سلامتی کےتین اُصول تقلیلِ کلام، تقلیلِ طعام، تقلیلِ مَنام / استادکےادب کےفوائد/ وقت کابہترین استعمال کرنے کابہترین طریقہ

کم بولنے سے اىمان ، کم کھانے سے معدہ اور کم سونے سے عقل سلامت رہتى ہے۔

 تقلیلِ کلام: ىعنى صرف اچّھى بات کہنا وہ بھى ضرورتا ًآ پ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : جو اللہ اور آخرت کے دن پر اىمان رکھتا ہے وہ اچھى بات کہے ىا خاموش رہے۔ ([i]) کم بولنے سے انسان کى عقل کامل ہوتى ہے ، جو جتنا عقل مند ہوتا ہے ، وہ اتنا کم بولتا ہے ، کم بولنا عبادت کى چابى ہے ، کم بولنے سے اىمان کى حَلاوَت نصىب ہوتى ہے ، فضول گفتگو سے بچت ہوتی ہے ، عزّت اور دىن سلامت رہتے ہىں ، دوسروں کى بات اچھے سے سمجھ سکتے ہىں ، عزت و وقار اور علم مىں اضافہ ہوتا ہے ، زبان کے فتنوں اور جہنم کے عذاب سے حفاظت ہوتى ہے کىونکہ اکثر لوگ زبان کى بے احتىاطى کى وجہ سے جہنم مىں داخل ہوں گے ، سىد المبلغىن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : لوگوں کو ان کى زبان کى کھىتى  کى وجہ سے چہروں کے بل جہنم مىں ڈالا جائے گا۔ ([ii])  اس لئے پہلے تولو پھر بولو ، کىونکہ کمان کے تىر کى طرح منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بھى واپس نہىں آسکتے۔

 تقلیلِ طعام:ىعنى بھوک سے کم کھانا ، کم کھانے سے انسان صحت مند رہتا ہے ، بىمارىوں سے حفاظت رہتى ہے ، غرىبوں کى بھوک کا احسا س ہوتا ہے ، اللہ کى راہ مىں خرچ کرنے کا جذبہ نصىب ہوتا ہے دل نرم ہوتا ہے ، نىند مىں کمى آتى ہے ، سىنہ نور سے معمور کردىا جاتا ہے ، نفس کى مخالفت پر قوت ملتى ہے ، عبادت پر قوّت ملتى ہے ، عبادت کى توبنىاد ہى کم کھانا ہے ، اللہ کا قرب نصىب ہوتا ہے ، سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : اللہپاک کو تم مىں سب سے زىادہ وہ بندہ پسند ہے جو کم کھانے والا ہے۔ ([iii])   زندہ رہنے کیلئے کھائىں ، کھانے کے لئے زندہ نہ رہىں ، زىادہ کھانے کا نقصان بىان کرتے ہوئے حضرت سفىان ثُورى رحمۃ اللہ  علیہ نے فرماىا : دل کى سختى کے دو

اسباب ہىں : (1)پىٹ بھر کر کھانا(2)زىادہ بولنا([iv])

 تقلیلِ مَنام: کم سونے سے وقت مىں برکت ہوتى ہے ، سُستى دور ہوتى ہے ، طبىعت خوشگوار ہوتى ہے ، عقل اور حافظہ مىں اضافہ ہوتا ہے ، دماغى امراض سے حفاظت رہتى ہے ، صحت نصىب ہوتى ہے ، عبادت کا شوق بڑھتا ہے ، عبادت کى لذّت نصىب  ہوتى ہے۔ حضرت سىّدنا ابراہىم بن اَدْھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں : مجھے کوہِ لُبْنان کے اولىائے کرام نے نصىحت فرمائى کہ(1)جو پىٹ بھر کر کھائے گا اسے عبادت کى لذّت نصىب نہىں ہوگى (2)جو زىادہ سوئے گا اس کى عمر مىں برکت نہىں ہوگى (3)زىادہ سونے سے انسان کند ذہن ہوتا ہے اور عقل  زائل ہوتى ہے کىونکہ جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔ ([v])

کم بولنا ، کم کھانااور کم سونا ، اللہ کے دوستوں کى نشانى ہے ، زىادہ بولنا   زىادہ کھانا  اور زىادہ سونا ، شىطان کے دوستوں کى نشانى ہے۔

زىادہ بولنا ، زىادہ کھانا ، زىادہ سونا کسى بھى طرح فائدہ مند نہىں ہے ، زىادتى کسى بھى چىز کى ہونقصان کرتى ہے ، لہٰذا اس سے پرہىز کرىں رَحْمۃٌ لِلعىلمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا : آدمى کے حسنِ اسلام مىں سے ہے  کہ وہ بے فائدہ چىزوں کو چھوڑ دے۔ ([vi])

مىں کم بولوں ، کم سوؤں ، کم کھاؤں ىارب

تىرى بندگى کا مزا پاؤں ىارب

 



([i])   مسلم ، ص44 ، حدىث : 77

([ii])   ابنِ  ماجہ ، 4 / 342 ، حدىث : 3973

([iii])   جامع الصغىر ، ص20 ، حدىث : 221

([iv])   ییٹ کا قفلِ مدینہ ، ص678

([v])   منہاج العابدىن ، ص107

([vi])   ابن ماجہ ، 4 / 344 ، حدىث : 3976


Share

سلامتی کےتین اُصول تقلیلِ کلام، تقلیلِ طعام، تقلیلِ مَنام / استادکےادب کےفوائد/ وقت کابہترین استعمال کرنے کابہترین طریقہ

حصول ِعلم کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رُکن استاد ہے ،  تحصیلِ علم میں جس طرح درسگاہ و کتاب کی اہمیت ہے اسی طرح حصول ِعلم میں استاد کا ادب و احترام مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔  استاد کی تعظیم و احترام شاگرد پر لازم  ہے  کہ استاد کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے اورادب کے بغیر علم تو شاید حاصل ہوجائےمگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے اسے یوں سمجھئے :                                                                                                    “ باادب بانصیب ، بے ادب بے نصیب “

استاد کے  ادب کے مختلف دینی اور دُنیوی فوائد طالبِ علم کو حاصل ہوتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں :

(1) امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتا ہے جب تک کہ وہ علم ، اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو ۔

(2) امام فخرالدین ارسا بندی رحمۃ اللہ علیہ مَرْو شہر میں رئیسُ الائمہ کے مقام پر فائز تھے اورسلطانِ وقت آپ کا بے حد ادب واحترام کیا کرتاتھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ منصب اپنے استاد کی  خدمت و ادب کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔ ([i])

 (3)صلاحیت ِفکر وسمجھ میں اضافہ ہونا

(4)ادب کے ذریعے استادکے دل کو خوش کرکے ثواب حاصل کرنا ، حدیث ِپاک میں ہے : اللہپاک کے فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ پیارا عمل مسلمان کادل خوش کرناہے۔ ([ii])

(5)ادب کرنے والوں کو اساتذۂ  کرام دل سے دُعائیں دیتے ہیں اور  بزرگوں  کی دعا سے انسان کو بڑی  اعلیٰ  نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ([iii])

(6)ادب کرنے والے کو نعمتیں  حاصل ہوتی ہیں اور وہ زوالِ نعمت سے بچتا ہےکیونکہ جس نے جو کچھ پایا ادب واحترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اورجس نے جوکچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔ ([iv])

(7)استاد کےادب سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں۔ ([v])

والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی  اولاد کو علم و اہلِ علم کا ادب سکھائیں۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے فرمایا : اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ بے شک تم سے تمہارے بیٹے کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جو تم نے اسے سکھایا اور تمہاری فرمانبرداری کے بارے میں اس لڑکے سےسوال کیا جائے گا۔ ([vi])

اللہ پاک ہمیں اپنے والدین ، اساتذہ اور پیر ومرشد کا فرمانبردار اور باادب بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([i])   راہ علم ، ص 35 تا38ملتقطاً

([ii])   معجم اوسط ، 6 / 37 ، حدیث : 7911

([iii])   صراط الجنان ، 8 / 281

([iv])   تعلیم المتعلم ، ص 35

([v])   علم وعلماء کی اہمیت ، ص108

([vi])   شعب الایمان ، حدیث : 8409

 


Share

سلامتی کےتین اُصول تقلیلِ کلام، تقلیلِ طعام، تقلیلِ مَنام / استادکےادب کےفوائد/ وقت کابہترین استعمال کرنے کابہترین طریقہ

اللہپاک کى بے شمار نعمتوں مىں سے اىک بہت ہى پىارى اور قىمتى نعمت وقت ہے ۔ وقت اللہ پاک کى اىک اىسى نعمت ہے جو اللہ کریم نے ہر انسان کو ىکساں عطا فرمائى ہے ، امىر ہو ىا غرىب ، جوان ہو ىا بوڑھا مسلمان ہو ىا کافر ، ہر اىک کو اللہ نے دن اور رات مىں24 گھنٹے عطا فرمائے ہىں ، اب ہر انسان پرDepend کرتا ہے کہ وہ ان اوقات کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔

کسى نے کہا کہ اىک اچھى خبر ہے اور اىک بُرى خبر ہے ، بُرى خبر ىہ ہے کہ وقت اُڑتا جارہا ہے اور اچھى خبر ىہ ہے کہ اس کا اُڑنا آپ کے ہاتھوں مىں ہے کہ آ پ اس کو کىسے اور کہاں اُڑاتے ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اپنے وقت کا بہترىن  استعمال کرکے اپنى دنىا و آخرت کو بہترىن بنانے کى کوشش مىں لگارہتا ہے کىونکہ اسے معلوم ہے کہ اگرىہ قىمتى دولت اىک بار ہاتھ سے چلى گئى تو دوبارہ واپس کبھى نہىں آئے گى ، چنانچہ تاجدارِ مدىنہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : روزانہ صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس وقت  دن ىہ اعلان کرتا ہے اگر آج کوئى اچھا کام کرنا ہے تو کرلو کہ آج کے بعد مىں کبھى پلٹ کر نہىں آؤں گا۔    (شعب الایمان ، 3/ 386)

ہمىں بھى چاہئے کہ زندگى کا جو دن نصىب ہوگىا اسی کو غنىمت جا ن کر اچھے اچھے کام کرلىں کہ کل نہ جانے ہمىں لوگ جناب کہہ کر پکارىں   یا  مرحوم کہہ کر۔  ( انمول ہىرے ، ص7)

اپنے وقت کے بہترىن استعمال کے لئے  ہمىں سب سے پہلے اپنے مقصدِ حىات کو پىشِ نظر رکھنا ہوگا کہ ہمارا مقصدِ حىات کىا ہے ؟اللہ پاک نے ہمىں کىوں پىدا کىا؟ اس کے لئے ہم کلامِ الہٰى سے رہنمائى لىتے ہىں ، چنانچہ اللہ پاک  نے قراٰنِ مجىد مىں رہنما ئی  فرما ئی :  وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ترجمۂ کنزالاىمان : اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی (اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں ۔   (پ27 ، الذاریٰت : 56)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آىتِ قراٰنى سے واضح ہوگىا کہ  اللہ کریم نے ہمىں اپنى عبادت کے لئے پىدا کىا ہے ،  ہمىں اسى مقصدِ حىات کو پىش نظر رکھتے ہوئے اپنى زندگى گزارنى ہے۔ ہمارى زندگى کا جو وقت بِىت گىا سو بىت گىا ، اس پر افسوس کرنے کے بجائے اپنے موجودہ وقت کى قدر کرتے ہوئے اسے نىکى کے کاموں مىں گزارنا ہے تاکہ بروزِ قىامت بارگاہِ خداوندى مىں شرمسار نہ ہونا پڑے۔

اپنے وقت کا بہترىن استعمال کرتے ہوئے ہمىں سب سے پہلے (1)اپنے فرائض و واجبات (نماز ، روزہ وغىرہ) کى ادائىگى کرنى چاہئے اور سابقہ فوت  شدہ فرائض و واجبات کى تلافى کے لئے توبہ واستغفار کرکے جلد از جلد قضا کرنى چاہئے(2) کثرت سے قراٰ نِ پاک کى تلاوت اور ذکر و اذکارکرنا چاہئے(3)اپنے وقت کو ىادِ خداوندى مىں گزارنا چاہئے (4)پىارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى سنّتوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے شب و روز گزارىں (5) نىکى کا حکم دىں  اور بُرائى سے منع کرىں(6)اپنے والدىن کى خدمت کرکے ان کى دُعائىں لىں(7)ان تمام کاموں سے بچىں جو ہمارے وقت کو ضائع کرنے کا سبب بنتے ہىں مثلاً جھوٹ ، غىبت ، چغلى جىسى برى باتوں  اور تمام حرام کاموں سے بچىں وغىرہ(8)آج کا کام کل پر نہ چھوڑىں کہ حضرت عمر بن عبدالعزىز رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہىں مىں روزانہ کا کام اىک دن مىں بمشکل مکمل کر پاتا ہوں اگر آج کا کام بھى کل پر چھوڑ دوں گا تو پھر دو دن کا کام اىک دن مىں کىسے کر پاؤں گا۔

 اللہپاک سے دُعا ہے کہ ہمىں اپنے وقت کا بہترىن استعمال کرکے اسے اپنى رضا والے کاموں مىں گزارنے کى توفىق عطا فرمائے۔     اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share