Book Name:Muaf Karnay ki Barkaat

دیتے ہیں جوکہ  اِنْتہائی بُری عادت ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہمارے ساتھ کوئی کیسا ہی بُراسُلُوک کرے،ہم ہمیشہ حُسْن ِ سُلُوک سے ہی پیش آئیں۔

غَلَط قسم کھالی توکیا کرنا چاہیے ؟

یہاں ایک ضَروری مَسئلہ بھی سَماعت فرمالیجئے کہ اگر کسی نے گُناہ پر قَسَم کھائی، مثلاً کہا میں والدین سے بات نہ کروں گا یافُلاں(شخص ) کو قَتْل کروں گا، تو اس پر لازِم ہے کہ وہ حِنْث کرے (یعنی قسم توڑ دے) اور کَفّارہ دے دے کیونکہ یہ کَفّارہ اس گُناہ کے مُقابَلہ میں کم تَر ہے۔(فتاوی رضویہ  ج۱۳ ص ۴۹۹)

قسم کاکفّارہ دو!

حَضْرتِ سیِّدُنا اَبُوالْاَحْوص عَوف ابنِ مالِکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَااپنے والدِ سے روایت فرماتے ہیں: میں نے عَرض کی:یارَسُولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایئے کہ میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس کچھ مانگنے جاتا ہوں تووہ مجھے نہیں دیتا،نہ صِلۂ رِحمی(رِشْتہ دار ہونے کی وَجہ سے حُسنِ سُلُوک ) کرتا ہے،پھر اِسے (جب) میری ضَرورت پڑتی ہے تو میرے پاس آتا ہے،مجھ سے کچھ مانگتا ہے۔میں قَسَم کھا چُکاہوں کہ نہ اِسے کچھ دوں گا نہ صِلہ ٔرِحمی کروں گا۔تو مجھے حُضُور، سراپا نُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم دیا کہ جو کام اچّھا ہے وہ کروں اور اپنی قسم کا کفَّارہ دے دوں۔ (سُنَنِ نَسائی ص۶۱۹حدیث ۳۷۹۳) (نیکی کی دعوت ص ۱۸۴)لہٰذاہمیں بھی اس طرح کی قسمیں کھانے اوراپنے رِشْتہ داروں سے قطع تَعلُّقی کرنے سے بچناچاہیے اور ہمارے ساتھ وہ جیسابھی سُلُوک کریں، مگر ہمیں اِینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے اُنہیں مُعاف کردینا چاہیے ۔

تم گرم راکھ کھلارہے ہو!