حضرتِ موسیٰ کے معجزات عجائبات (قسط:08)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

 موضوع: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات (قسط8)

گزشتہ سے پیوستہ: گزشتہ قسطوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور سے احکام خداوندی تختیوں کی شکل میں لانے  تک واقعات کا ذکر ہو چکا ہے،اب اس کے بعد رونما ہونے والے معجزات و عجائبات ملاحظہ فرمائیے:

جہاد کا حکم اور اس سے انکار کی سزا

بنی اسرائیل کا اصل آبائی وطن ملک شام تھا، جس کو چھوڑ کر یہ مصر آگئے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے دور سے اب تک یہیں مقیم تھے، اس دوران ملکِ شام پر قوم عمالقہ نے قبضہ کر لیا تھا،عمالقہ بڑی جنگجو، طاقتور،دراز قامت اور مضبوط قلعوں والی قوم تھی۔فرعون کی ہلاکت کے بعد اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ ملک شام واپس جائیں اور عمالقہ سے جہاد کر کے اپنا وطن آزاد کروائیں!

بنی اسرائیل نے اولاً ٹال مٹول کی لیکن آخرکار نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں جہاد کے لئے روانہ ہونا پڑا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے کچھ لوگوں کو روانہ فرمایا،مگر جب ان لوگوں نے واپس آ کر قومِ عمالقہ کی قوت و جبروت، ان کے قد و قامت اور ان کے مضبوط قلعوں کے بارے میں بتایا تو وہ لوگ یہ سب سن کر بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:ہم ایسی جابر قوم سے ٹکر لے کر اپنے بچوں کو یتیم اور بیویوں کو بیوہ نہیں کرنا چاہتے،آپ اور آپ کا رب جا کر پہلے ان سے لڑیں اور شہر خالی کروائیں،جب وہ وہاں سے نکل جائیں گے تب ہم وہاں جائیں گے۔قرآن نے اسے کچھ یوں بیان کیا ہے:

قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴) (پ6، المائدۃ: 24)

ترجمہ:(پھر قوم نے)  کہا: اے موسیٰ!  بیشک ہم تو وہاں ہرگز کبھی نہیں جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ اور آپ کا رب دونوں جاؤ اور لڑو ،ہم تویہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

جب وہ جہاد سے منہ موڑ کر جانے لگے تو اپنے گھروں میں واپس نہ پہنچ سکے بلکہ میدانِ تیہ میں ہی حیران و پریشان گھومتے رہے، وہ اپنے گھر کے لئے دن بھر سفر کرتے مگر رات بسر کرنے کے بعد صبح خود کو وہیں پاتے جہاں سے گزشتہ صبح سفر کا آغاز کیا تھا حتی کہ 40 سال تک وہ اس میدان میں انتہائی حیرانی و پریشانی کے عالم میں بھٹکتے رہے۔([1])

میدانِ تیہ کی پیمائش تقریبا ستائیس میل([2])یا بارہ میل تھی اور اس میں محصور ہونے والے لوگوں کی تعداد چھ لاکھ تھی۔([3]) اتنی بڑی تعداد کا اتنے سے میدان میں چالیس سال تک بھٹکتے رہنا اور کسی کا وہاں سے نکل نہ سکنا خلافِ عادات میں سے ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے۔ ([4])

سرکشی کے باوجود کرم نوازیاں

بنی اسرائیل کی بزدلی اور حکم عدولی کے باوجود اللہ پاک نے میدانِ تیہ میں بھی ان پر بےشمار انعامات فرمائے، چنانچہ اس بےآب و گیاہ میدان میں جہاں نہ کوئی سایہ تھا، نہ کوئی درخت،نہ ہی کوئی عمارت،نہ پینے کے لئے پانی اور نہ ضروریاتِ زندگی کے دیگر لوازمات۔اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے وہاں دھوپ سے بچاؤ کے لئے بادل بطور سائبان نازل فرما دیا جو ان کے ساتھ ساتھ چلتا تھا،جب انہیں بھوک و پیاس لگی تو آسمان سے من و سلویٰ اتارا،کھانے کے بعد پیاس سے بےقرار ہوئے تو حضرت موسیٰ نے پتھر پر اپنا عصا مارا تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ کر بہنے لگے اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے ایک ایک چشمے سے پانی پینے اور اپنے جانوروں کو پلانے لگے، ان لوگوں کے کپڑے میلے ہوتے نہ پھٹتے تھے اور ان کے بچوں کے جسم کے ساتھ بچوں کا لباس بھی بڑھتا رہتا تھا۔پورے چالیس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ جس پتھر سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چشمے جاری فرمائے یہ مکعب شکل کا (چوکور)پتھر تھا اور اس کی چاروں سمت سے تین تین چشمے جاری ہوگئے تھے۔ ([5])

احکامِ الٰہی کا مذاق اور اس کی سزا

چالیس سال قید میں رہنے کے بعد انہیں اس شہر میں داخل ہونے کی اجازت ملی اور حکم دیا گیا کہ اس شہر کے دروازے سے جھک کر اور زبان سے”حطۃ (کلمۂ استغفار)“ کہتے ہوئے داخل ہوں، بنی اسرائیل نے ان دونوں احکام کی خلاف ورزی کی، سجدہ کرنے کے بجائے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حطۃ کے بجائے حِنْطَۃ(گندم)یا حَبَّۃ فی شعرۃ(بال میں دانہ) کہنے لگے۔

احکامِ الٰہی کا مذاق اڑانے اور نافرمانی کی وجہ سے ان پر طاعون کا عذاب نازل کیا گیا جس سے ستر ہزار کی تعداد میں یہ لوگ ہلاک ہوگئے۔([6])قرآن میں یہ واقعہ کچھ یوں مذکور ہے:

وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْؕ-وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۸) فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠(۵۹) (پ1،البقرۃ:59،58)

ترجمہ: اور جب ہم نے انہیں کہا کہ اس شہر میں داخل ہوجاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازے میں سجدہ کرتےداخل ہونا اور کہتےرہنا،ہمارےگناہ معاف ہوں،ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور عنقریب ہم نیکی کرنے والوں  کواور زیادہ عطا فرمائیں گے، پھران ظالموں نے جو اُن سے کہا گیا تھا اسے ایک دوسری بات سے بدل دیا تو ہم نے آسمان سے ان ظالموں پر عذاب نازل کردیا کیونکہ یہ نافرمانی کرتے رہے تھے۔

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

بلعم بن باعوراء کا واقعہ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم جبارین (عمالقہ) سے جنگ کے ارادے سے مع لشکر ملک شام میں قیام فرمایا تو بلعم بن باعوراء سے اس کی قوم نے کہا کہ یہ لوگ ہمیں ہمارے شہر سے نکال کر بنی اسرائیل کو یہاں آباد کرنا چاہتے ہیں،لہٰذا تمہارے پاس اسمِ اعظم ہے اور تمہاری دعا قبول ہوتی ہے،تم اللہ سے دعا کرو وہ انہیں یہاں سے نکال دے۔بلعم نے پہلے تو بہت انکار کیا لیکن جب قوم نے ہدیے اور نذرانے دیئے تو وہ ان کی باتوں میں آگیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بددعا کرنے کے لئے اپنی گدھی پر بیٹھ کر ایک پہاڑ کی طرف نکلا، راستے میں اس کی گدھی نے اسے کئی بار گرایا مگر وہ پھر اس پرسوار ہوجاتا آخرکار اللہ کے حکم سے گدھی نے اس سے کلام کیا اور کہا:افسوس!اے بلعم! تو کہاں جارہا ہے؟کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ فرشتے مجھے جانے سے روک رہے ہیں!کیا تو اللہ کے نبی اور فرشتوں کے خلاف بددعا کرنے جارہا ہے؟وہ پھر بھی باز نہ آیا اور بددعا کرنے پہاڑ پر چڑھ گیا، اب بلعم جو بددعا بنی اسرائیل کے لئے کرتا اللہ پاک اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا اور اپنی قوم کے لئے جو دعائے خیر کرتا تو بجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اس کی زبان پر آجاتا۔اس کی قوم نے کہا:یہ تو کیا کر رہا ہے؟بنی اسرائیل کے لئے دعا اور ہمارے لئے بددعا کررہا ہے؟بلعم نے کہا:اب اللہ کی قدرت مجھ پر غالب آگئی ہے،میری زبان میرے اختیار میں نہیں رہی!اتنا کہنے کے بعد اس کی زبان نکل کر اس کے سینے پر لٹک آئی اور وہ ذلت کے ساتھ ہلاک ہوا۔([7])(یہ سلسلہ جاری ہے اور اگلی اقساط میں حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے مزید معجزات و عجائبات بیان ہوں گے۔ )



[1] تذکرۃ الانبیا،ص557ملخصاً

[2] سیرت الانبیا، ص 630

[3] تفسیر ابو سعود، 1/128

[4] تفسیر قرطبی، 3/70

[5] تفسیر ابو سعود، 1/126، 128 ملتقطا

[6] تفسیر خازن، 1/56

[7] تفسیر بغوی، 2/179، 180 ملتقطا


Share