فرنیچرپرکارٹون بناناکیسا؟

فرنیچر پر کارٹون بنانا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم بچوں کا فرنیچر بناتے ہیں تیار ہونے کے بعد کسٹمر بسا اوقات تصویر بنواتے ہیں اس کے بارے میں شرعی رہنمائی فرما دیں کہ کیا یہ جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : تصویر کے حوالے سے سب سے پہلے تو یہ یاد رہے کہ ڈیجیٹل تصویر بنانا ، جائز ہے کیونکہ وہ تصویر نہیں ہےعکس ہےلیکن جب وہ چَھپ جائے یعنی پرنٹ ہوجائے تو اب اس پر تصویر کا اطلاق ہوگا اور جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے۔  اب کارٹون پر تصویر کا اطلاق آتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ  مسئلہ ہے۔

آجکل جس انداز کے کارٹون بن رہے ہیں ان میں عموماً دو طرح کے کارٹون ہوتے ہیں : (1)اگر وہ ذی روح کی حکایت نہ کرتا ہو توجائز ہے جیسے بس کے آگے آنکھ لگادی تو اس طرح کی کوئی جاندار مخلو ق دنیا میں نہیں پائی جاتی لہٰذا یہ خیالی مخلوق کا کارٹون ہے جو تصویر کے حکم میں نہیں آتا (2)اگر کسی شخص یا جانور وغیرہ کا کارٹون بنایا جو ذی روح کی حکایت کر رہا ہوتا ہے تو ایسا کارٹون بنانا جائز نہیں۔ لہٰذا کسٹمر اگر فرنیچر پر ایسا کارٹون بنانے کا کہےجو ذی روح کی حکایت کرتا ہو تو وہ بنا کر نہیں دیا جاسکتا۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے : “ تصویر کسی طرح استیعاب مابہ الحیاۃنہیں ہوسکتی فقط فرق حکایت و فہم ناظر کا ہے اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذوالتصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایت حیات نہ کرے ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں میت و بے روح کی ہے تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 24 / 587)

ایسی تصویر جو موضع اہانت میں ہو اس کا بھی بنانا اور بنوانا جائز نہیں۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں : “ تصویر کی توہین مثلاً فرش پا انداز میں ہونا کہ اس پر چلیں پاؤں رکھیں یہ جائز ہے اور مانع ملائکہ نہیں اگرچہ بنانا بنوانا ایسی تصویروں کا بھی حرام ہے۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 24 / 587)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

وقت پر پیمنٹ نہ کرنے پر اضافی رقم لینا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی دکاندار سے کھاد وغیرہ چھ ماہ کی ادھار پر لیتا ہے مگر چھ ماہ میں نہیں دے پاتا بلکہ سال دو سال گزر جاتے ہیں تو کیا جس وقت وہ پیسے دے گا وہ اتنے ہی دے گا یا زیادہ بھی لےسکتے ہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : جتنے کا سودا ہوا اتنے ہی پیسے لئے جائیں گے اس سے زیادہ نہیں لے سکتے۔ کیونکہ رقم اس نے مال کے عوض دینی ہے اور مال میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس نےقیمت ادا کرنے میں جو تاخیر کی ہے اس تاخیر کی بناء پر اضافی رقم وصول نہیں کرسکتے ، اگر کریں گے تو وہ سود ہوگا۔

ہاں اگر دینے والے نے بلاوجہ تاخیر کی ہے تو وہ گناہگار ہوگا۔

لیکن اگر تنگدست ہے کہ ادائیگی پر قادر نہیں نہ ہی کوئی ایسا مال ہے جسے بیچ کر ادا کرسکے تو گناہ نہیں بلکہ جہاں ادائیگی کے کوئی اسباب نہ ہوں تو وہاں تنگدست کو مہلت دینی چاہئے ، یہی قرآن کی تعلیمات ہیں۔

چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :  وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۸۰) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بھلاہے اگر جانو۔ (پ3 ، البقرۃ : 280)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پسند نہ آئی تو واپس کردیں گے، اس شرط پر خریدنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب کوئی چیز خریدتے ہیں تو بسا اوقات چیز پسند نہیں آرہی ہوتی یا خدشہ ہوتا ہے کہ گھر والوں کو پسند آئے گی یا نہیں اس لئے کہہ دیتے ہیں کہ اگر پسند نہیں آئی تو واپس کر دیں گے۔ اس بارے میں کیاحکم ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : عام طور پر جو سودے ہوتے ہیں اس میں خریدتے وقت سودافائنل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا پسند نہ آنے پر واپسی کا اختیار نہیں۔ البتہ جب سودا کرتے ہوئے آپ نے یہ شرط رکھ لی کہ اگر پسند نہ آیا توایک دو دن میں واپس کردوں گا تو یہ جائز ہے اسے فقہ کی اصطلاح میں خیارِ شرط کہتے ہیں اور اس میں زیادہ سے زیادہ تین دن تک کی شرط رکھی جاسکتی ہے اگر چیز پسند نہ آئی تو تین دن کے اندر اندر واپس کرنے کا اختیار ہوگا تین دن کی مدت پوری ہونے پر بیع لازم ہوجائے گی اور اب واپسی کا اختیار ختم ہوجائے گا۔ خرید و فروخت میں خیار رکھے جانے کا یہ انداز حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے چنانچہ بخاری شریف میں ہے : “ قال رجل للنبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم انی اخدع فی البیوع فقال اذا بایعت فقل لا خلابۃ فکان رجل یقولہترجمہ : ایک شخص نے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میں خرید و فروخت میں دھوکا کھا جاتا ہوں۔ ارشاد فرمایا : جب خرید و فروخت کرو تو کہہ دیا کرو “ لا خلابۃ “ یعنی دھوکا نہ ہو۔ چنانچہ وہ صاحب یہ کہہ دیا کرتے تھے ۔ “ (بخاری ، 1 / 324)

اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں : “ اس جملے کے بہت سے معانی کئے گئے ہیں اور ہر معنی کی بنا پر فقہاء کے مذاہب ہیں ، ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم کہہ دیا کرو کہ بھائی میں تجارتی کاروبار میں سادہ بندہ ہوں مجھ سے قیمت زیادہ نہ وصول کرلینا میں اپنے لیے اختیار رکھتا ہوں کسی کو دکھاؤں گا اگر قیمت زیادہ لگائی گئی تو مجھے خیارِ شرط ہے واپس کردوں گا۔ چنانچہ بعض روایات میں یوں ہے “ لا خلابۃ ولی الخیار ثلٰثۃ ایام “ یعنی دھوکا نہ ہو اور مجھے تین دن تک اختیار ہے اس صورت میں حدیث بالکل واضح ہے۔ “ (مراٰۃ المناجیح ، 4 / 247)

بہارِ شریعت میں ہے : “ بائع و مشتری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قطعی طور پر بیع نہ کریں ۔ بلکہ عقد میں یہ شرط کردیں کہ اگر منظورنہ ہوا تو بیع باقی نہ رہے گی اسے خیارِ شرط کہتے ہیں اور اس کی ضرورت طرفین کو ہوا کرتی ہے کیونکہ کبھی بائع اپنی ناواقفی سے کم داموں میں چیز بیچ دیتا ہے یا مشتری اپنی نادانی سے زیادہ داموں سے خرید لیتا ہےیا چیز کی اسے شناخت نہیں ہے ضرورت ہے کہ دوسرے سے مشورہ کرکے صحیح رائے قائم کرے۔ “

(بہار شریعت ، 2 / 647)

اسی میں ہے : “ خیار کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن ہے اس سے کم ہوسکتی ہے زیادہ نہیں۔ “

(بہار شریعت ، 2 / 649)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*دارالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان ، کھارادر ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code