صبرِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ہماری اِنفرادی و اِجتماعی، گھریلو اور سَماجی زندگی میں مَصائب و آلام، آفات و بَلِیّات،مصیبت و اَذِیَّت اور بیماری وغیرہ یہ سب ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے امتحان و آزمائش کے طور پر ہوتے ہیں اور ان پر صَبْر کرنے والوں اور استِقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والوں کو بشارتِ خداوندی ،قُربِ الٰہی، اجرِ بےحساب اور آخِرت کی سلامتی نصیب ہوتی ہے۔قراٰن و حدیث میں ہمیں صَبْر سے کام لینے کا دَرْس دیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قراٰنِ پاک میں 90 سے زائد مَقامات پر صَبْر کا ذکر کیا گیاہے۔ ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارَک حیات میں بھی بہت سے امتحانات آئے مگر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیشہ صبر و ہمّت کا مُظاہَرہ فرمایا،چنانچہ بچپن کی آزمائشیں پیدائش سے قبل ہی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدِ گرامی اس دنیا سے رِحلت فرما گئے تھے۔عمر شریف تقریباً5 برس کی ہو ئی تو والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی سفرِ ِآخِرت اختیار کرگئیں۔8 سال کی عمر میں کَفالت و پَرْوَرِش کرنے والے دادا عبدُ المطّلِب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بھی انتقال ہو گیا مگر صبرِِِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم دیکھئے کہ کبھی اس بات کا گِلہ شِکْوَہ نہ کیا کہ مجھے والد و والدہ کے سائے سے کیوں محروم رکھا گیا!اعلانِ نبوت کے بعد تکلیفیں اعلانِ نُبُوَّت کے چوتھے سال سورۂ حجر کی آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ) (پ14،الحِجر:94)(ترجمۂ کنزالایمان: تو علانیہ کہہ دو جس بات کا تمہیں حکم ہے) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نازل ہوئی تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِعلانیہ طور پر دینِ اسلام کی تبلیغ فرمانے لگے،اس پر اہلِ مکّہ آپ کی مُخالَفت پر کمر بَسْتَہ ہو گئے، چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کاہِن، ساحِر اور مجنون ہونے کا ہرکوچہ و بازار میں زوردار پروپیگنڈا کیا گیا۔کبھی کفّارِمکّہ راستوں میں کانٹے بچھاتے، کبھی مبارک جسم پر نَجاسَت ڈال دیتے توکبھی مُقَدَّس گردن میں چادر کا پھندا ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔ ایک مرتبہ تو حَرَمِ کعبہ میں نماز کی حالت میں ایک کافر عُقْبَہ بن اَبی مُعِیط نے اونٹنی کی بچہ دانی لا کر کندھوں پر رکھ دی۔ان سب باتوں کے باوجود کبھی ایسا نہ ہوا کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بے صبری کا مظاہرہ کیا ہو یا آپ کی اِستِقامت میں کوئی فرْق آیا ہو بلکہ آپ نے ہمیشہ اپنی قوم کو ہدایت کی دعاؤں ہی سے نوازا۔ تین سال تک مع خاندان محصور رہے اِعلان نُبُوَّت کے ساتویں سال تمام قبائلِ قریش نے خاندانِ بَنِی ہاشِم کا سَماجی مُقاطَعَہ یعنی سوشَل بائیکاٹ کر دیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بنوہاشم کے ساتھ شَعْبِ اَبی طالب میں تین سال تک مَحصُور ہو کر رہ گئے، تین برس کا یہ زمانہ اتنا سخت اور کَٹِھن گزرا کہ بنو ہاشم درختوں کے پتّے اور سُوکھے چَمڑے پکا پکا کر کھاتے تھے۔ مگر صبرِمصطفےٰ کی کیا بات ہے! یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ایک مرتبہ بھی یہ کہا ہو کہ اے اللہ پاک!میں تو تیرا محبوب ہوں، مجھے اتنی مشکلات میں کیوں ڈالا جا رہاہے!غم کا سال  صبرِِ مُصطفےٰ کا ایک جلوہ یہ بھی تھا کہ شَعْبِِ اَبی طالب سے باہر آنے کے 8 مہینے بعد چچا ابوطالب کا انتقال ہو گیا، ان کے تین یا پانچ دن بعد رَمَضانُ المبارک  نبوت کے دسویں سال میں ہر مشکل وقت کی ساتھی،زوجۂ مُطَہَّرَہ حضرتِ سیّدتنا بی بی خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی دنیا سے رِحلت فرما گئیں، قَلْبِِ اَطہر پر ان واقعات کا اتنا عظیم صَدْمَہ گزرا کہ اس سال کا نام ”عامُ الْحُزْن(یعنی غم کا سال) رکھ دیا مگر صبر کا دامن ہر گز نہ چھوڑا۔طائف میں لہولہان کیا گیا صبرِِ مُصطفےٰ کا عظیم مُظاہرہ اس وقت بھی ہوا جب حضور رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبلیغِ اسلام کے لئے طائف کا سفر فرمایا۔ طائف کے ان بَدقِسمتوں نے جنّت لینے کی بجائے مالکِ جنّت کے پیچھے شریر لڑکوں کو لگا دیا، جنہوں نے پتّھر مار مار کر آپ کو لَہُولُہَان کر دیا، پھر بھی اُن کے حق میں بددُعا کرنے کی بجائے صبر کیا اور یہی فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ہی عبادت کریں گے اور شِرْک نہیں کریں گے۔ دعوتِ اسلام دیتے وقت تنگ کیا گیا حج کے زمانے میں نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام قبائل میں دورہ فرما کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ اسی طرح عرب میں لگنے والے مختلف میلوں میں بھی تبلیغِ اسلام کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔مگر ابو لہب آپ کے پیچھے چلاجاتا ، آپ کسی قبیلہ کے سامنے وعظ فرماتے تو ابو لہب چِلّا چِلّا کر کہتا کہ یہ دین سے پھر گیا ہے ،یہ جھوٹ کہتا ہے۔ذرا سوچیں آپ کسی سے بات کر رہے ہوں اور ایک شخص پاس کھڑا چیخ رہا ہو کہ اس کی بات نہ سنو،یہ جھوٹا ہے تو اس وقت دل پر کیا گزرےگی!مگر صبرِِ مُصطفےٰ کی مثال کہاں سے لائیں،آپ نے برابردینِ اسلام کی دعوت کا کام جاری رکھا۔آبائی شہر سے ہجرت اعلانِ نُبُوَّت کے تیرھویں سال اپنا محبوب وطن مکّۂ مکرّمہ چھوڑ کر ہجرت پر مجبور کیا گیاتو جاتے ہوئے بڑی حسرت کے ساتھ کعبہ کو دیکھا اور فرمایا کہ اے شہر ِمکّہ! تو مجھے تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ رہائش پذیر نہ ہوتا اور صبر کرتےہوئے مدینۂ مُنَوَّرَہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً کی جانب روانہ ہوئے۔جنگ کے دوران زخمی ہوئے غزوۂ اُحد میں خَود(جنگ میں پہنی جانے والی لوہے کی ٹوپی) کی دو کَڑیاں رخسار اقدس میں چُبْھ گئیں، دو دَنْدان ِ مُبارَکہ کا کنارہ جَھڑ گیا، کفّار کے کھودے ہوئے ایک گڑھے میں گر گئے، نِچلا ہونٹ مبارک بھی زخمی ہوا، ظالم کفّار نے انتہائی بےدردی سے تِیر بَرسائے، جان سے عزیز چچا حضرت سیّدُنا امیرحمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرکے پیٹ چاک کردیا گیا، اَعضا کاٹ دئیے گئے، کلیجا نکال دیا گیا مگر صبرِِ مُصطفےٰ دیکھئے کہ اس وقت بھی زبانِ مُبارَک پر یہ دعا تھی:رَبِّ اغْفِرْ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْن یعنی اے اللہ! میری قوم کو بخش دے وہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔زوجۂ مطہّرہ پر تہمت لگائی گئی غَزْوَۂ مُرَیْسِیْع سے مدینہ واپس آتے ہوئے ایک واقعہ کی بِنا پر منافقین نے پیارے آقا مدینے والے مصطَفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے محبوب زوجہ حضرت سیدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر تہمت لگائی اور حضوراکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو قلبی رَنج پہنچایا۔مگر صبرِِ مصطفےٰ پر قربان جائیے کہ کوئی نازیبا کلمہ زبانِ مُبارَک پر نہ آیا۔آخِرِ کار اللہ کریم نے اُمُّ الْمُؤمِنِین کی طہارت و پاکیزگی پر 18 آیتیں نازل فرمائیں۔ کھانے میں زہر دیا گیا ہجرت کے ساتویں سال فتحِ خَیْبَر کے بعد سلام بن مِشْکَم یہودی کی بیوی زینب نے گوشت میں زہر ملا کر کھلادیا جس سے عُمْر بَھرتالُو میں تکلیف رہی۔ مگرصَبْر وعَفْو مَرْحَبا کہ زینب سے ذاتی بدلہ نہ لیا۔ لَبِیْد بِن اَعْصَم یہودی نے آپ پر جادو کیا، معلوم ہوجانے کے باوجود آپ نے صَبْر و تَحَمُّل کا مظاہرہ کیا اور اس سے کچھ تعرّض نہ فرمایا۔ اولاد کا انتقال پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مُقَدَّس اولاد(تین صاحبزادگان اورچار صاحبزادیوں) میں سے حضرت سیّدتُنا فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے علاوہ تمام آ پ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے ہی خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ مگر صبر ِمُصطفٰے کا نَظارہ دیکھا گیا کہ آپ نے کسی بھی شہزادے یا شہزادی کی وفات پر اللہ پاک سے شکوہ نہ کیا بلکہ اِنتِہائی صبر کے ساتھ ان تمام صَدْمات کو برداشت فرمایا۔(ملخص از سیرِت مصطفےٰ)

یہ تھوڑے سے واقعات اختصاراً پیش کئے گئے ہیں تاکہ ہمیں یہ احساس ہو کہ ہم جس نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُمّتی ہیں وہ کمالِ صبر و ہمّت کے پیکر تھے! اس میں ہمارے ان اسلامی بھائیوں اور بہنوں کے لئے نصیحت کے بہت سے مدنی پھول ہیں جو ذرا سی پریشانی پر درس دینا چھوڑ دیتے ہیں، کسی کے ٹوک دینے سے مدنی دورہ اوردیگرمدنی کام ترک کردیتے ہیں اوراولاد پر آزمائش آنے پر ہمّت ہار بیٹھتے ہیں۔اللہ عظیم ہمیں بھی پیارے رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کمالِ صبرسے حصّہ عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭معلم تخصص فی الفقہ مرکزی جامعۃ المدینہ با ب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code