بچوں کی  تین عادات

زندگی کے مختلف مَراحِل میں ایک مرحلہ بچپن کا ہے جو سب سے اہم اور بعد کے مراحل کے لئے بنیاد ہے۔ اگر یہ مرحلہ اچھے انداز میں گزر گیا تو مُثْبَت ثَمْرات اور سُکون آپ کی زندگی کا حصّہ بنے گا۔ اگر اس کو اہمیت نہ دی گئی ، دُرست معلومات کے ساتھ تربیت کا سامان نہ کیا گیا تو کل کو یہی بچے آپ کو اچھے کردار میں دکھائی نہیں دیں گے۔ زندگی کے اس اہم مرحلہ کی اہمیت کو سمجھئے اور بچّوں کی دُرست تربیت کی فکر کیجئے۔

ذیل میں بچّوں کی تین عادات اور ان کا مثبت استعمال اِختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے انہیں پڑھئے ، سمجھئے اور عمل کیجئے :

(1)شوخی و کھیل کود:اس عادت کی وجہ سے بچے ایک جگہ بیٹھتے نہیں بلکہ کبھی اس کو چھیڑا تو کبھی اس کو توڑا ، سارا وقت کوئی نہ کوئی حرکت کرتے رہتے ہیں اور  چیزوں کو آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں۔ اس عادت سے پریشان نہ ہوں کہ یہ اس کے ذہین ہونے کی علامت ہے ، ایک حدیث پاک میں ہے : بچپن میں بچے کا شوخی اور کھیل کود ، جوانی میں اس کے عقل مند ہونے کی علامت  ہے۔ (جامع صغیر ، جز2 ، ص335 ، حدیث : 5413)

محترم والدین! بچے کی اس عادت  کا فائدہ اٹھائیے اور ایسے کاموں میں  مصروف رکھیں جو اس کی  عمر  و عقل کے مطابق ہوں ، اِنْ شَآءَ اللہ اس سے آپ کا بچہ بہت کچھ آسانی کے ساتھ سیکھ بھی جائے گا اور صحت بھی بحال رہے گی۔ مثال کے طور پر گھر کے کاموں میں والدہ اپنے ساتھ شریک کرے ، مثلاً دسترخوان بچھانا ، اسے اُٹھانا ، خالی گلاس اپنی جگہ واپس رکھنا۔ یونہی بچّوں کو کھلی فَضا میں ساتھ لے جائیں اور انہیں واک کرنے کا موقع دیں ۔

 (2)نقل اُتارنا:بچّہ تو آخِر بچّہ ہے اچھے بُرے  کی تمیز بھلا اس میں کہاں! اس لئے وہ اپنے بڑوں کو جو کام کرتا دیکھتا ہے اسے کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لہٰذا اس کے سامنے  اچھے اور نیک کام کئے جائیں مثلاً تلاوتِ قراٰن پاک ، مسجد جانا ،  محافلِ میلاد میں شرکت کرنا اور غریبوں کو خیرات دینا ، کتابیں پڑھنا تاکہ بچہ آپ کی دیکھا دیکھی ان کاموں کو کرنا شروع کردے اور ذہنی طور پر ان کاموں کو اچھا سمجھنے لگ جائے۔

 محترم والدین! بچّوں کے اچھے مستقبل کے لئے ہر وہ کام جو زبان یا عمل کے ذریعے بچے کے ذہن میں منفی سوچ پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے وہ گھر کے بڑوں کو ترک کرنا ہوگا۔

(3)سُوالات کرنا:بچے کے اندر کا بچگانہ پن اسے مختلف انداز میں مختلف سُوال کرنے پر آمادہ کرتا ہے : بابا!  بارش کیسے برستی ہے؟آسمان کس چیز سے بنا ہے؟اور کبھی ڈر و خوف کی وجہ سے سُوال کرے گا کہ کیا آپ دونوں مجھے چھوڑ کر دنیا سے چلیں جائیں گے؟

 محترم والدین! اس طرح کے بہت سے سوال وہ آپ سے پوچھتا ہے اگر آپ اسے جواب نہیں دیتے اور ٹالتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ “ تم ابھی بچے ہو اس بارے میں بات نہ کرو۔ “ تو اس کا جواب جاننے کا جُنون  مزید بڑھ جائے گا اور وہ دوسروں سے پوچھنا شروع کر دے گا اور کسی نے جواب دیتے ہوئے غلطی کر دی تو یہ جواب عُمْر بھر اس کے  ذہن میں بیٹھ سکتا ہے۔ لہٰذا بعد کے پچھتانے سے بہتر ہے کہ ابھی خود دُرست معلومات حاصل کریں اور بچّوں کو ان کے سوالات کے بارے میں احسن انداز سے سمجھائیں ، اِنْ شَآءَ اللہ اس سے آپ کی دنیا بھی سنورے گی اور آخِرت میں بھی سکون ملے گا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code