Book Name:Muaf Karnay ki Barkaat

رِحْمی(رشتہ داری قائم) کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطاکرواور جو تم سے جَہالت سے پیش آئےتم  اس کےساتھ بُردْباری اِخْتیار کرو۔ (مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا ،حدیث ۲۳ ،ص ۳۱، لباب الاحیاء ص ۲۵۲)

   میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جب کوئی ہم سے اُلجھے یابُرا بَھلا کہے، اُس وَقْت خاموش رہنے  میں ہی عافیت ہے ،اگر چِہ شیطان لاکھ وَسوَسے ڈالے کہ تُو بھی اس کو جواب دے، ورنہ لوگ تجھے بُزدِل کہیں گے،میاں ! شَرافت کا زمانہ نہیں ہے، اِس طرح تو لوگ تجھے  جینے بھی نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ۔

آئیے !میں  آپ کو شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کے رِسالے "غصّے کا علاج" سے ایک حدیثِ مُبارَکہ بیان کرتا ہوں، اس کو غور سے سَماعت فرمائیے ، سُن کر آپ کو اَندازہ ہوگاکہ دوسرے کے بُرا بھلا کہتے وَقت خاموش رہنے والا،رَحْمتِ الہٰیعزوجل کے کس قَدَر نزدیک تر ہوتا ہے۔چُنانچہ ایک  شخص نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجُودَگی میں حضرت ِسیِّدُنا ابوبکر صدّیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کو بُرا کہا ،جب اُس نے بَہُت زِیادتی کی توآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا(حالانکہ آپ کی جوابی کاروائی مَعْصِیَّت (گُناہ )سے پاک تھی مگر )سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہاں سے اُٹھ گئے۔سَیِّدُنا ابُوبکر صدّیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، حُضُورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے پہنچے، عَرْض  کی: یارَسُوْلَ اﷲ!(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) وہ مجھے بُرا کہتا رہا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ تَشْرِیْف  فرما رہے ،جب میں نے اُس کی بات کا جواب دیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُٹھ گئے، فرمایا: ’’تمہارے ساتھ فِرِشْتہ تھا ،جو اُس کا جواب دے رہا تھا، پھر جب تم نے خود اُسے جواب دینا شُروع کیا، تو شیطان درمیان میں کُود پڑا۔‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل ج۳ ص۴۳۴حدیث ۹۶۳۰)(غصے کا علاج، ص ۲۰)