Book Name:Muaf Karnay ki Barkaat

سے گُزرے تو کسی نے آپ پر راکھ پھینک دی۔آپ اپنی سواری سے اُترے اور سجدۂ شکر بجالائے، پھر اپنے کپڑوں سے راکھ جھاڑنے لگے اور راکھ ڈالنے والے کو کچھ نہ کہا۔آپ سے کہا گیا کہ آپ راکھ ڈالنے والے کو جھڑکتے  کیوں نہیں؟ تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے(عاجزی کرتے ہوئے)فرمایا:جو جَہَنَّم کی آگ کا مُسْتَحِق ہو اُس پر راکھ پڑے تو اُسے غُصّے میں نہیں آنا چاہئے۔(احیاء العلوم، ج۳،ص۲۱۷)

گالیوں بھرے خُطُوط پر اعلیٰ حضرت کا صَبر 

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن  کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی، تو بعض خُطُوط مُغَلَّظات( یعنی گالیوں) سے بھرپُور تھے۔مُعتقِدین (مَحَبَّت کرنے والے) بَرہم (ناراض)ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خِلاف مُقَدّمہ دائر کریں گے۔ امام اہلسنَّت مولانا شاہ احمدرضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن  نے اِرْشاد فرمایا:’’جو لوگ تعریفی خُطوط لکھتے ہیں،پہلے ان کو جاگیریں تقسیم کردو ،پھر گالیاں لکھنے والوں پرمُقَدّمہ دائر کردو۔‘‘(حیاتِ اعلیٰ  حضرت  ج۱ ص۱۴۳،۱۴۴ ملخصًا مکتبۃ نبویۃ مرکزالاولیاء، لاہور) مطلب یہ کہ جب تعریف کرنے والوں کو تو انعام دیتے نہیں، پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں لیں ؟ (غصے کا علاج ،ص۲۴)

       میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!دیکھا آپ نے  ہمارے بُزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کس قَدرعَفْوو دَرگُزرسے کام لیتے اور غلطی کرنے والے کو مُعاف کردیا کرتے۔جبکہ ہمارا مُعامَلہ یہ ہے  کہ ہمارے نامۂ اعمال میں نیکیاں نام کو نہیں ، شب وروز گُناہوں میں بَسرہوتے ہیں ، آۓ دن  گُناہوں میں مُسلسل اِضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔اس کے باوُجُود بھی لڑنا جھگڑنا، ناراض ہو کر بیٹھ جانا، کوئی مُعافی مانگنے آۓ تو اُسے مُعاف نہ کرنا، بلکہ بے عزّتی کرکے اس کی دِل آزاری کرنا بہت بُری عادت ہے کہ