Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Al Taubah Ayat 25 Urdu Translation Tafseer

رکوعاتہا 16
سورۃ ﷵ
اٰیاتہا 129

Tarteeb e Nuzool:(113) Tarteeb e Tilawat:(9) Mushtamil e Para:(10-11) Total Aayaat:(129)
Total Ruku:(16) Total Words:(2852) Total Letters:(10990)
25

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍۙ-وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍۙ-اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اورحنین کے دن کو یاد کروجب تمہاری کثرت نے تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردیا تو یہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور تم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔


تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ:بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی ۔}یعنی رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غزوات میں مسلمانوں کو کافرو ں پر غلبہ عطا فرمایا جیسا کہ واقعۂ بدر ، قریظہ،نضیر ، حدیبیہ ، خیبر اور فتحِ مکہ میں ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۲۲۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۳۱، ملتقطاً)

{وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ:اورحنین کے دن کو یاد کرو۔} ’’حنین‘‘ مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخِ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ’’غزوۂ ہوازن‘‘ بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ’’بنی ہوازن‘‘ سے مقابلہ تھا۔

غزوۂ حنین کا واقعہ:

فتحِ مکہ کے بعد عام طور سے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثروہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں تَوَقُّف کررہے تھے اور فتحِ مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا، اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔ لیکن مقامِ حُنَین میں ’’ہوازن‘‘ اور ’’ثقیف‘‘ نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فُنونِ جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتحِ مکہ کا اُلٹا اثر پڑا اور ان لوگوں پر خواہ مخواہ کی جاہلیت کیغیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتحِ مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیسِ اعظم مالک بن عوف ان تمام اَفواج کا سپہ سالار ہے اور وہ سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا ہے۔ ’’درید بن الصمہ‘‘ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی شوال8  ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سےآپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتحِ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ’’آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کوان حضرات کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازِش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفارِ مکہ جو لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خداعَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے اِستقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالَمِ کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ

 اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ       اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے ا س لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو ’’ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار‘‘ اور ’’ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ‘‘ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے اِژْدِحام کی وجہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جانبازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زَدَن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے ،کچھ قتل ہو گئے اور جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے، لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداللہ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتحِ مُبین نے حضوررَحْمَۃٌ لِلْعالَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ حنین، ۳ / ۱۵۱-۱۵۵، مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہشتم: ذکر وقائع سال ہشتم وغزوہ حنین، ۲ / ۳۰۸-۳۱۴، شرح الزرقانی، غزوۃ حنین، ۳ / ۵۳۱-۵۳۲، ملتقطاً)

آیت’’ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ  ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات :

اس آیت سے 4 چیزیں معلوم ہوئیں :

(1)… مسلمان کا حقیقی بھروسہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مدد پر ہونا چاہیے۔

(2)… اَسباب اختیار کرنے کا حکم ہے لیکن صرف اسی پر بھروسہ کرنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔

(3)… بعض اوقات چند لوگوں کی غلطی کا نتیجہ سب کو دیکھنا پڑتا ہے۔

(4)… خود پسندی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے، لہٰذا اپنے ہر کمال کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل سمجھنا چاہیے نہ کہ اپنے زورِ بازو کا نتیجہ، جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙ-وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘(نور:۲۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتاالبتہ اللہ پاکیزہ فرما دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج:

خود پسندی ایک انتہائی مذموم صفت ہے اور اس صفت کے پیدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں جن کی معرفت ہونے کی صورت میں ہی خود پسندی سے بچا جا سکتا ہے لہٰذا ہم ذیل میں خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج ذکر کرتے ہیں تاکہ اس مذموم وصف کو پہچان کر اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔

(1)… حسن و جمال،شکل و صورت، صحت، قوت، اَعضا ء میں تَناسُب اور اچھی آواز ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان جب شکل و صورت کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہو تووہ اپنی باطنی گندگیوں پر غور کرے، اپنے آغاز و انجام کے بارے میں سوچ بچار کرے اور یہ سوچے کہ کس طرح خوبصورت اور عمدہ بدن مٹی میں مل گئے اور قبروں میں یوں بدبودار ہو گئے کہ طبیعتیں ان سے متنفر ہو گئیں اور جب طاقت و قوت کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو وہ اس بات پر غور کرے کہ ایک دن  کے بخار سے اس کا کیا حال ہو جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ طاقت پر اِترانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ادنیٰ سی آفت نازل کر کے اس کی طاقت ہی سَلب کر لے۔

(2)…عقل اور سمجھداری۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب عقل اور سمجھداری کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے عقل عطا کی اور عقل زائل ہو جانے سے خوفزدہ ہو نیز بے وقوف لوگوں کی طرف دیکھے کہ وہ کس طرح اپنی عقلوں پر اتراتے ہیں لیکن لوگ ان پر ہنستے ہیں اور اس بات سے ڈرے کہ کہیں وہ ان میں سے نہ ہو اور اسے یہ بات معلوم بھی نہ ہو ۔

(3)…اچھا نسب۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب انسان اپنے اعلیٰ نسب اور اونچی نسبت کی وجہ سے اترائے تو وہ جان لے کہ اس کی یہ سوچ انتہائی جہالت پر مَبنی ہے کہ اخلاق اور اعمال میں اپنے آباء واَجداد کی مخالفت کرنے کے باوجود وہ ان کے درجے تک پہنچ گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اور اگر وہ ان کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے تو ان میں خود پسندی کہاں تھی بلکہ ان میں تو خوف تھا اور وہ اپنے آپ کو حقیر جانتے ، دوسروں کو بڑ اسمجھتے اور اپنے نفس کی مذمت کرتے تھے ، انہوں نے نسب کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ،علم اور اچھی خصلتوں کی وجہ سے مقام و مرتبہ حاصل کیا تھا لہٰذا اسے اس عمل کے ذریعے شرف حاصل کرنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ مُعزز و محترم ہوئے،صرف نَسب پر بھروسہ نہیں کر لینا چاہئے کیونکہ قبائل میں شرکت اور نسب میں مُساوات تو ان لوگوں کو بھی حاصل ہے جواللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔

(4)…ظالم بادشاہوں اور ان کے مددگاروں سے تعلق۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب کے حقدار ہیں اور اگر وہ قیامت کے دن ان کی ذلت و رسوائی ، جہنم میں ان کی بگڑی صورتوں ،بدبو اور گندگی کو دیکھ لے تو اس کا کیا حال ہو گا،کیا اب بھی وہ ان سے تعلق پر اترائے گا یا ان سے کوئی تعلق نہ ہونے کا اظہار کرے گا اور جو کوئی اسے ان کی طرف منسوب کرے اس پر اعتراض کرے گا۔

(5)…بیٹوں ،خادموں ، رشتہ داروں ، مددگاروں اور پیروکاروں کی کثرت۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی کمزوری کے بارے میں سوچے اور اس بات پر غور کرے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اور وہ ذاتی طور پر کسی طرح کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ،پھر وہ ان پر کس طرح اتراتا ہے حالانکہ جب وہ مر جائے گا تو وہ سب اسے چھوڑ دیں گے

 اور اسے قبر میں یوں دفن کیا جائے گا کہ وہ اکیلا بھی ہو گا اور رسوا بھی،اس کے اہلِ خانہ ،اولاد،قریبی رشتہ داروں اورجگری دوستوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہو گا،وہ اسے گلنے سڑنے کے لئے ، سانپوں ،بچھوؤں اور کیڑے مکوڑوں کے خوراک بننے کے لئے قبر کے حوالے کر دیں گے اور وہ ا س پر آنے والے عذاب کو دور نہیں کر سکیں گے حالانکہ اس وقت اسے ان کی زیادہ حاجت ہو گی ،اسی طرح قیامت کے دن بھی یہ بھاگ جائیں گے اور جو لوگ تجھے سخت ترین حالت میں چھوڑ کر بھاگ جائیں تو ان میں کیا بھلائی ہے اور ان پر تو کس طرح اتراتا ہے؟

(6)…مال۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مال کی آفات، اس کے حقوق، اور اس کی عظیم فتنہ سامانی کے بارے میں سوچے، فقراء کی فضیلت اور قیامت کے دن جنت میں ان کے سبقت لے جانے پر غور کرے اور یہ بھی سوچے کہ مال تو آنے جانے والی اور ناپائیدار چیز ہے اور یہ بھی دیکھے کہ کئی یہودیوں کے پاس اس سے زیادہ مال ہے تو وہ کس طرح اپنے مال پر اتراتا ہے؟ (احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان اقسام ما بہ العجب وتفصیل علاجہ، ۳ / ۴۵۸-۴۶۲، ملخصاً)

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links