شرح قصیدہ معراجیہ (قسط:05)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع:قصیدہ معراجیہ (قسط 5)

18

خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رُت سُہَانی گھڑی پھرے گی

وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:

تحویلِ مہر:سورج کا پھرنا، ایک بُرج سے دوسرے بُرج میں داخل ہونا۔رُت:موسم۔پوشاک:لباس۔ زیب ِتن کرنا:پہننا۔

مفہومِ شعر:

آفتابِ نبوت کا اِس منزل(مکاں) سے اپنی اصل منزل(لامکاں) کی طرف جاتے وقت دنیاوی لباس اتار کر نوری پوشاک زیبِ تن فرمانا اس بات کی علامت تھا کہ جب حضور  انعاماتِ خداوندی کے ساتھ واپس آئیں گے تو اس جہاں کی قسمت ہی بد ل جائے گی۔

شرح:

خبر یہ تحویل مہر کی تھی:

حضور جب معراج شریف کی رات زمین سے آسماں اور مکان سے لامکاں کی طرف روانہ ہوئے تو گویا کہ ایک بار پوری کائنات میں اندھیرا چھا گیا، بلکہ کائنات ہی نامکمل ہوگئی،کیونکہ آپ دونوں عالم کی جان ہیں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

لیکن یہ عارضی تاریکی اس بات کی نوید تھی کہ اب خزاں کے بادل چھٹنے والے ہیں، دنیا کی قسمت بدلنے والی ہے، امت کے لئے بخششوں اور عطاؤں کے دروازے کھلنے والے ہیں، اب موسمِ بہار آئے گا،نحوستیں ٹل جائیں گی،تکلیفیں دور ہوں گی، نور و رحمت کی بارش ہوگی!

وہاں کی پوشاک زیبِ تن کی:

حضور نے اس دنیا کا مادّی لباس بڑھا کر خلد کا نورانی جوڑا زیبِ تن فرمایا اور سوئے لامکاں روانہ ہوگئے۔ملا معین الدین ہروی فرماتے ہیں:معراج پر جانے کے لئے حضور نے نور کا لباس پہنا اور نور کا عمامہ آپ کے سر پر رکھا گیا،ایک روایت میں ہے:حضرت رضوان نے وہ عمامہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے 7 ہزار سال پہلے باندھا تھا، 40 ہزار فرشتے اس کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کے گرد کھڑے تھے، جو ہر وقت تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے، ہر تسبیح کے بعد سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھیجتے،یہاں تک کہ اس رات حضرت جبرئیل اس عمامے کو لائے، چالیس ہزار فرشتے اس عمامے کے ساتھ آئے اور حضور کی زیارت کی۔ اس عمامے کے چالیس ہزار نقش و نگار تھے اور ہر نقش پر چار لکیریں تھیں:پہلی لکیر پر محمد رسول اللہ، دوسری پر محمد نبی اللہ، تیسری پر محمد خلیل اللہ اور چوتھی پر محمد حبیب اللہ لکھا تھا، پھر حضرت جبرئیل نے نور کی ایک چادر حضور کو پہنائی، زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں اور یاقوت کا کمربند باندھا۔([1])

جوڑا بڑھا چکے تھے:

جس طرح ہمارے یہاں دسترخوان اٹھانے کے بجائے ادباً دسترخوان بڑھانا کہا جاتا ہے اسی طرح یہاں پر جوڑا اتارنے کے بجائے جوڑا بڑھانا کہا گیا ہے۔

19

تجلّیِ حق کا سہرا سر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاوَر

دو رویہ قدسی پَرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:

تجلی:جلوہ۔نچھاور کرنا:برسانا۔دو رویہ: دونوں طرف۔قدسی:فرشتے۔پرے جمانا:پروں کو پھیلانا۔

مفہومِ شعر:

معراج کی رات حضور کے سرِ انور پر اللہ پاک کے نور کا سہرا سجایا گیا،صلوٰۃ سلام کی برسات کی گئی اور حضور جس راہ سے گزرتے دونوں طرف فرشتے اپنے پروں کو بچھا کر آپ کو سلامی پیش کرتے تھے۔

شرح:

معراج کی رات حضور کے واسطے قدسی پروٹوکول کا اہتمام کیا گیا، جس طرح کسی بادشاہ کی سواری گزرتی ہے تو کوئی پھول نچھاور کرتا ہے اور لوگ راستے میں دونوں طرف کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں،ایسے ہی درود و سلام کی برسات میں جب معراج کے دولہا سوئے عرش روانہ ہوئے تو جس جس راستے سے گزرتے دونوں اطراف میں فرشتے پروں کو جمائے باادب کھڑے ہو کر سلامی پیش کر رہے تھے۔

فرشتوں کا ذاتِ اقدس پر درودِ پاک بھیجنا قرآنِ پاک سے ثابت ہے([2])اور جب اس کی نسبت فرشتوں  کی طرف کی جائے تو اس سے مراد ان کا استغفار کرنا  یا ایسی دعا کرنا ہے جو رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شان کے لائق ہو۔([3])

شبِ اسرا کے دولہا پہ دائم درود

نوشۂ بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام

 20

جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن

مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامُرادی کے دن لکھے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:

واں:وہاں۔خاکِ گلشن:باغ کی مٹی۔ اترن:استعمال شدہ چیز۔نامرادی:بد بختی۔

مفہومِ شعر:

اے کاش کہ ہم بھی وہاں ہوتے اور جس گلشن سے میرے آقا گزرے اس کی خاک بن کر حضور کے قدموں سے لپٹ جاتے اور آپ کی اترن حاصل کرتے مگر ہمارا مقدر ایسا کہاں!ہمارے نصیب میں تو یہ محرومی اور نامرادی کے دن لکھے تھے۔

شرح:

وہ حضور کے سر انور پر سجا نورانی سہرا، وہ صلوۃ و تسلیم کی بارشیں، فرشتوں کی سلامی،سبحان اللہ!اعلیٰ حضرت یہ نورانی منظر بیان کرنے کے بعد ایک بار پھر حسرت و یاس میں ڈوب کر کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی وہاں ہوتے اور کچھ نہیں تو کم از کم وہاں کی خاک ہی بن جاتے اور حضور کے قدموں سے لپٹ کر آپ کی اترن کی بھیک مانگتے کہ آقا آپ نے جنت کو اپنا دھوون عطا فرمایا ہے تو ہمیں بھی اپنی اترن عطا فرمائیے۔

21

ابھی نہ آئے تھے پشت زیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شِلِّک

صَدا شفاعت نے دی مُبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:

پشتِ زیں:سواری کی کاٹھی۔سر کرنا: عبور کرنا۔شِلِّک:توپوں کی سلامی۔

مفہومِ شعر:

ابھی حضور اپنی سواری پر سوار بھی نہ ہوئے تھے  کہ آپ کو امت کی بخشش کی بشارت سنا دی گئی اور شفاعت نے خود حضور کو خوشی سے مبارکباد  پیش کی جسے سن کر گناہ گار تو گناہ گار خود گناہ بھی مستی میں جھومنے لگے۔

شرح:

حضور نے براق پر سوار ہونے کے لئے ابھی زین پر قدم بھی نہ رکھا تھا کہ حضور کو امت کی بخشش کی خوشخبری سنا دی گئی۔شفاعت نے خود آگے بڑھ کر حضور کو مبارک باد دی کہ جس امت کے لئے آپ رو کر رو کر دعائیں کرتے رہے اس کا کام بن گیاہے، آپ نے اپنی امت کو بخشوا لیا ہے، اسے سن کر گناہ بھی مستانہ وار جھوم اٹھے تھے اور گنہگار بھی۔گناہ گار اس لئے کہ ہماری مغفرت کردی گئی جبکہ گناہ اس لئے جھومتے تھے کہ اگر گناہ گاروں کی بخشش نہ ہوتی تو ہماری وجہ سے گناہ گار عذاب میں مبتلا ہوجاتے جس سے اللہ پاک کے محبوب پریشان ہوتے، لہٰذا شکر ہے کہ ہم حضور کی پریشانی کا باعث بننے سے بچ گئے۔ کیونکہ ایک روایت کے مطابق حضور کی شفاعت کا حق ان امتیوں کے لئے ہے جنہیں گناہوں نے ہلاک کر ڈالا۔([4])

شفاعت کرے حشر میں جو رضا کی

سوا تیرے کس کو یہ قدرت ملی ہے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان)

گوجرہ منڈی بہاؤ الدین



[1] معارج النبوۃ فارسی،2/100

[2] پ 22، الاحزاب:56

[3] حاشیہ صاوی، ص 1654- تفسیرات احمدیہ، ص634

[4] الکامل لابن عدی، 6/261، حدیث:1317


Share