شرح شجرہ قادریہ ،رضویہ،ضیائیہ،عطاریہ
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع:شرح شجرۂ قادریہ،رضویہ،ضیائیہ،عطاریہ

اللہ پاک نے ہر دور میں اپنے محبوب کی امت کو ایسی ہستیاں عطا فرمائیں جنہوں نے نہ صرف خود نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنے جیسے اہم فریضہ کو انجام دیا بلکہ دوسروں کو بھی یہ اہم کام کرنے کا ذہن دیا، انہی میں ایک ہستی امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ بھی ہیں۔ آپ نے جس عظیم دینی تحریک دعوتِ اسلامی کی شروعات کی اس نے ہر خاص و عام کی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا۔

آپ اپنے چاہنے والوں اور والیوں کو سلسلۂ قادریہ، رضویہ،ضیائیہ،عطاریہ میں مرید کرتے ہیں اور مشائخِ کرام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ بیعت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مریدین و طالبین کو اوراد و وظائف اور دعائیہ اشعار پر مشتمل ایک شجرہ شریف بھی عطا فرماتے ہیں،ان اشعار میں سلسلہ عالیہ کے تمام مشائخ کے نام اس ترتیب سے لکھے ہوتے ہیں کہ سلسلہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تک پہنچتا ہے۔

الحمد للہ!امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نے بھی اپنے مریدین و طالبین کو”شجرۂ قادریہ،رضویہ،ضیائیہ،عطاریہ “بصورتِ رسالہ عطا فرمایا ہے جس کے آخر میں شجرۂ عالیہ اشعار کی صورت میں موجود ہے۔اس رسالے میں گناہوں سے بچنے،روزی میں برکت،کسی کام میں رکاوٹ اور مختلف مسائل کے حل کے لئے کم و بیش 52 اوراد و وظائف بھی لکھے ہیں جو امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کے مریدین و طالبین کے علاوہ کسی اور کو پڑھنے کی اجازت نہیں۔

شجرۂ عالیہ کے اشعار کس نے لکھے؟

شجرۂ عالیہ کُل 23  اشعار پر مشتمل ہے۔شروع کے 18 اشعار اور مَقْطَع(آخری شعر) امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ہے۔ان کے وصال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا  حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ جانشین ہوئے تو انہوں نے ایک شعر کا اضافہ فرمایا جبکہ شعر نمبر  20  اور  22 امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کا ہے۔21 واں شعر کس کا ہے؟اس کے بارے میں یقینی طور پر معلوم نہ ہوسکا۔

شجرۂ عالیہ کی خوبی:

ان اشعار کی ایک خوبی یہ ہے کہ مصرعہ میں جہاں کسی بزرگ کے نام یا ان کے مشہور وصف کو ذکر کرتے ہوئے وسیلہ بنا کر دعا مانگی گئی ہے وہیں اس نام کے الفاظ یا نام کے معنی کی مناسبت سے اللہ پاک سے نعمت طلب کی گئی ہے ۔ جیسے

مشکلیں حل کر شہِ مشکل کشا کے واسطے

کر بلائیں رد شہیدِ کربلا کے واسطے

شجرہ شریف پڑھنے کے فوائد:

شجرۂ عالیہ اپنے بزرگوں کے وسیلے سے مانگی جانے والی منظوم دعا ہے جو دنیوی اور اخروی مصیبتوں اور مشکلات کے حل کے لئے مؤثر ذریعہ ہے۔ شجرۂ عالیہ کو پڑھنے کی بہت زیادہ برکتیں ہیں۔چنانچہ

 اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:شجرہ حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تک بندے کے اِتِّصال کی سند ہے شجرہ خوانی سے متعدد فوائد(حاصل ہوتے) ہیں: مثلاً

اول:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تک اپنے اِتِّصال کی سند کا حفظ۔

دوم:صالحین کا ذکر کہ مُوجبِ نزولِ رحمت ہے۔

سوم:نام بنام اپنے آقایانِ نعمت کو ایصالِ ثواب کہ ان کی بارگاہ سے مُوجبِ نظرِ عنایت ہے۔

چہارم:جب یہ اوقاتِ سلامت میں ان کا نام لیوا رہے گا تو وہ اوقاتِ مصیبت میں اس کے دستگیر ہوں گے۔([1])

شجرۂ قادریہ،رضویہ،ضیائیہ،عطاریہ امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کے مریدوں کے لئے مرجھائی ہوئی زندگی میں خوشیوں کی بہار کی طرح ہے۔یہ ایسا انمول تحفہ ہے جس کی برکت سے وہ اپنی حاجتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل و پریشانی سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔لہٰذا اس کی برکات حاصل کرنے کے لئے اسے روزانہ پڑھنے کا معمول بنانا چاہیے۔شجرہ شریف کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کے اشعار کی تشریح پر مشتمل قسط وار سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔

 (1)

یا الٰہی رَحم فرما مُصطَفےٰ کے واسِطے

یا رَسُولَ اللہ کرم کیجیے خُدا کے واسِطے

مفہومِ شعر:

اس شعر میں اللہ پاک سے اس کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے واسطے سے اور سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے آپ کے رب کے واسطے سے رحم وکرم کا سوال کیا گیا ہے کہ اے اللہ!ہم پر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے واسطے سے رحم فرما اور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!اللہ پاک نے تو آپ کو دونوں جہاں کے خزانوں کا مالک بنایا ہے آپ اللہ پاك کے واسطے ہم پر کرم کی نظر فرمائیے۔

شرح:

اس شعر کے دونوں مصرعوں میں لفظ ”واسطے“ آیا ہے لیکن دونوں جگہ اس کے معنی الگ الگ ہیں: پہلے مصرعے میں واسطے کا معنی ہے”وسیلہ“یعنی اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو وسیلہ بنا کر اپنی مراد مانگی گئی ہے جبکہ دوسرے مصرعے میں واسطہ محاورۃً ذکر کیا گیا ہے،جیسے کوئی مانگنے والا کسی سے کچھ مانگتا ہے تو کہتا ہے:اللہ کے واسطے مجھے کھانا دے دو!اللہ کے واسطے میری مدد کرو!اس کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ معاذ اللہ میں اللہ پاک کو وسیلہ بنا کر مانگتا ہوں، کیونکہ اللہ پاک وسیلہ بننے سے پاک ہے،جیسا کہ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:اللہ عَزَّوَجَل وسیلہ و تَوَسُّل و تَوَسُّط بننے سے پاک ہے، اس سے اُوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہوگا اور اس کے سوا حقیقی حاجت روا کون ہے کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا۔([2]) لہٰذا اللہ پاک کا واسطہ دینے سے مراد اللہ پاک کی رضا ہے۔

اس شعر میں شجرۂ عالیہ کی اصل یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکرِ خیر ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ جس کو جو بھی ملا ہے حضور سے ملا ہے اور حضور کے صدقے میں ملا ہے۔چنانچہ حضور ہی کے نور سے چاند و سورج کو روشنی ملی،حضرت آدم علیہ السلام نے حضور کا وسیلہ پکڑا تو کامیابی پائی،حضور کے وسیلے سے حضرت خلیل پر آگ گلِ گلزار ہوئی،حضرت ایوب علیہ السلام سے مصیبت دور ہوئی،حضرت موسیٰ علیہ السلام حضور کا وسیلہ پکڑنے والے اور قیامت میں حضور کے سبزہ زار میں پناہ لینے والے ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے طلبِ دعا،طلبِ شفا، طلبِ مغفرت اور دیگر حاجات طلب کرتے رہے،جیسا کہ  ایک نا بینا شخص نے بارگاہِ رسالت میں اپنی نا بینائی کی شکایت کی تو آپ نے اسے یوں دعا مانگنے کی تلقین فرمائی:اے اللہ!میں اپنے نبی رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وسیلے سے تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت کے بارے میں متوجہ ہوں تاکہ وہ پوری ہوجائے۔اس حدیث کے راوی فرماتے ہیں:اللہ پاک کی قسم! ہم وہاں سے اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ شخص دوبارہ وہاں آیا تو اس کی بینائی ایسے لوٹ آئی تھی کہ وہ کبھی نا بینا تھا ہی نہیں۔([3])

دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ سے مدد طلب کرتے اور آپ کو پکارتے تھے اور آج تک یہی سلسلہ اُمّت میں جاری ہے اور ان شاء اللہ تا قیامت بلکہ روزِ قیامت بھی جاری رہے گا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران شعبہ ماہنامہ خواتین کراچی سطح



[1] فتاویٰ رضویہ، 26 /590

[2] فتاویٰ رضویہ، 21/303، 304

[3] معجم کبیر، 9/31، حدیث: 8311ملخصاً


Share