]معرفۃ الصحابہ،6/3218، مراۃ المناجیح،اجمال ترجمہ اکمال،8/38

[39]اصابہ،8/406ملخصاً

[40]اصابہ،8/407

[41]سیر اعلام النبلاء،3/474

[42]مواہب لدنیہ،1/ 408

[43]سیرت مصطفیٰ،ص684

[44]سیرت مصطفیٰ،ص667


Share