حضرت سیدنا تمیم داری رضی اللہ تعالٰی عنہ

ملکِ شام سے  ایک مسلمان تاجِر مدینے کی جانب بڑھ رہا تھا سامان میں قِنْدیلیں، تیل اور رَسیاں بھی موجود تھیں۔جمعرات کا دن ڈھلنے کے قریب تھا کہ تاجر مسجدِ نَبَوی شریف میں داخل ہوگیا، غلام نے تاجر کے حکم سے سامان کھولا اور قِنْدِیلیں نکال کر سُتُونوں کے ساتھ لٹکادیں پھر ان میں تیل اور پانی ڈال کر فَتِیْلے (بَٹی ہوئی  ڈوریاں) رکھ دیئے، اُدھر سورج نے اپنا چہرہ چھپایا اِدھر تاجر نے غلام کو قِنْدِیلیں روشن کرنے کاحکم دیا، روزانہ سورج کے غُروب ہوتے ہی جب رات کی تاریکی مسجد میں داخل ہونے لگتی تو کھجور کےسُوکھے  پتّوں کو جَلا کر کچھ روشنی کا انتظام کر لیا جاتا تھا مگر آج مسجدِ نبوی شریف قِنْدِیلوں کی روشنی سے جگمگا رہی تھی۔ رحمتِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے اس حسین اور خوبصورت مَنْظَر کو دیکھ کر اِستِفسار فرمایا: کس نے ہماری مسجد کو روشن اور مُنَوَّرکیا ہے؟ صحابۂ کرام علیہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: آپ کے ایک جا نثار اور وفادار صحابی حضرت تَمِیْم دارِی نے۔ جانِ عالَم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی زَبان پر یہ دُعائیہ کلمات جاری ہوگئے: اے تمیم داری! تم نے مسجد کوسجاکر اسلام کو زینت بخشی ہے، اللہ تعالیٰ تمہاری دنیا و آخِرت دونوں کو روشن کرے۔ (وفاء الوفا،ج1،ص596، الاستیعاب،ج 2،ص242) دارِی کہلانے کی وجہ  میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سیّدُنا تمیم داری رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا پورا نام ابو رُقَیّہ تمیم بن اَوس بن خارجہ ہے جبکہ مُورِثِ اَعلیٰ’’عبدُالدّار‘‘ کی نسبت سے  ”دارِی“  کہلائے۔ (الاستیعاب،ج1،ص270) دَجّال کو دیکھا قبولِ اسلام سے پہلے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ ایک عِطْر فَروش تھے (بلاغات النساء لابن طیفور،ج1،ص128) اور اس سلسلے میں  مختلف  ملکوں کا سفر کرتے تھے ایک مرتبہ سمندری سفر پر تھے کہ راستہ بھول گئے اور سمندر میں ایک ماہ تک بھٹکتے رہے آخر کار ایک سُنْسان جزیرہ پر پہنچے جہاں دَجّال قید تھا، اسے  دیکھ کر اور اس سےباتیں کرکے آپ پر  اسلام کی حَقّانِیَّت ظاہر ہوگئی،چنانچہ 9 ہجری میں اپنے قبیلے کے 10 افراد کے ساتھ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ گوش گزار کرکے ایمان لےآئے۔ (مسلم، ص 1204، حدیث: 7386 ملخصاً، سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص83،84)تحائف کا سلسلہ  آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بارگاہِ  رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم میں مختلف تحفے پیش کرتے رہتے تھے، ایک دفعہ ’’اَلْوَرْد‘‘نامی ایک قیمتی گھوڑا پیشِ خدمت کیا (تاریخ ابن عساکر،ج4،ص227) جبکہ ایک مرتبہ  مُنَقّے (بڑی کشمش کے دانے) بھی پیش کئے۔ (العقد الفرید،ج 7،ص301)  گاؤں، تحفے میں ملا ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے یوں عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! اللہ تعالیٰ آپ کی عزّت و عظمت اور شانِ رِسالت کو پوری دنیا میں ظاہر فرمارہا ہے لہٰذا مجھے بیتُ المقدّس کا قریبی گاؤں’’بیتِ لَحم‘‘ عطا فرمادیجئے، ارشاد فرمایا: وہ گاؤں تمہارا ہے، پھر اس گاؤں کی ایک دستاویز تیار کرکے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے حوالے کردی گئی، جب مسلمانوں نے ملکِ شام پر فَتْح کا جھنڈا لہرایا تو آپ اسی دستاویز کو لے کر خلیفۂ ثانی حضرت سیّدنا عمرفاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے فاروقِ اعظمرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے وہ بستی آپ کے سُپُرْد کردی،([1]) یاد رہے کہ یہ وہی مُقَدَّس مَقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے بَرگُزیدہ نبی حضرت سیّدنا عیسیٰ علیہِ السَّلام کی پیدائش ہوئی تھی۔(الاموال للقاسم، ص288، حدیث: 682)اِصلاحِ اُمّت کا جذبہ حضرت سیّدنا تمیم داری رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے حضرت سیّدنا عمر فاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے مسجد میں بیان کرنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے پوچھا: آپ کیا بیان کریں گے؟ عرض کی: لوگوں کے سامنے قراٰنِ مجید پڑھوں گا،  انہیں نیکی کی جانب راغِب کروں گا اور بُرائی سے منع کروں گا، حضرت سیّدنا عمررضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ نَفع کا سودا ہے چنانچہ جمعہ کے دن آپ اپنا بیان جاری رکھتے یہاں تک کہ حضرت سیّدناعمر فاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ جمعہ پڑھانے کے لئے تشریف لے آتے۔ آپ نے مزید بیان کرنے کی اجازت طلب کی تو حضرتِ عمر فاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کو مزید ایک دن کی اجازت دےدی، حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں بیانات کے سلسلے میں ایک دن کا اور اضافہ کر دیا تھا یوں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ ہفتے میں تین دن بیان کرنے لگے۔ (مصنف عبد الرزاق،ج3،ص109، حدیث:5415، الاوائل للعسکری،ص370) اِمامت کے فرائض آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا شمار ان خوش  نصیب حضرات میں ہوتا ہے جنہیں حضرت عمر فاروقرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے نمازِ تراویح باجماعت پڑھانے کے لئے امام مقرّر فرمایا تھا۔ (مؤطا لامام مالک،ج1،ص120، حدیث: 256) عبادت کا خصوصی اِہتمام آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بڑے عابد و زاہد تھے ،جب نماز کا وقت ہوجاتا توعمدہ کپڑے پہن لیتےکبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہزار درہم کی مہنگی چادر اوڑھ کر نماز کے لئے باہر تشریف لاتے۔ رات کے سائے گہرے ہوجاتے تو مِسواک کرتے پھر عِطْر لگاکر اپنے آپ کو معطّر کرتے اور نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ تہجّد کے لئے مزید  اہتمام کرتے اور ایک خاص لباس زیبِ تَن کرکے نمازِتہجّد ادا کرتے۔ مہنگا لباس آپ نے چارہزار درہم کا ایک مہنگا اور عمدہ لباس خرید کر رکھا ہوا تھا لہٰذا جس رات    لیلۃُ القدر کا گمان ہوتا تو خصوصیّت کے ساتھ اسی لباس کوپہنتے  اور پوری رات ذکر و عبادت میں گزار دیتے تھے۔ (التھجدو قیام اللیل لابن ابی الدنیا،ج1،ص311 ملخصاً) نفس کو سزا دی ایک رات آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تہجد کی نماز نہ پڑھ سکے تو اپنے نفس کو سزا دینے کی ٹھانی اور رات میں سونا چھوڑ دیا یہاں تک کہ پورا ایک سال آپ کو قیامُ اللَّیل کرتے ہوئے گزرگیا۔ (ایضاً،ج1،ص273) شوقِ تلاوت آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سات دنوں میں ایک بار ختمِ قراٰن کرتےتھے (طبقات ابن سعد ،ج 3،ص379) جبکہ بعض اوقات یوں ہوتا  کہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور ایک رکعت میں ہی پورا قراٰن پڑھ لیا کرتے۔ (الزھد لابن المبارک ،ص452) نیکی  کیوں ظاہر کروں؟ ایک مرتبہ کسی نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے پوچھاکہ آپ روزانہ رات میں کتنا قراٰنِ پاک پڑھ لیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا:شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جورات کو قراٰن پڑھ کر لوگوں کو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ میں نے آج رات قراٰن کی تلاوت کی ہے ،پھر فرمایا: مجھے(بھول کر)تین رکعتیں نفل نماز پڑھ لینا تو پسند ہے لیکن یہ پسند نہیں کہ رات بَھر قراٰنِ پاک کی تلاوت کروں اور صبح لوگوں پر یہ بات ظاہر کردوں۔ (ایضاًص471) خوفِ خدا بعض اوقات  ایک ہی آیت بار بار پڑھتے  رہتے اور روتے رہتے یہاں تک کہ صبحِ صادق ہوجاتی۔ (الزھد لاحمد ، ص201) مہمان نواز  نماز کے بعدمسجد میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو  دائیں بائیں جو بھی ملتا اس کا ہاتھ پکڑتے اور اپنے گھر لاکر اَنواع و اَقسام کے کھانوں سے اس کی خوب خاطِر تَواضُع کیا کرتے۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 11،ص78) سکونت و مقامِ وصال آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے اپنی رہائش مدینۂ مُنَوَّرَہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً  میں رکھی لیکن حضرت سیّدناعثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد ملکِ شام تشریف لے گئے اور تادَمِ حیات وہیں رہے (جامع الاصول ،ج 12،ص326) اورسِن 40 ہجری میں دنیائے فانی سے کوچ فرماگئے۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے مروی 18 اَحادیثِ مُبارکہ کے مہکتے اور تروتازہ پھول آج بھی کتبِ احادیث کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص87)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ  کراچی                                            



[1] ۔۔۔ امام جلالُ الدّین سیوطیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (سالِ وفات:911ھ)فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا تمیم داریرضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد دَر اولاد آج تک اسی بستی میں رَہ رہی ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے اس بستی کو واپس لینا چاہا تو امام غزالیعلیہ رحمۃ اللہ الوَالی نے ان کے کفر کا فتویٰ دیا اور فرمایاکہ رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو اس شان و عظمت کے مالک ہیں کہ اپنے اصحاب علیہم الرضوان کو جنّت کی زمین تقسیم فرمادیا کرتے تھے لہٰذا دنیا کی زمین تقسیم کرنے کے تو زیادہ حقدار ہیں ۔ (خصائص کبریٰ،ج 1،ص421)


Share

حضرت سیدنا تمیم داری رضی اللہ تعالٰی عنہ

فَرد سے مُعاشرہ بنتا ہے چنانچہ کسی شخص میں پائی جانے والی خوبی یا خامی مُعاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔اگر ہم اچّھی نیت کے ساتھ اپنی خامیوں پر قابو پائیں گے تو ہماری معاشَرَتی زندگی میں بھی بہتری آئے گی لیکن بہت سے لوگ اپنی خامیوں کوبھی خوبیاں سمجھتے ہیں چنانچہ وہ انہیں دور کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ، جب کوئی خود کو بیمار تسلیم ہی نہیں کرے گا وہ کیوں کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کروانے جائے گا !اس لئے 19ایسی خامیوں کی نِشاندہی کی جارہی ہے جن میں مبتلا ہونے والےاِنہیں اپنی خوبیاں سمجھتے ہیں،چنانچہ (1)خوامخواہ ٹالنے کی عادت  بعض لوگوں میں ہر بات کو ٹالنے کی عادت ہوتی ہے اور وہ اس پر فخریہ کہتے ہیں: ’’میں کسی کو جلد ی کام کرکے نہیں دیتا‘‘حالانکہ وقت پر کام کرنا ایک خوبی ہے اور وقت گزار کر کام پورا کرنا خامی!اسی طرح یہ کہتے ہیں:’’میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتا ہوں۔‘‘سوچنا سمجھنا اچّھی بات ہے لیکن ہر فیصلے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے چنانچہ بعض فیصلے چند مِنَٹ ، بعض چند گھنٹوں اور بعض چند دنوں میں کرنےہوتے ہیں ،مثلاً ’’آگ کو کس طریقے سے بجھایا جائے‘‘ کیونکہ ہر آگ پانی سے نہیں بجھائی جاتی، یہ فیصلہ چند مِنَٹ میں کرنا ہوتا ہے،’’ٹرین پر سفر کرنا ہے یا جہاز پر؟‘‘ یہ فیصلہ  روانگی سے کئی گھنٹے پہلے کرنا ہوتا ہے تاکہ سیٹ بُک کروائی جاسکے،’’ پہلی تاریخ کو کرائے کا مکان خالی کرنا ہے یا نہیں ؟‘‘ کیونکہ اگر نیا مہینا شُروع ہوگیا تو اگلے مہینے کا کرایہ بھی دینا پڑسکتا ہے،اسی طرح’’ فلاں کا رشتہ قبول کرنا ہے یا نہیں!“ کوئی جواب نہ ملنے پر فریقِ ثانی کہیں اور رابطہ کرلیتا ہے یوں بعض اوقات اچّھا رشتہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے، اس طرح کے فیصلے کرنے کیلئے بسا اوقات چند دن ملتے ہیں،چنانچہ ہر فیصلے پر ایک ایک مہینا لگا دینا قوتِ فیصلہ کی کمزوری تو ہوسکتی ہے خوبی نہیں۔ (2) فضول خرچی سے بچنے کا دعویٰ بُخْلْ اور کنجوسی کا شکار بعض لوگ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں: ’’میں تو ذرا بھی فضول خرچی نہیں کرتا حالانکہ وہ ضَرورت کی جگہ بھی خرچ نہیں کررہے ہوتے، گھر کی ٹونٹی لِیک ہو رہی ہے جس سے پانی مسلسل ضائع ہوتا چلا جارہا ہےاور اسراف کی صورت میں گناہ بھی ہوگا  مگر کفایت شعاری کی خوش فہمی میں مبتلا شخص اس کی مَرَمَّت یا تبدیل کروانے کے لئے تیار نہیں ، آپ ہی بتائیے کہ یہ خوبی ہے یا خامی! (3) اینٹ کا جواب پتّھر سے دینا چھوٹا سا خلافِ مرضی کام ہوجانے پر بعض لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ، گالم گلوچ، ہاتھا پائی، کیا کچھ نہیں کرتے پھر یاردوستوں میں فَخْرِیہ کہتے ہیں : ’’مجھ سے تو برداشت نہیں ہوتا ، میں تو اینٹ کا جواب پتّھر سے دیتا ہوں ‘‘، پھر جب کبھی سیر کو سَوا  سیر ملتا ہے اور وہ پتھر کا جواب گولی سے دیتا ہے تو یہ اپنے تأثّرات دینے کے لئے زندہ نہیں رہتے۔ عَدَمِ برداشت کے اسی رویے  نے ہمارے مُعاشرے کا سکون برباد کررکھا ہے ، مگر جہالت میں مبتلا لوگ اس خامی کو اپنی خوبی تصوّر کرتے ہیں۔ (4) صاف گوئی کا دعویٰ  بعضوں کا کہنا ہوتا ہے:’’کسی کو اچّھی لگے یا بُری !میں تو اس کے مُنہ پر صاف صاف بات کہہ دیتا ہوں۔ ‘‘یاد رکھئے !ہر حقیقت کو بیان کرنا ضَروری نہیں ہوتا ،خاص طور پر اس وقت کہ جب کسی کی دل شِکنی یا رُسوائی کا امکان ہو۔ صاف گوئی کا دعویٰ کرنے والا غور کرے کہ بچپن میں کتنی ہی مرتبہ اسے اپنی ماں کے ہاتھ کاپکا سالن اچّھا نہیں لگا ہوگا مگر یہ چپ چاپ کھاگیا ہوگا کیونکہ صاف صاف کہنے کی صورت میں ہنڈیا کا چَمَّچ وہ بھی کمر پر کھانا پڑسکتا تھا ۔ اسی طرح بعض اوقات کسی ملازم کو اس کے سیٹھ کی بات بہت بُری لگتی ہے لیکن وہ ایک لفظ نہیں بولتا کیونکہ جواب میں اسے نوکری سے نکالاجاسکتا ہے، اسی طرح اگر کسی عزیز دوست کےمنہ سے گندی بدبو آرہی ہوتو کیاصاف گوئی کا دعویٰ کرنے والا کہنے کی ہمّت کرے گا: ’’یار! دانت تو صاف کرلیا کرو‘‘ کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ ناراض ہوکر دوستی بھی ختم کرسکتا ہے ۔ اب آپ بتائیے!کیا ’’ہر بات منہ پر صاف صاف کہہ دینا‘‘ خوبی ہے یا خامی؟ (5)اپنے کام میں مداخلت پسند نہ کرنا ’’میں کسی کو جواب دہ نہیں ‘‘،’’اپنے کام میں کسی کی مُداخَلَت پسند نہیں کرتا ‘‘،’’میں جیسے چاہوں کروں کوئی مجھے روک نہیں سکتا‘‘اس قسم کا رَوَیَّہ انسان کوبالآخِر شرمندہ کروا دیتا ہے ، ہم انسان ہیں خطاسے پاک نہیں ، اگر باہم مل کرایک سسٹم کے تحت ایک دوسرے کی سُن کر ،مان کر کام کیا جائے تو غَلَطیوں کا امکان کم ہوجاتا ہے اور اگر غَلَطی ہوبھی جائے تو سب مل کر اس کی ذمّہ داری اٹھاتے ہیں ،ورنہ’’اپنی چلانے والا‘‘ بعض اوقات ایسا پھنستا ہے کہ اس کے’’ چِلّانے‘‘ پر کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آتا۔ (6)مجھے کسی کی پرواہ نہیں میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ،مجھے  کسی کی پرواہ نہیں !اس طرح کے جملے بھی فَخْرِیَّہ بول کر اسے اپنی خوبیوں میں شُمار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کی پرواہ کرکے  ہی اپنی زندگی آسان بناسکتے ہیں ، کیا ایسا شخص کار ڈرائیو کرتے ہوئے دوسری گاڑیوں کی پرواہ نہیں کرتا ہوگا! کیا اپنے بچّوں کو بھی اَہَمیّت نہیں دیتا ہوگا !ہاں! اپنے ماتحتوں کو خاطِر میں نہیں لاتا ہوگا۔ایسے لوگوں کا مزاج ہوتاہے کہ جو آنکھیں دکھائے اس کے پاؤں پڑ جاتے ہیں اور جو عاجزی کے ساتھ پیش آئے اس پر رُعْب ڈالنا شُروع کردیتے ہیں،کیا یہ خوبی ہے یا خامی؟ (7) گفتگو میں مشکل الفاظ بولنا  بعضوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی بھی زبان میں کسی بھی شخص سے بات کریں تو مشکل سے مشکل الفاظ بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور سامنے والے پر اپنی زبان دانی کا رُعْب جماکر خوش ہوتے ہیں۔ اسے اپنی خوبی سمجھناخوش فہمی ہی ہوسکتی ہے کیونکہ آپ ایک جیتے جاگتے  انسان کو اپنی بات ہی نہ سمجھاسکے ،اس کو خوبی و کامیابی کون کہہ سکتا ہے! (8)خود کو حَسّاس سمجھنا  نازک مزاج ، ذرا سی بات پر پریشان ہوجانے والا، مشکل حالات سے جلد گھبرا جانے والا اور ذرا سی بات پر رُوٹھ جانے والا اپنی خامی کو اس دعویٰ میں چھپانے کی کوشش کرتا ہےکہ ’’میں بہت حَسَّاس ہوں‘‘ زندگی کی گاڑی کبھی سُکھ کبھی دُکھ کی پٹڑی پر چلتی ہے، کبھی سویرا تو کبھی اندھیرا ! کبھی چھاؤں تو کبھی دھوپ کا سامنا ہوتا ہے، اگر بدلتے حالات کے مطابق انسان خود کو تبدیل کرنے میں ناکام رہے تو پریشانی بھی اسی کو اُٹھانی پڑتی ہے ۔ (9)کسی کو مصیبت میں دیکھ کر ہمدردی نہ ہونا ’’مجھ پر کسی کے رونے دھونے کا اثر نہیں ہوتا‘‘، یہ کہنے والا گویا یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ میں پتّھر دل ہوں ، نرمی مجھے چُھوکر بھی نہیں گزری۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سچ کہا ہے: بے درد کو پَرائی مصیبت نہیں معلوم ہوتی۔ (فتاویٰ رضویہ، 16/310) (10)آدھی بات سُن کر پوری سمجھ جانا کچھ لوگوں کو کسی بات کو سکون سے سُننے کی عادت ہی نہیں ہوتی، سامنے والا ابھی پوری بات بھی نہیں کہہ پاتا کہ یہ فوراً روک دیتے کہ بس بس میں سمجھ گیا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں!پھر بات کاٹنے کی عادت کو اپنی خوبی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اگر آپ کو اللہ پاک نے یہ صَلَاحِیّت عطا بھی فرمائی ہو تو اس کا استِعمال سلیقے سے بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ لہجے میں لچک رکھی جائے کہ شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ۔غورطلب باریک بات یہ ہے کہ اس کے آدھے جملے کو آپ نے دُرُست سمجھا اور پورا بھی کر دیا تو بھی  وقت تو اُتنا ہی لگا ،کیا یہ بہتر نہ تھا کہ اسے ہی اپنی بات پوری کرلینے دیتے اس کی دلجوئی بھی ہوجاتی مگر آپ کو تو شاید اپنی خوبی کا اظہار عزیز تھا ۔ ایک بزرگ نے قاضی کی عدالت میں کچھ کہنا چاہا تو اس نے فوراً روک دیا اور کہا: خُدا کی قسم ! آپ کوئی سچّی بات نہیں کہیں گے ! اس بزرگ نے فوراً قراٰن کی آیت پڑھی اور فرمایا: قاضی صاحب !اپنی قسم کا کفّارہ ادا کیجئے کیونکہ رب عزّوجلّ   کے کلام سے بڑھ کر سچّی بات کیا ہوسکتی ہے ! (11) ہر ایک پر تنقید کرنابعض لوگوں کو ہربات پر بلاوجہ تنقید کی عادت ہوتی ہے ، انہیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ تنقید کون ! کس پر ! کس انداز سے ! کس وقت کرے؟یہ ہر مُعَامَلے میں تنقید کا مَوقع ڈھونڈ ہی لیتے ہیں ،شاید انہیں دوسروں کی خامیاں نکالنے میں ہی اپنی خوبی دکھائی دیتی ہے ۔ ایک صاحب ولایت کے دَرَجے پر فائز تھے مگر بیوی انہیں تسلیم نہیں کرتی تھی، ایک دن انہوں نے کرامت دکھانے کی ٹھانی تاکہ بیوی بھی مان جائے اور ان سے حسبِِ منصب سُلوک کرے ، چنانچہ انہوں نے اُڑان بھری اور اپنے گھر کے اردگرد چکر لگا یا ،کچھ دیر بعد گھر آئے تو بیوی نے کہا : ولی تو وہ تھے جو آج آسمان پر اُڑ رہے تھے ، شوہر نے کہا : نیک بخت ! وہ میں ہی تو تھا۔ بیوی جَھٹ سے بولی : اچّھا! تبھی میں کہوں کہ وہ ٹیڑھا کیوں اُڑ رہا تھا۔ (12)خود کو ذہین اور چالاک سمجھنا بعض خود کو ذَہین اور چالاک سمجھتے ہیں، یہاں تک کا دعویٰ تو قابل اعتراض نہ ہوتا مگر یہ دوسروں کو بے وقوف بھی سمجھتے ہیں اور  جب اپنی چالاکی سے کسی کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجائیں تو کہتے دکھائی دیتے ہیں : دیکھا ! کیسا اُلّو بنایا! (13)ہر بات پر ضِد کرنا اپنی ہر بات پر ضد کرنا، صرف اپنی منوانا کسی کی نہ ماننا ، حالات کے مطابق اپنے مُطالبے میں ترمیم نہ کرنا ، کسی کی خوبی ہو سکتی ہے ؟ شاید بچّوں سے جواب لیں تو وہ ہاں کہہ دیں ، سمجھ دار شخص اسے خامی ہی قرار دے گا ۔ہمارے بہت سے گھریلواور کاروباری مسائل کی جڑ یہی خامی ہوتی ہے ۔ (14)ہر وقت تکلّف میں رہنا رکھ رکھاؤ عزّت اور وقار بڑھاتا ہے لیکن انسان کو حسبِ مَوقع دوسروں میں گھلنا ملنا چاہئے، مگر بعض لوگ کہیں بھی چلے جائیں ہر وقت تکلّف میں رہیں گے، پھر اسے اپنی خوبیوں میں بھی شُمار کرتے ہیں ۔ کوئی آپ کے پاس بیٹھنے ، بات چیت کرنے سے کترائے، یہ آپ کو اچّھا لگتا ہو تو آپ کی پسند کو سلام! (15)حدسے زیادہ بہادری دکھانا انسان کو بُزدل وڈرپوک نہیں ہونا چاہئے لیکن ضَرورت سے زیادہ بہادری بھی ایک خامی ہے ،بجلی کے کھمبے پر چڑھ جانا، چلتی ٹرین، بس پر سوار ہونا ، تیز رفتاری سے گاڑی چلانا، وَن ویلنگ کرنا ، ہاتھ چھوڑ کر اسکوٹر چلانا حَماقت تو ہوسکتا ہے بہادری نہیں !یہ نام نہاد خوبی اکثر مہنگی اور جان لیوا ثابت ہوتی ہیں ۔ (16)شکل و صورت اور لباس وغیرہ دیکھ کر کردار کا اندازہ لگا لینامیں تو شکل دیکھتے ہی پہچان جاتا ہوں کہ یہ واقعی مصیبت زدہ ہے یا ایکٹنگ کررہا ہے ! سچّ بول رہا ہے یا جھوٹ! ٹھیک ہے چہرہ شناسی کا فن ایک حقیقت ہے لیکن اس فن میں خود کو ماہر سمجھنا اور سامنے والے پر کنفرم حکم لگا دینا غلط بھی تو ہوسکتا ہے ،آپ نے  اسے اپنی بات ثابِت کرنے کا مَوقع تو دیا ہوتا ، کچھ اس کی بھی سُنی ہوتی! مگر کیا کیجئے اس عادت کا کہ انسان کو اپنی یہ خامی بھی خوبی دکھائی دینے لگتی ہے ۔ (17)بال کی کھال اُتارنے کی کوشش کرنا ہر بات کی تفصیل جاننے کی کوشش کرنا اور غیرضَروری چھان بین کرنا دانشمندی نہیں ، ایسے میں خود کو باریک بین سمجھنا اور اسے اپنی خوبی قرار دینا کیونکر دُرُست ہوسکتا ہے! (18)جارحانہ رَوَیَّہ ہر بات پر جارحانہ رَوَیَّہ اپنانا، معمولی سی بات پر طیش میں آجانا ، چیزیں اُٹھا کر دوسروں کو دے مارنا ، سَخْت کلامی کرنا کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں ہوسکتا، اسے اپنی خوبی سمجھنے والے قابلِ رَحْم ہوتے ہیں۔ (19)ضَرورت سے زیادہ خوداعتمادی کامیابی کے لئے خود اعتمادی(Self Confidence) کا ہونا بہت ضَروری ہے لیکن یہی اعتماد حد سے بڑھ جائے تو نقصان دے سکتا ہے ۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خود پرغور کرنے سےمزیدکئی ایسی خامیاں نکل آئیں گی جنہیں اب تک ہم خوبیاں سمجھتے رہے ، خوبی اور خامی میں فرق کرنا سیکھئے، خود بھی سُکھی رہیں گے اور دوسرے بھی، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭شعبہ فیضان اولیاوعلما،المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code