سلسلہ:اخلاقیات
موضوع: نرم مزاجی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نرمی ایک ایسی خوبصورت اور باکمال صفت ہے کہ انسان ہی نہیں بلکہ جس میں بھی ہو اسے خوبصورت اور قیمتی بنا دیتی ہے، مثلاً زمین نرم ہو تو ہی اس میں کھیتی اگتی ہے،آٹا نرم ہو تو ہی روٹی پکتی ہے، لوہا نرم ہو تو ہی اوزار بنتا ہے، اسی طرح انسان کا دل نرم ہوتو ہی وہ لوگوں کی نظر میں معزز بنتا ہے، لہجہ نرم ہو تو ہی بات دل میں اترتی ہے، الغرض نرمی بےکار چیز کو کار آمد اور بدصورت کو خوبصورت کر دیتی ہے اور ایسا کیونکر نہ ہو کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: نرمی جس چیز میں ہو اس کو زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال لی جاتی ہے اس کو عیب دار کر دیتی ہے۔(1)
مزاج میں نرمی، شفقت اور محبت کا ہونا اللہ پاک کی نعمت و رحمت کی دلیل ہے، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪-
(پ4، اٰل عمرٰن: 159)
ترجمہ:تو اے حبیب!اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہےکہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اوراگرآپ تُرش مزاج ،سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرور آپ کےپاس سے بھاگ جاتے۔
یہ بات عام مشاہدے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ سخت مزاج سے لوگ دور ہی رہتے ہیں جبکہ نرمی شخصیت کو نکھار كر لوگوں کے دل میں جگہ بنا دیتی ہے۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم كا فرمان ہے:میرا سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو تم میں اچھے اخلاق والا اور نرم مزاج ہے، جو لوگوں سے اور لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔(2)
یاد رکھیے! دل میں داخل ہونے کا راستہ بہت تنگ ہے سخت چیز اس میں سے نہیں گزر سکتی،اگر نرم ہوگی تو کسی نہ کسی صورت اندر داخل ہو ہی جائے گی، لہٰذا کسی کے دل میں داخل ہونا ہے تو بہت نرم رویہ رکھنا ہوگا،کیسی ہی غصہ دلانے والی بات ہو غصہ پی کر طبیعت کو سنبھال کر،نرم بات،نرم لہجہ اور نرم انداز اختیار کرنا ہوگا تب ہی دونوں جہان کے فائدے حاصل ہوں گے،جیسا کہ حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے؟ہرنرم طبیعت،نرم زبان، لوگوں سے درگزر کرنے اور قریب ہو۔(3)
لہٰذا ہمیں ہر معاملے میں نرمی اختیار کرنی چاہیے، گھر والوں کو نیکی کی دعوت دینی ہو یا بچوں کو نیک نمازی بنانا ہو یا والدین کو کچھ بتانا ہو تو حکمتِ عملی کے ساتھ نرمی اختیار کریں،سختی کا جواب بھی نرمی سے دیں تو ضرور بات میں اثر پیدا ہوگا۔جیسا کہ خراساں کے ایک بزرگ کو خواب میں تاتاری قوم کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم ہوا، اس وقت ہلاکو خان کا بیٹا تگودار خان حکمران تھا، جب تگودار خان کو اسلام کی دعوت دی گئی تو جواب میں اس نے بہت بدتمیزی اور نہایت تلخ گفتگو کی،تگودار خان کی تیکھی باتوں کا اس بزرگ نے نہایت نرم لہجے میں جواب دیا جس کی بدولت کچھ ہی عرصے میں وہ تگودار خان جو اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے در پے تھا اسلام کا شیدائی بنا اور اپنی پوری تاتاری قوم سمیت مسلمان ہو گیا۔تاریخ گواہ ہے کہ ایک مبلغ کی نرم گفتگو کے نتیجے میں وسطِ ایشیا کی خونخوار تاتاری سلطنت اسلامی حکومت سے بدل گئی۔(4)
دیکھا آپ نے! ایک نرم گفتگو نے کتنا پیارا اثر دکھایا۔ بات یہ ہے کہ سمجھانے کا انداز کیسا ہے؟اس کے لیے قوتِ برداشت پیدا کرنی ہوگی، رویہ اچھا اپنانا ہوگا، ورنہ مثبت بات اگر منفی انداز سے کی جائے تو نصیحت بھی زحمت بن جاتی ہے۔ جو لوگ نصیحت کرنے میں شدت اور سختی اختیار کرتے ہیں، ان کو اس واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے، چنانچہ منقول ہے کہ مامونُ الرشید کو کسی نے نصیحت کی اور سختی سے پیش آیا تو وہ بولا:اے شخص!نرمی اختیار کر کہ اللہ پاک نے تم سے بہتر (یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام)کو مجھ سے بدتر(یعنی فرعون) کے پاس بھیجا تو نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا۔(5)
اگر ہم سب ایک دوسرے کو نرمی کے ساتھ نیکی کی دعوت دینے لگیں تو معاشرے کا رنگ بدل جائے ، طلاقوں کی شرح کم ہو جائے، گھر خوشیوں اور امن کے گہوارے بن جائیں،بہن بھائیوں،والدین اور اولاد میں جدائیاں ختم ہو جائیں۔نرم مزاج ماؤں کی اولاد اکثر ان کی فرمانبردار ہوتی ہے،جبکہ جو خواتین بات بات پر بچوں کو ڈانٹتی ہیں تو بچے بھی سنی ان سنی کرتے ہیں، اگر نرمی کے ساتھ بچوں کو کسی چیز کا نقصان یا فائدہ بتایا جائے تو خاطر خواہ اثر ہوتا ہے، اسی طرح بڑے بہن بھائی چھوٹوں کو اور ساس بہو کو نرمی سے سمجھائیں تو وہ حقیقی عزت پاتے ہیں ورنہ کیا ہو تا ہے کسی سے چھپا نہیں۔
آج صبر و تحمل اور نرم مزاجی جیسی صفات کے ختم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ بس سختی سے ہی کام نکالنا اور اپنا رعب ڈالنا ہے۔میں بھی کسی سے کم نہیں! حالانکہ جو نرم مزاج ہوتی ہیں انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے نہ کہ سخت مزاج کو۔اینٹ کا جواب پتھر سے اور تھپڑ کا جواب گھونسے سے دینے کی دھن دماغ سے نکل جائے تو معاشرے میں مدینے کی ہواؤں کی ٹھنڈک آنے لگے۔
نرمی کیسے اختیار کی جائے؟
اپنے اندر نرم مزاجی پیدا کرنے کے لیے *حضور کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کیجئے کہ حضور نہایت ہی نرم طبیعت اور سہل و نرم گفتگو فرمانے والے تھے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے:ایک دیہاتی مسجدِ نبوی میں پیشاب کرنے لگا تو بعض صحابہ اسے ڈانٹنے لگے تو حضور نے منع فرما دیا اور اس دیہاتی کو اپنے قریب بلاکر نہایت نرمی سے سمجھایا کہ مساجد میں پیشاب نہیں کیا جاتا۔(6)وہ دیہاتی حضور کی نرم مزاجی اور عفو و درگزر سے اتنا متاثر ہوا کہ بعد میں ہمیشہ کہا کرتا:میرے والدین حضور پر قربان!حضور نے مجھے ڈانٹا نہ برا بھلا کہا۔(7)*بزرگانِ دین کے واقعات پڑھیے اور سنیے۔* سخت مزاجی کے اثرات کا مشاہدہ کیجئے اور اللہ پاک سے گڑگڑا کر دعا کیجئے کہ میری زبان،میرے انداز اور میرے کردار میں نرمی عطا فرما دے!
شروع شروع میں شاید اپنے اوپر جبر کرنا پڑے مگر آہستہ آہستہ عادت بنتی چلی جائے گی اور پھر چاہیں بھی تو زبان سے سخت الفاظ نہیں نکل پائیں گے،بات کوشش کی ہے کوشش کرنے والی ہر چیز پا لیتی ہے۔نرم مزاجی کے فوائد پر غور کیجیے کہ
ہےفلاح وکامرانی نرمی وآسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کا اندازِ مبارک دیکھ لیجئے کہ شاید کسی نے ان کو غصہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا،آپ نے کراچی سے لے کر پوری دنیا تک نیکی کی دعوت کا جو پیغام پہنچایا،اس میں بہت بڑا کردار آپ کی حکمت عملی اور نرمی کا بھی ہے،آپ نے دوسروں کو بھی نرمی اپنانے ترغیب دلائی، بلکہ وقتا فوقتا تربیت فرماتے ہی رہتے ہیں کہ صرف نرمی نرمی اور نرمی ہی کیجیے۔آپ مسکراتے ہوئے بڑے بڑے مسائل کے حل پیش کر دیتے ہیں۔ہمیں بھی نرمی ہی اختیار کرنی چاہیے ان شاء اللہ جو ارادہ لے کر چلیں گی کامیاب ہوں گی۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔
1 مسلم،ص1073،حدیث:6602
2 معجم اوسط، 5/386، حدیث: 7697
3 معجم اوسط، 1/244، حدیث: 837
4 بیانات عطاریہ، ص 388تا390، حصہ: 3
5 احیاء العلوم، 2/411
6 مسلم، ص 133، حدیث: 661 ملتقطاً
7 ابن ماجہ، 1/300، حدیث: 529
Comments