طاقتِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے شمار ایسے خصوصی فضائل عطا فرمائے جو مخلوق میں سے کسی اور کے حصے میں نہ آئے ۔ آئیے! ان میں سے دو فضائل کا مطالعہ فرمائیے :

(1)وحی کے آغاز کا انوکھا انداز: وحی نازِل ہونے کی ابتدا کے موقع پر حضرت سیّدُنا جِبْرِیلِ اَمین علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سینے سے لگا کر تین مرتبہ طاقت بَھر دَبایا۔ ([1]) اس طریقے پر وحی کا آغاز آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خُصُوصِیّات (Specialties) سے ہے۔ ([2])

پہلی وحی کے نُزول کی کیفیت:اے عاشقانِ رسول! نُزولِ وحی کے آغاز سے پہلے رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غارِ حِرا میں تشریف لے جاتے اور کئی دن وہاں قِیام (Stay) فرماکر اللہ پاک کی عبادت اور ذِکْر و فِکْر میں مصروف رہتے۔ ایک دن آپ  اسی طرح غارِ حِرا میں ذِکرِ الٰہی  میں مصروف تھے ، مبارک دل پر کَیْف کا عالَم طاری تھا کہ اچانک جِبْرِیلِ اَمین علیہ السَّلام خدمتِ اَقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں جبریل ہوں ، مجھے آپ کی خدمت میں یہ پیغام پہنچانے کے لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور پھر اِقْرَأ کہہ کر پڑھنے کی درخواست پیش کی۔ سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چونکہ محبوبِ حقیقی کی یاد میں سَرشار تھے ، یہ گوارا نہ ہوا کہ دوسرے کی جانب توجّہ کی جائے اس لئے انکار کرتے ہوئے فرمایا : مَا اَنَا بِقَارِیٍٔ یعنی میں نہیں پڑھتا۔ کیونکہ حَلاوَتِ ذِکْر کا غَلَبَہ دوسری جانب متوجہ ہونے کی اجازت نہیں دیتا ، لہٰذا جبریلِ امین علیہ السَّلام نے اس غلبے کو دور کرنے کی غرض سے پوری طاقت کے ساتھ دَبَوچ کر چھوڑ دیا۔ ایک بار دَبَوچنے سے اِسْتِغْراق ختم نہیں ہوا تو دوبارہ دَبَوچا ، دوسری بار بھی اِستغراق مکمل طور پر ختم نہ ہوا تو تیسری بار دَبَوچا یہاں تک کہ جب اِستغراق ختم ہوگیا تو پھر جبریلِ امین علیہ السَّلام نے اللہ پاک کا پیغام  پہنچایا۔ ([3])

جبریلِ امین علیہ السَّلام کی طاقت:حضرت سیّدُنا جبریلِ امین علیہ السَّلام کی طاقت کا اندازہ لگانے کیلئے یہ چار مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

(1)حضرت سیّدُنا لُوط علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی قوم کی بستیاں  جَڑ سے اُکھاڑ کر اپنے پروں پر رکھ لیں اور انہیں آسمان کی بلندی تک لے جا کر زمین پر دے مارا۔ (2)بیتُ المقدس میں شیطان کو اپنے پَر کے کنارے سے مارا تو وہ ہِنْد کے دُور دَراز پہاڑوں  میں جا کر گرا۔  (3)ایک زور دار چیخ ماری تو حضرت سیّدُنا صالح علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی قوم کے دل پَھٹ گئے اور وہ  سب ہلاک ہو گئے۔ (4)پلک جھپکنے میں آسمان سے زمین اور زمین سے آسمان پر پہنچ جاتے تھے۔ ([4])

طاقتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:پیارے اسلامی بھائیو!  جبریلِ امین علیہ السَّلام کی طاقَت و قُوّت کا ذِکْر پڑھنے کے بعد  اندازہ لگائیے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خُداداد طاقت و قُوّت کا عالَم کیا ہوگا۔ اِسْتِغْراق کی کیفیت سے نکال کر اپنی طرف مکمل طور پر متوجہ کرنے کے لئے جبریلِ امین علیہ السَّلام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سینے سے لگاکر طاقت بھر دبایا ، ایک بار ایسا کرنے سے مقصد حاصل نہ ہوا تو دوسری اور پھر تیسری بار بھی ایسا کرنا پڑا۔

شارحِ بخاری صدرُالعلماء حضرت علّامہ مولانا سیّد غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جبریلِ امین علیہ السَّلام اگرچہ زَبَرْدَسْت طاقت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی طاقت کو سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طاقت کے مُقابِل وہی نِسْبَت ہے جو قَطْرَہ (Drop) کو دریا کے ساتھ یا ذَرَّہ کو آفتاب (Sun) سے۔ دیکھئے! نَبَوِی جسمِ پاک کی طاقت کا یہ عالَم ہے کہ سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی سے گزرتا عَرْشِ بَرِیں پر پہنچا اور جبریلِ امین علیہ السَّلام باوجود شَدِیْدُ الْقُویٰ (یعنی  سخت قوتوں والے) ہونے کے سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی پر رہ گئے۔ جبریلِ امین تو جبریلِ امین ، تمام عالَم(Universe) کی طاقتیں نَبَوِی طاقت کے سامنے ہیچ (یعنی  بے حقیقت) ہیں۔ قرآن شاہد ہے کہ اللہ کریم نے صِفتِ رَبُوْبِیَّت کے ساتھ تَجَلِّی فرمائی تھی جس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام بےہوش ہوگئے ، مگر اَللہُ اَکْبَرْ کَبِیْرًا! سارے عالَم میں صرف ایک یہی وہ طاقت وَر جسم ہے جس کی آنکھوں نے عَینِ ذات کا اس طرح مُشاہَدَہ  فرمایا کہ چکا چوند (یعنی آنکھوں کے چُندھیانے کی کیفیت) بھی پیدا نہ ہونے پائی۔ ([5])

کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی

آنکھوں والوں کی ہِمَّت پہ لاکھوں سلام ([6])

جبریلِ امین علیہ السَّلام کے 3بار دبانے کی حکمت:

 حضرت سیّدُنا شیخ عبدُالعزیز دبّاغ رحمۃ اللہ علیہ جبریلِ امین علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے اس مبارک عمل کی حکمت بیان کرتے  ہوئے  فرماتے ہیں : (1)حضرت سیّدُنا جبریلِ امین علیہ السَّلام نے پہلی مرتبہ اپنے آپ کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سینۂ اَقدس کے ساتھ اس لئے لگایا تھا تاکہ اللہ کریم کی دائمی رضا پانے کے لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوبارگاہِ خداوندی میں اپنا  وسیلہ بنائیں (2)دوسری مرتبہ اس لئے تاکہ اپنے آپ کو حُضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پناہ میں دے دیں (3)جبکہ تیسری مرتبہ اس لئے تاکہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت میں شامل ہوجائیں۔ ([7])

اَزل میں نعمتیں تقسیم کیں جب حَق تَعالیٰ نے

لکھی جبریل کی تقدیر میں خِدمَت محمد کی([8])

(2)فرشتے پیچھے پیچھے چلتے تھے:سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خصوصیات(Specialties) میں سے ایک یہ ہے کہ جہاں کہیں تشریف لے جاتے نگہبانی اور خدمت کے لئے فرشتے بھی ساتھ جاتے جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ ([9])سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے فرمایا کرتے تھے : خَلُّوْا ظَهْرِيْ لِلْمَلَائِكَةِ یعنی میری پیٹھ پیچھے کی جگہ فرشتوں کے لئے چھوڑ دو۔ ([10])

یہی ہیں جن کو مَلائک سلام کرتے ہیں

انہی کی مَدْح و ثنا صبح و شام کرتے ہیں([11])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



([1])   مواھب لدنیہ ، 2 / 272

([2])   بشیر القاری ، ص111

([3])   بشیر القاری ، ص109 ، فتاویٰ شارحِ بخاری ، 1 / 382 ملخصاً

([4])   خازن ،  التکویر ، تحت الآیۃ : 20 ، 4 / 357

([5])   بشیر القاری ، ص111 بتصرف

([6])   حدائقِ بخشش ، 307

([7])   جواھر البحار ، 2 / 282

([8])   قبالۂ بخشش ، ص258

([9])   انموذج اللبیب ، ص37 ، فیض القدیر ، 2 / 246 ، سرورالقلوب ، ص222

([10])   مسند احمد ، 5 / 216 ، حدیث : 15281

([11])   سامانِ بخشش ، ص135۔


Share

Articles

Comments


Security Code