Book Name:Muaf Karnay ki Barkaat

نازیبارَوَیَّے ،نامُناسِب سُلُوک یا زِیادتی کو برداشت کرجانا،اور اپنے حُقُوق چھن جانے پر باوُجُودِ قُدرت صَبْر کرنا، بڑے دل والوں کا ہی حصّہ ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے۔

چُنانچِہ محبوبِ رَبِّ داور، شفیعِ روزِ مَحشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مُعطَّر ہے:جوغُصّہ پی جائے گاحالانکہ وہ نافِذ کرنے پر قُدرت رکھتا تھا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  قِیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رِضا سے مَعْمُور فرمادےگا۔(کنزالعُمّا      ل جز۳،ص۳۶۱،حدیث:۷۱۶۰ ،غصے کاعلاج" ص ۱۱)

بُرائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی

یہی وجہ ہے کہ ہمارے بُزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن اپنے ساتھ نازیبا سُلوک  کرنے والوں کو ناصِرْف مُعاف فرمادیاکرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ حُسنِ سُلوک  سے پیش آتے ۔ چُنانچہ  ایک بار حَضْرتِ سَیِّدُناعمر بن عَبْدُالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِ یْز سواری پر کہیں جارہے تھے کہ ایک پیدل چلنے والاشَخْص  سُواری کی جَھپٹ میں آگیا اور اُس نے غُصّے سے کہا: دیکھ کر نہیں چل سکتے؟ جب سُواریاں آگے نکل گئیں، تو اُس شخص نے کہا : کوئی ہے جو مجھے اپنے پیچھے بٹھائے؟  تو حَضْرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبدُ العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِ یْز نے اپنے غُلام سے کہا کہ اِس کواپنے ساتھ بٹھا کر چشمے تک لے چلو۔ (سیرت ابن جوزی ص۸۰۶)

اسی طرح حَضْرتِ سَیِّدُنا اِمام  زَیْنُ الْعَابِدین  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن  کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شَخْص  نے آپ کو بُرا بھلا کہا، تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی سِیاہ رنگ کی چادر اُتار کر اُسے دے دی اور اُسے ایک ہزار دِرْہم دینے کا  بھی حکم دیا ۔(احیاءالعلوم ، ج۳، ص۵۴۴)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےنیک بندوں کے اَخْلاق کتنے عُمدہ ہوتے ہیں  کہ اگر کوئی تکلیف دے تب بھی غُصّے میں آنا اوراس سے بدلہ لینا تو دَرْکنار