حضرت  سیدنا  جہجا غفاری  رضی اللہ  عنہ

اُمّت کے بہترین افراد! حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے شرفِ صحبت سے فیضیاب  ہوکر جو جلیلُ القدر ہستیاں صحابیت کے درجےپر فائز ہوئیں وہ ساری اُمّت میں سب سے افضل ہیں۔ انہی عظیم صحابَۂ کرام میں سے ایک حضرت سیّدُنا جَہْجا بن سعید غِفاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ تابعین سے لے کر قیامت تک اُمّت کا کوئی ولی ، غوث ، قُطب یا ابدال جیسے کتنے ہی بلند مرتبے کو پہنچ جائے ہرگز ہرگز ان کے عظیم مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا۔

نام و تعارف: آپ رضی اللہ عنہ کا نام جہجاہ مشہور ہے جبکہ امام محمد بن يوسف شامی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام ابن جریر طبری سے نقل فرماتے ہیں : اَلْمُحَدِّثُونَ يَزِيْدُوْنَ فِيهِ الْهَاء ،  وَالصَّوَابُ جَهْجَا ،  دُونَ هَاء یعنی مُحدّثین نے اس میں “ ہ “ کا اضافہ کر دیا درست “ ہ “ کے بغیر “ جہجا “ ہے۔ ([i]) آپ رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ ([ii])

قبیلۂ غِفار کے لئے دُعائے مصطفےٰ: حضرت سیّدنا جہجا بن سعید غِفاری رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلۂ غِفار سے تھا۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس قبیلے کیلئے منبرِ انور پر یوں دُعا فرمائی : غِفَارٌ غَفَرَ اللّٰهُ لَهَا یعنی اللہ پاک غِفار کی مغفرت فرمائے۔ ([iii]) ایک اور روایت میں نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غِفار سمیت سات قبیلوں کا نام لے کر فرمایا : یہ میرے مددگار ہیں ، اللہ و رسول ہی اِن کےمددگار ہیں۔ ([iv]) جلیلُ القدر صحابی حضرت سیّدنا اَبوذَر غِفاری ، حضرت سیِّدُنا خِفاف بن ایماء غِفاری ، حضرت سیِّدُنا اُنيس بن جُنادہ غِفاری ، حضرت سیّدُنا حُذیفہ بن اُسید غِفاری ، حضرتِ سیِّدُنا عُباد بن خالد غِفاری ، حضرتِ سیِّدُنا حَکَم بن عَمْرْو غِفاری اور حضرت سیّدُنا رافع بن عَمْرْو غِفاری رضوان اللہ علیہم اَجْمعین  کا تعلق بھی اسی قبیلے غِفار سے تھا۔

قبولِ اسلام کا واقعہ:حضرت سیّدُنا جہجا بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے قبیلے کے ایک گروہ کے ساتھ اسلام قبول کرنے کےلئے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں مغرب کے وقت حاضر ہوا ۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سلام پھیر کر فرمایا : ہرشخص اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کا ہاتھ پکڑے اور اُسے اپنے ساتھ لے جائے۔ (جب سب جاچکے تو) اب مسجد میں میرے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ میں دراز قداور عظیمُ الْجُثّہ تھا ، میری جانب کوئی بھی نہ بڑھا۔ مجھے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے گھر لے آئے ، پھر میرے لئے ایک بکری کا دودھ نکالا میں نے پی لیا ، حتّٰی کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سات بکریوں کا دودھ نکالا میں نے وہ سارا پی لیا پھر ایک پتھر کی ہانڈ ی میں کچھ لایا گیا میں نے وہ بھی کھا لیا۔ حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنھا نے کہا : اللہ اُسے بھوکا رکھے جس نے آج رات رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھوکا رکھا۔ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اُمِّ ایمن چھوڑو! اس نے اپنا رزق کھایا ہے اور ہمارا رزق اللہ پاک کے ذمے ہے۔

اگلے روز نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صحابَۂ کرام جمع ہوئے اور جس کے ساتھ جو ہوا بتانے لگے۔ تو حضرت جہجا نے سات بکریوں کے دودھ اور ہانڈی کے کھانے کی بات بتائی۔ (اس دن اسلام لانےکے بعد حضرت جہجا بن سعید غفاری اور دیگر) صحابۂ کرام نے پھر نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی اور وہی فرمایا کہ ہر شخص اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کا ہاتھ پکڑے اور اُسے اپنے ساتھ لے جائے۔ (اس بار بھی) مسجد میں میرے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہا۔ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے اپنے گھر لے آئے ، پھر میرے لئے ایک بکری کا دودھ لائے میں نے اُسے پیا اور خوب سیر ہو گیا۔ حضرت اُمِّ ایمن نے کہا : کیا یہ ہمارا (کل والا) مہمان نہیں؟ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کیوں نہیں آج اس نے مؤمن کی آنت میں کھایا ہے ، پہلے اس نے کافر کی آنت میں کھایا تھا ، بے شک مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ ([v])

غزوۂ بنی مُصطَلِق میں شرکت: آپ رضی اللہ عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ  اسلام کی سربلندی کیلئے 5ہجری میں غَزوۂ بَنِی مُصْطَلِق ہوا تو  نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی معیت میں حضرت جہجا غفاری رضی اللہ عنہ بھی اس جنگ میں شریک تھے۔ ([vi])

 

اس غزوہ کے وقت آپ رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے اجیر تھے اور آپ کا گھوڑا پکڑ کر چل رہے تھے۔ ([vii])

بیعتِ رضوان کی سعادت: حضرت سیّدُنا جہجا غفاری رضی اللہ عنہ کے بدری صحابی ہونے کی کوئی تصریح تو نہیں مل سکی البتہ آپ رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صلحِ حدیبیہ کے بعد ایک درخت کے نیچے صحابَۂ کرام سے بیعت لی تو آپ رضی اللہ عنہ اس میں شریک تھے جیسا کہ امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شَہِدَ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ بِالْحُدَیْبِیَۃ یعنی آپ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر بیعتِ رضوان میں حاضر تھے۔ ([viii]) جو صحابَۂ کرام اس بیعت  میں شریک تھے قراٰنِ کریم میں انہیں رضائے الٰہی کا مژدہ سنایا  گیا ہے جیساکہ ارشادِ خداوندی ہے : لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ(۱۸) ترجَمۂ کنزُ الایمان : بےشک اللہ راضی ہواایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔ ([ix](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نیز حدیثِ پاک میں ان تمام صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے لئے جہنّم سےآزادی کی بشارت بھی بیان کی گئی ہے جیساکہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی بھی جہنّم میں داخل نہیں ہوگا۔ ([x])

وصال:امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے کچھ ہی عرصے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ([xi]) اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*رکنِ مجلس المدینۃالعلمیہ کراچی

 



([i])   سبل الھدیٰ والرشاد ، 4 / 356

([ii])   غوامض الاسماء المبھمۃ  ، 1 / 102

([iii])   بخاری ، 2 / 477 ، حدیث : 3513مختصراً

([iv])  سابقہ حوالہ ، 2 / 475 ، حدیث : 3504

([v])   معرفۃ الصحابۃ ، 1 / 517 ، حدیث : 1746

([vi])   الاستیعاب ، 1 / 268

([vii])   سابقہ حوالہ ، 2 / 656

([viii])   الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، 1 / 621

([ix])   پ26 ، الفتح : 18

([x])   ترمذی ، 5 / 462 ، حدیث : 3886

([xi])   طرح التثریب فی شرح التقریب ، 1 / 38۔


Share