موضوع: بری عادتیں (قسط 13)
دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے،ذیل میں بیان کردہ بُری عادت بھی ایسی ہی ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔
محنت سے جی چرانا
محنت ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔سستی اور کاہلی ذہین انسان کو بھی بے کار کر دیتی ہے۔دینی طلبہ و طالبات کے مقاصد چونکہ ارفع و اعلیٰ ہوتے ہیں۔لہٰذا انہیں اتنی ہی زیادہ کوشش اور سخت محنت کی حاجت ہوتی ہے۔جو اسٹوڈنٹس محنت سے کتراتے اور سستی و کاہلی کا شکار ہوتے ہیں وہ جلد ہی کامیابی کے راستے سے ہٹ کر ناکامی کی شاہراہ پر چل پڑتے ہیں۔کیونکہ کامیابی کسی کی جاگیر نہیں، بلکہ یہ ان لوگوں کا انعام ہے جو مقاصد کے حصول میں پہاڑوں سے بلند مضبوط حوصلے رکھتے اور قربانی کے خوگر ہوتے ہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
حوصلہ مند ہی پاتے ہیں نشانِ منزل
ڈرنے والوں کی تو مرنے پہ نظر جاتی ہے
اگر اسٹوڈنٹس اپنا یہ ذہن بنا لیں کہ محنت کا کیا فائدہ! نصیب میں جو لکھا ہو گا ملنا تو وہی ہے!تو ایسوں کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اگرچہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملتا وہی ہے جو نصیب میں لکھا ہوا ہو، لیکن یہ بھی مفت میں نہیں مل جاتا، اس کے لئے بھی محنت لازم ہے جیسا کہ اگر کوئی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر درخت کے نیچے بیٹھ جائے کہ پھل خود بخود گر کر منہ میں چلا جائے گا تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا، پھل کھانے کے لئے اسے درخت سے توڑنے کی کچھ نہ کچھ محنت کرنی ہی پڑے گی۔بالفرض اگر زمین پر گرا ہوا پھل مل بھی جائے تو بھی اسے پیٹ تک پہنچانے کے لئے منہ تو چلانا ہی پڑے گا کہ حرکت میں برکت ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ہر محنت کرنے والا اپنا حصہ پا ہی لیتا ہے۔([1])
اسٹوڈنٹس کے لئے محنت کی اہمیت کا انکار ممکن ہی نہیں۔ یہ محنت کی تکلیف ہی ہوتی ہے جو آئندہ بہت بڑے بڑے دینی و دنیوی انعامات سے آراستہ کرتی ہے۔عموماً محنت کے بغیر کسی چیز کا حاصل ہونا بہت کم دیکھا گیا ہے اور یہاں تو حصولِ علمِ دین کا تعلق ہے۔لہٰذا اس کے لئے بہت زیادہ محنت کی حاجت ہے جبکہ آج کل بعض اسٹوڈنٹس بالکل محنت نہیں کرتے یا کرتے بھی ہیں تو اس معیار کی نہیں کرتے جس معیار کی محنت کرنی ضروری ہوتی ہے حالانکہ اللہ کا فرمان ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠(۶۹)) پ21،العنکبوت: 69)
ترجمہ:اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک الله نیکوں کے ساتھ ہے۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت کے تحت تفسیر ِنسفی میں ہے:حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جنہوں نے علم حاصل کرنے میں کوشش کی ہم ضرور انہیں عمل کی راہیں دکھا دیں گے۔([2]) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ علم سیکھنے سے آتا ہے۔ بُرد باری تکلیف برداشت کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔جو بھلائی حاصل کرنے کی کوشش کرے اسے بھلائی دی جاتی ہے اور جو برائی سے بچنا چاہے، اسے بچایا جاتا ہے۔([3])
حصولِ علمِ دین میں محنت سے متعلق ہمارے بزرگانِ دین سے کثیر اقوال منقول ہیں، مثلاً حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:بے شک یہ علم حاصل نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی راہ میں فقر و فاقہ کی لذت نہ چکھی جائے۔([4]) لہٰذا سستی اور کاہلی سے بچئے کہ یہ بہت ہی منحوس بلا ہے۔کیونکہ یہ اپنے چاہنے والوں کو تحفے میں صرف محتاجی اور ذلت ہی پیش کرتی ہے۔
ہمارے بزرگانِ دین جو سستی کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے تھے، وقت کے صحیح استعمال اور محنت نے انہیں اس قدر سرفرازی اور بلندی سے نوازا کہ دنیا کے ہر میدان میں ترقی اور عظمت ان کا مقدر بنی۔ان حضرات کی ہمتیں پہاڑ کی طرح تھیں۔نہ تو انہیں عیش و آرام کی چاہت ہوتی، نہ مال و دولت کی حرص اور نہ دنیوی خواہشات ان پہ غالب آتی تھیں، کیونکہ ان حضرات نے خود کو سیکھنے سکھانے کے لئے وقف کیا ہوا تھا۔چنانچہ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مجھ پر چالیس سال اس طرح گزرے کہ سوتے جاگتے کتاب میرے سینے پر ہوتی تھی۔([5])لہٰذا دینی طلبہ و طالبات کو بھی چاہیے کہ اگر وہ سستی، کاہلی اور آرام پرستی کو چھوڑ کر خلوصِ نیت، محنت، جہد و جہد اور شوق و رغبت کو اپنی عادات میں شامل کر لیں تو اپنے بزرگانِ دین کی روشن تاریخ کو دہرا سکتے ہیں۔
محنت سے جی چرانے کے اسباب، نقصانات اور ان کا حل
اسٹوڈنٹس کے محنت نہ کرنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں جیسا کہ اپنے مقصد کی اہمیت کو نہ سمجھنا،حصولِ علمِ دین میں دلچسپی نہ ہونا، گھریلو مسائل کا سامنا ہونا، مطالعہ کرنے کا انداز درست نہ ہونا،منفی سوچ رکھنے والے لوگوں سے تعلقات رکھنا، وقت کی غلط تقسیم کاری کرنا، موبائل اور دیگر الیکٹرونک ڈیوائسز کا غلط و کثیر استعمال کرنا وغیرہ۔
اسی طرح اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض اسٹوڈنٹس مشکل اسباق و اسائنمنٹس وغیرہ دیکھ کر انہیں حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ اپنی سستی و نالائقی کو دور کرنے کے بجائے پڑھائی چھوڑ دینا ہی آسان حل سمجھتے ہیں۔
یاد رکھئے!جہاں محنت کے بہت سارے فوائد ہیں وہیں محنت نہ کرنے کے بہت سارے نقصانات بھی ہیں، مثلاً
U خود اعتمادی میں کمی واقع ہونا
U امتحانات میں نا کامی کا سامنا ہونا
U والدین اور اساتذہ کے لئے شرمندگی کا باعث ہونا
U مال اور وقت کا ضائع ہونا
U علم میں پختگی نہ آنا
U شخصیت میں کمزوری ہونا
U روشن مستقبل کے حصول میں محرومی کا احساس ہونا
لہٰذا دینی طلبہ و طالبات کو چاہیے کہ وہ ان اسباب و نقصانات سے بچنے کے لئے اپنے مقصد کا تعین کریں اور اس مقصد کی اہمیت کو سمجھیں۔اس کے لئے مثبت اور تعمیری سوچ اپنائیں،پڑھائی کے دلچسپ انداز اختیار کریں،قابلِ تقلید علمائے کرام کی علمِ دین کے لئے محنت اور قربانیوں کا مطالعہ کریں۔ان شاء اللہ سستی و کاہلی سے بچنے میں کامیابی ملے گی۔
کسی شاعر نے محنت کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے:
مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی جہاں میں ملی آخر ان کو بڑائی
کسی نے بغیر اس کے ہرگز نہ پائی فضیلت، نہ عزت، نہ فرماں روائی
نہال اس گلستاں میں جتنے بڑے ہیں ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں
دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے اسٹوڈنٹس کو سستی اور کاہلی سے بچا کر محنت کا عادی بنائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* لاہور
[1] الرياض النضرة، 1/18
[2] تفسیر نسفی، ص899
[3] تاریخِ ابن عساکر، 18/98، رقم:4199
[4] جامع بیان العلم، ص136، رقم:442
[5] جامع بیان العلم، جزء:2/1231، رقم:2426

Comments