علمِ توقیت اور اعلی حضرت
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع:علمِ توقیت اور اعلیٰ حضرت

تاریخِ اسلام میں ایسے جلیل القدر علما و فقہا گزرے ہیں جنہوں نے نہ صرف علومِ دینیہ بلکہ علومِ عصریہ میں بھی اپنی غیر معمولی بصیرت کا لوہا منوایا۔انہی اکابر میں امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ(1856ء-1921ء) کی شخصیت منفرد و ممتاز ہے۔آپ نے قرآن و سنت کی خدمت،فقہی اجتہاد، حدیث کی تشریح اور عقائد کی حفاظت کے ساتھ ساتھ فلکیات، ریاضی اور جغرافیہ جیسے سائنسی علوم میں بھی حیرت انگیز مہارت کا مظاہرہ کیا۔آپ کے علمی کمالات میں سے ایک علمِ توقیت بھی  ہے، جو اوقاتِ نماز،سمتِ قبلہ اور حرکاتِ فلکی کے ذریعے وقت کی تعیین کا علم ہے۔اعلیٰ حضرت نے اس علم میں اپنے دور کے بڑے ماہرین کو حیران کر دیا۔ آپ نے پیچیدہ فلکیاتی مسائل کو نہ صرف حل فرمایا بلکہ عملی طور پر ان کے نتائج بھی امت کے سامنے رکھے۔آپ کے زمانے میں گھڑیال عام نہیں تھا اور بیشتر مقامات پر نماز و روزہ کے اوقات کے تعین میں دشواریاں پیش آتی تھیں،مگر اعلیٰ حضرت نے حسابِ فلکی اور ریاضی کے اصولوں کی مدد سے ایسے قواعد مرتب فرمائے جن سے صحیح اوقات معلوم کئے جا سکتے تھے۔ 

ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بدایوں تشریف لے گئے، حضرت محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر صاحب کے یہاں مہمان تھے،مدرسۂ قادریہ کی مسجد میں خود حضرت(مولانا شاہ عبد القادر صاحب بدایونی)امامت فرماتے۔(ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بھی وہاں جلوہ گر تھے،)جب فجر کی تکبیر شروع ہوئی تو حضرت مولانا  عبد القادر صاحب نے اعلیٰ حضرت کو امامت کے لئے آگے بڑھا  دیا۔اعلیٰ حضرت نے نمازِ فجر کی امامت کی اور قراءت اتنی لمبی فرمائی کہ مولانا عبد القادر کو بعدِ سلام شک ہوا کہ آفتاب تو طلوع نہیں ہو گیا!مسجد سے نکل نکل کر لوگ آفتاب کی جانب دیکھنے لگے۔یہ حال دیکھ کر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ آفتاب نکلنے میں ابھی 2 منٹ 48 سیکنڈ باقی ہیں۔یہ سن کر لوگ خاموش ہو گئے ۔([1])

اعلیٰ حضرت کی علمِ توقیت پر تصانیف

اعلیٰ حضرت نے اپنے فقہی و تحقیقی انداز میں فنِّ علمِ توقیت میں چند ایسی تصانیف و رسائل تحریر فرمائیں جو آج بھی اہلِ علم کے لئے سرمایۂ نایاب ہیں۔ان کے نام یہ ہیں:*مطلع القمرین فی اختلاف الجدولین*الکلمة الملهمة فی حکم الطلوع و الغروب و القیام و القعود للنجوم المعلومة*مطلع شمسین و مبین اختلاف جداول العالمین*رسالة فی تعیین سمت القبلة* جدیدۂ جغرافیہ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے علمِ توقیت میں جو خدمات انجام دیں وہ صرف نظری اور کتابی نہیں بلکہ عملی اور تجرباتی تھیں۔آپ کی تحریریں اور واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ کو اللہ پاک نے علومِ دین و دنیا کی جامع بصیرت عطا فرمائی تھی۔آج کے دور میں جب فلکیاتی علوم،کمپیوٹر اور جدید آلات کے ذریعے سمجھے جاتے ہیں،اعلیٰ حضرت کے وہی اصول اور تحقیقات آج بھی مستند اور رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلا شبہ آپ علمِ توقیت کے میدان میں ایک عظیم محقق اور مجدد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

مُلکِ سُخَن کی شاہی تم کو رضاؔ مُسلَّم

جس سَمْت آ گئے ہو سِکّے بٹھا دیے ہیں



[1] حیات اعلیٰ حضرت،1/ 249،248


Share