Khatm e Daur e Risalat Pe Lakhon Salam

Book Name:Khatm e Daur e Risalat Pe Lakhon Salam

مفِلسو، غُربت کے مارو مرحبا یامصطَفٰے        تم بھی کہہ دو مالدارو مرحبا یامصطَفٰے

دھوم ہے عطّارؔ ہر سُو شاہ کے مِیلاد کی جھوم کر تم بھی پکارو مرحبا یامصطَفٰے([1])

خیر! میں ایک واقعہ عرض کرنے لگا تھا۔ واقعہ یُوں ہوا؛ رَبِیعہ بن نَصْر یمن کا بادشاہ تھا، اُس نے ایک مرتبہ ایک خواب دیکھا، بہت ڈر گیا، بہت ہی خوفناک قسم کا خواب تھا، اب اُس نے تعبیر جاننے کے لیے اپنے مُلْک کے تمام مُعَبِّرِین (یعنی تعبیر بتانے والوں) کو جمع کر لیا، کہا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے، تم لوگ اِس کی تعبیر بتاؤ! مگر شرط یہ ہے کہ میں خواب نہیں بتاؤں گا، میں نے کیا دیکھا ہے؟ یہ بھی تم لوگ ہی بتاؤ گے اور اِس کی تعبیر بھی کرو گے۔

بڑی عجیب شرط تھی، جب سُوال ہی نہیں پوچھا تو جواب کس چیز کا...؟ خواب پتا چلے تو تعبیر بتائیں مگر وہ بادشاہ تھا، بادشاہوں کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ اُن کے سامنے کون دَم مارے۔ خیر! ایک مُعَبِّر نے ہمّت کی، لب کھولے، کہا: بادشاہ سلامت...!! ایک شخص ہے جو آپ کی شرط پر پُورا اُتر سکتا ہے۔ پوچھا: کون ہے؟ کہا: شام کا رہنے والا ہے، کاہِن ہے (یعنی اس کا جنّات کے ساتھ رابطہ ہے)، اُس کا نام سِطِّیْح ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا: سِطِّیْح کو فورًا حاضِر کیا جائے۔

شاہی اہتمام کےساتھ سِطِّیْح کو بلایا گیا، مُعَاملہ اُس کے سامنے رکھا گیا۔ سِطِّیْح کا جنّات کے ساتھ جو رابطہ تھا، اُس کے ذریعے اس نے کہا: بادشاہ سلامت! آپ نے دیکھا کہ اندھیرے کا ایک سمندر ہے، جہاں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا ہے، پِھر اُس اندھیرے میں ایک بجلی چمکی، وہ بجلی کی چمک تِہَامَہ (یعنی مکہ پاک) میں آ کر گِری اور اُس نے سب اندھیروں کو نگل لیا۔

اتنا سننا تھا کہ بادشاہ اُچھل پڑا، کہا: بالکل میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔ اب اِس کی


 

 



[1]... وسائلِ بخشش، صفحہ:410-411 ملتقطاً۔