نمرود کی پٹائی

ہزاروں سال پہلے  کی بات ہے،’’نَمْرُود‘‘ نام کے ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس نے خدا ہونے کا جُھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا اور جو اُسے خدا نہ مانتا اُس پر  بہت ظُلْم و سِتَم کرتا اور قتل بھی کروادیتا تھا۔ اُس دور کے نبی حضرتِ سیّدُنا ابراہیم علیہ السّلامبھی نَمْرُود  کو خدا نہ ماننے کی وجہ سے آگ میں ڈالے گئے مگر اللہ پاک کے حکم سے وہ آگ آپ علیہ السّلامکے لئے ٹھنڈی ہوگئی اور آپ محفوظ رہے۔ قحط سالی آپعلیہ السّلامکو آگ میں ڈالے جانے کے کچھ دن بعد سخت قَحْط پڑا اور کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا۔ لوگ نَمْرُود کے دربار میں جاکر اَناج کی درخواست پیش کرتے، جواباً نَمْرُود ان سے اپنے خدا ہونے کا اِقرار کرواتا، جو اُسے خدا مانتا اُسے اَناج مل جاتا اور جو نہ مانتا اُسے خالی ہاتھ جانا پڑتا۔ مُناظَرہ  حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علیہ السّلام بھی اَناج لینے نَمْرُود کے پاس گئے، نَمْرُود نے پوچھا: تمہارا رب کون ہے؟ فرمایا: میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ یہ سُن کر نَمْرُود  بولا: یہ قدرت تو میرے پاس بھی ہے، یہ کہہ کر اُس نے دو قیدی بلوائے، ایک کو چھوڑ دیا اور ایک کو قتل کروادیا۔ آپ علیہ السّلامنے نَمْرُود کی کم عَقْلی  دیکھ کر فرمایا: میرا رب مشرق سے سورج کو نکالتا ہے، اگر تُو خدا ہے تو مغرب سے سورج نکال کر دِکھا! یہ سُن کر نَمْرُود حیران ہوگیا اورکوئی جواب نہ دے سکا۔ کچھ دیر بعد  اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے بولا: میرے پاس اَناج نہیں ہے، جاؤ! اپنے رب سے جاکر اَناج مانگو۔ اناج کا تھیلا آپعلیہ السّلام نَمْرُود کے دربار سے نکل آئے اور گھر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ریت  کا ایک ٹیلہ نظر آیا، آپ علیہ السّلامگھر والوں کو خوش کرنے کے لئےاُسی ریت سے ایک تھیلا بھر کر گھر لے آئے  اور سوگئے۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ آپ کی بیوی حضرتِ سیّدَتُنا سارَہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے تھیلا کھولا تو  وہ آٹے سے بھرا ہوا نکلا، اُنہوں نے فوراً روٹیاں بنائیں اور آپ کو جگایا، روٹیاں دیکھ کر آپ علیہ السّلامبولے: یہ کہاں سے آئیں؟ انہوں نے کہا : یہ اُسی آٹے سے بنائی ہیں جو آپ تھیلے میں بھر کر لائے تھے۔ آپ علیہ السّلامسمجھ گئے کہ اللہ پاک کی طرف سے ریت آٹے میں تبدیل ہوگئی ، چنانچہ آپ نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ فرشتہ اور نَمْرُود اُدھر اللہ پاک نے اِنسانی شکل میں ایک فِرِشْتَہ نَمْرُود کے پاس بھیجا۔ فرشتے  نےاس سےکہا: تیرا خدا کہتا ہے: تو مجھ پر ایمان لے آ، میں تیری بادشاہت برقرار رکھوں گا۔ نَمرُود بولا: کون خدا؟ خدا تو  صرف میں ہوں۔فرشتے نے دوسری اور پھر تیسری بار بھی اپنی بات دہرائی مگر ہر بار نَمْرُود نے اِنکارہی کیا۔ مچھروں کی فوج نَمْرُود کی اِس سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ پاک کی طرف سے مچّھروں (Mosquitos)کی فوج نَمْرُود کے لشکر پر مُسَلّط ہوگئی جس نے لشکر  کے تمام اَفراد کا گوشت کھاکر سارا خون پی لیا اور  اُن کی صرف ہڈّیاں باقی رہ گئیں۔ مچھر اِتنے زیادہ تھے کہ سورج کی روشنی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ نَمرُود یہ ہولناک مَنْظَر دیکھتا تھامگر کچھ نہیں کرسکتا تھا۔نَمْرُود کی پٹائی اِس کے بعد اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ایک مچھر نَمرُود کی ناک کے راستے دماغ  میں گُھس گیا اور مَغْزْ کھانا شروع کردیا۔ درد کی شدّت سے نَمْرُود پاگل ہونے لگا اور اُس نے اپنی تکلیف ختم کرنے کے لئے سَر پر ڈنڈے  لگوانا شُروع کردئیے، خدا کی قدرت کہ جب سَر پر ڈنڈا پڑتا مچھر کاٹنا چھوڑ دیتا، اور جب ڈنڈا نہ پڑتا تو کاٹنا شروع کردیتا۔ کیفیت یہ ہوچکی تھی کہ جو شخص نَمْرُود کے سَرپر زور دار چَپَت لگاتا وہ اُس  کا ہمدرد کہلاتا۔ یوں ڈنڈے پڑتے پڑتے اور چَپَت لگتے لگتے  400 سال گزرگئے اور نَمْرُود بالآخر ذلیل و رُسوا ہو کر مرگیا۔(ماخوذ از  تفسیرخازن،ج 1،ص199)

حکایت سے حاصل ہونے والے مَدَنی پھول

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! ٭ہمارا اور ساری کائنات کا رب اللہ پاک ہے جو ہمیں رزْق دیتا ہے ٭وہی زندگی اور موت عطا فرماتا ہے ٭سورج اور چاند کا نکلنا، دن رات کا آنا جانا سب اللہپاک کی مرضی اور اس کے حکم سے ہے ٭جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اس کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے  ٭ہمیں چاہئے اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر  ادا کریں اور کبھی بھی  کسی بات پر غرور نہ کریں۔ ان مدنی پھولوں پر عمل کرنے سے  اِنْ شَآءَ اللہ تعالٰی’’روشن مستقبل‘‘ ہمارا مقدّر ہوگا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ذمّہ دارشعبہ فیضان امیر اہلسنت ،المدینۃالعلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

نمرود کی پٹائی

بچپن تو بچپن ہوتا ہے، کِھلَنڈرے پَن اور بے پروائی کا زمانہ ! لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے بچّوں کو شعور آتا جاتا ہے، اپنا بُرا بھلا سُوجھتا ہے اور یہ وقت ہوتا ہے جب ماں باپ کی تربیَت کا ثَمَرہ(نتیجہ) یا بے پروائی کا انجام سامنے آتا ہے، لہٰذا اپنے بچّوں کی دینی ودُنیوی دونوں طرح سے تربیَت کیجئے،اِنْ شَآءَاللہعَزَّ  وَجَلَّ اچّھی اچّھی نیّتوں سے ثواب بھی ملے گا اور دنیا وآخِرت میں اولاد کام بھی آئے گی۔روڈ پار کرنا سکھائیےمحترم والدین!حتّی الامکان  بچّوں کو اکیلے روڈ پار کرنے نہ دیں، ہمیشہ اپنے ساتھ یا کسی بڑے کے ساتھ ہی روڈ پار کروائیں، نیز بچّوں کو بتائیے کہ ٭روڈ پار(Cross) کرنے کے لئے سڑک پر اگر پُل (Overhead bridge)موجودہو تو اسے استِعمال کریں ٭اگر یہ پُل کچھ فاصلے پر ہو تو بھی تھوڑا سا پیدل چل کر وہاں چلے جائیں اور پُل سے ہی روڈ پار کریں٭روڈ پار کرنے کے لئے زیبرا کراسنگ ہو تواُسےاستعمال کریں٭اگر کبھی گھر والے ساتھ نہ ہوں اورسڑک پارکرنےکےلئے پُل یا زیبرا کراسِنگ  بھی نہ ہو اور روڈ پار کرنا ہو تو کسی ٹریفک پولیس والے سے کہیں ”ہمیں روڈ پار کروادیں۔“٭ٹریفک پولیس والے بھی نہ ہوں تو وہاں کسی بڑی عمر کے قابلِ اعتماد آدمی سے کہہ کر ان کے ساتھ روڈ پار کریں٭بہت مجبوری میں کبھی اکیلے روڈ پار کرنا پڑے تو بہت  احتیاط سے روڈ پار کریں ٭روڈ پر  ہرگز ہرگز نہ بھاگیں، اگر خدا نَخَواستہ کہیں بھاگنے والے کا پاؤں پِھسلا یا لَڑکَھڑایا تو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے٭ روڈ پار کرتے ہوئے بہت آہستہ آہستہ ٹَہَلتے ہوئے بھی نہ چلیں  بلکہ درمیانی رفتار سے روڈ پار کریں ٭ٹریفک والی سَمت دیکھ کر آگے بڑھیں٭ وَن وے روڈ پر بھی دونوں طرف بلکہ فُٹ پاتھ پربھی دیکھ لینا فائدہ مَنْد ہے٭دو طرفہ ٹریفک والے روڈ پر دونوں طرف دیکھ کر بڑھیں٭آنے والی گاڑیوں کی طرف ہاتھ اُٹھا کر اپنی موجودگی کا احساس دلائیں٭رات کے وقت بِالْخُصوص احتیاط کریں۔ ٭روڈ پر اندھیرا ہو تو ٹارچ یا موبائل کی لائٹ روشن کرکے اپنی زندگی کا تَحفُّظ کریں۔ روڈپرچلنے میں احتیاط کیجئے محترم والدین! روڈ پر آپ تنہا ہوں یا بچّے بھی ساتھ ہو ں بہر حال احتِیاط ضَروری ہے: ٭فُٹ پاتھ موجود ہو تو اس پر چلئے ٭ورنہ روڈ کے بالکل کنارے کنارے چلئے٭بچّوں کو گاڑیوں کی مُخالِف سَمت میں رکھئے، مثلاً آپ کے سیدھے ہاتھ کی طرف گاڑیاں گزر رہی ہیں اور بائیں ہاتھ کی جانب دیوار ہے تو بچّوں کو بائیں ہاتھ کی طرف رکھئے٭بچّوں کا ہاتھ پکڑے رہئے۔مولا کریم ہمارا حامی وناصِر ہو۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…شعبہ تراجم ،المدینۃا لعلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

نمرود کی پٹائی

ایک چیونٹی اپنے کھانے کا سامان اُٹھائے  گھرجا رہی تھی۔ راستے میں اس کی مُلاقات ایک بِھڑ (پیلےرنگ کاپروں والا کیڑا جس کے کاٹنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے)سےہوئی۔ بِھڑنے چیونٹی سے کہا: تم اپنی کھانےکی چیزیں کتنی محنت سے   جمع کرتی ہو  پھر بڑی مشکل کے ساتھ اُٹھاکر اپنے گھر تک لاتی ہو!اس طرح کی زندگی  گزارنے سے تو موت اچّھی ہے۔دیکھو!میری زندگی کیسی مزیدار اور سُکون والی ہے، میں گُھومتے  پِھرتے جو چاہتی ہوں کھاتی ہوں  اور وہ  بھی تازہ  تازہ !کبھی کبھی تو  امیروں کے دسترخوان پر بھی جا بیٹھتی ہوں جہاں مزیدار چیزیں کھانے کو ملتی  ہیں۔یہ  دل دُکھانے والی  باتیں  کہہ کر وہ  بِھڑوہاں سے اُڑی  اور قریب ہی گوشت والے کی دکان میں  گوشت پر جا بیٹھی،جواُس وقت گوشت کا ٹ رہا تھا۔گوشت کاٹتے کاٹتے اس  کی چُھری بِھڑکو جا لگی جس کی وجہ سے بِھڑکے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور وہ  مَرگئی۔گوشت والے نے اسے نیچے زمین پر پھینک دیا ، چیونٹی دوڑی  دوڑی بِھڑکے پاس پہنچی اور دیگر چیونٹیوں  کی مدد سے اسےگھسیٹتے ہوئے اپنے گھر لے گئی تاکہ بعد میں اُسے کھاسکے۔

پیارے پیارے مدنی منّو اور  مدنی منّیو!کسی محنت کرنے والے کا  مذاق  اُڑانا ،اسے کمزوراور حقیر سمجھنا اچھی بات نہیں ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code