احکامِ تجارت

* مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

 ( ماہنامہ اپریل 2022)

 اُجرت طے کئے بغیر کپڑے سینے کی دو صورتیں

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اجرت پر کپڑے سینے کا کام کرتا ہوں۔ میرا ایک عزیز کپڑے سلوانے کے لیے آیا تو میری نیت یہ تھی کہ اس سے پیسے نہیں لوں گااور اس نے بھی پیسوں کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن جب وہ کپڑے لینے آیا تو اس نے سلائی دی تو کیا یہ پیسے لینا درست ہے کیونکہ شروع میں اجرت طے نہیں ہوئی تھی؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: عام طور پر درزیوں کےسلائی کے ریٹ مشہور ہوتے ہیں اور فریقین سلائی کے ریٹ سے واقف ہوتے ہیں ایسی صورت میں عقد کرتے وقت اجرت طے نہ کی ہوتو بھی عقد درست ہوگا اور وہی اجرت ہوگی جو مشہور ہےاور فریقین کو معلوم ہےلہٰذا اگر یہ صورت ہے تو آپ متعین اجرت لے سکتے ہیں۔ ہاں اگر سلائی کے ریٹ مختلف ہیں اور پہلے سے معروف و مشہور نہیں ہیں جیسا کہ آج کل مختلف ڈیزائن پر مشتمل سلائی کی جاتی ہے تو اس کے ریٹ پہلے سے متعین نہیں ہوتے بلکہ فریقین آپس میں طے کرتے ہیں تو اس صورت میں عقد کرتے وقت اگر سلائی کے ریٹ طے نہیں کیے تھے تو یہ عقد درست نہ تھا اسے ختم کرنا اور نئے سرے سے درست عقد کرنا ضروری تھا آپ نے یہ عقد ختم نہ کیا بلکہ اسی عقد کو باقی رکھتے ہوئےکپڑے سی دئیے جس کی وجہ سے آپ دونوں گناہگار ہوئے اس سے آپ دونوں پر توبہ لازم ہے۔ البتہ جو کام آپ نے کیا اس پرآپ اجرتِ مثل کے مستحق تھے لہٰذا اگر آپ اتنی ہی اجرت لے رہے ہیں تو یہ آپ کے لیے حلال ہے لیکن اجرت مثل سے زیادہ لینے کا آپ کو حق نہیں۔ اجرت مثل کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کا کام کرنے والے کو عام طور پر جو اجرت دی جاتی ہے اتنی اجرت لے سکتے ہیں۔

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں: اجارہ جو امرِ جائز پر ہو وہ بھی اگر بے تعینِ اجرت ہو تو بوجہِ جہالت اجارہ فاسدہ اور عقد حرام ہے۔(فتاوی رضویہ، 19/529) اور لکھتے ہیں:اجارہ فاسدہ میں بھی بعد استیفائے منفعت اجرت،کہ یہاں وہی اجر مثل ہے واجب ہوتی ہے۔ (فتاوی رضویہ،19/535)

سیمپل والی ادویات کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ڈاکٹر کو جو ادویات سیمپل کے طور پر دی جاتی ہیں اگر وہ میڈیکل اسٹور والے کو بیچ دے تو اس میڈیکل اسٹور سے وہ ادویات خریدنا کیسا ہے جبکہ بعض اوقات ان پر Not For Sale بھی لکھا ہوتا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: ہبہ (Gift)ایک عقدِ تبرع ہے اور جس کو ہبہ کیا جائے وہ اس چیز کا مالک بن جاتا ہے۔ پوچھی گئی صورت میں اگر ڈاکٹر کو یہ ادویات کمپنی نے ہبہ کردی ہیں تو وہ ڈاکٹر کی ملکیت ہیں اب چاہے ڈاکٹر وہ ادویات خود استعمال کرے یا مریضوں کو دے یا آگے فروخت کرے، وہ خود مختار ہے۔

جہاں تک اس پرNot For Sale لکھا ہونے کا سوال ہے تو جب کمپنی نے ڈاکٹر کو مالک بنادیا اور وہ اپنی چیز خود بیچ رہا ہےتو اس پرNot For Sale لکھا ہونے سے اس کا بیچنا، ناجائز نہیں ہوجائےگا۔

البتہ بعض چیزوں کے کچھ اخلاقی پہلو بھی ہوتے ہیں اور اخلاقی پیمانے کا تعلق معاشرے کے عرف ورواج سے ہے لہٰذا اگر یوں بیچنے کو لوگ برا سمجھتے ہیں تو انگشت نمائی سے بچنا بہتر ہے۔

یہ پورا جواب اس پس منظر میں ہے کہ ڈاکٹر کوکمپنی کی طرف سے دوا ہبہ (Gift) کے طور پر دی جاتی ہو لیکن اگر ڈاکٹر کا کام صرف تقسیم کرنا ہو کمپنی اس کو مالک نہیں بناتی تو پھر ڈاکٹر کا اس کو بیچنا جائز نہیں ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کاروبار میں جھوٹی یا سچی قسم کھانا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کاروبار میں جھوٹی یا سچی قسم کھانا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: جھوٹی قسم کھانا حرام و گناہ ہے چاہے کاروبار میں کھائی جائے یا کاروبار کے علاوہ۔البتہ اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں۔ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں:جھوٹی قسم گزشتہ بات پر دانستہ،اس کا کوئی کفارہ نہیں، اس کی سزا یہ ہے کہ جہنم کے کھولتے دریا میں غوطے دیاجائے گا۔(فتاویٰ رضویہ،13/611)

صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں:جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی یعنی مثلاً جس کے آنے کی نسبت جھوٹی قسم کھائی تھی یہ خود بھی جانتا ہے کہ نہیں آیاہے تو ایسی قسم کو غموس کہتے ہیں۔غموس میں سخت گنہگار ہوا استغفار و توبہ فرض ہے مگر کفارہ لازم نہیں۔(بہارِ شریعت،2/299)

سچی قسم کھانا گناہ نہیں لیکن بات بات پر قسم کھانا پسندیدہ عمل نہیں بلکہ کاروبار میں زیادہ قسمیں کھانے سے حدیث پاک میں منع کیا گیاہے کہ اس سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے:عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ،أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَى اللهُ عَلَيهِ وَسَلم، يَقُولُ: إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَلفِ فِي الْبَيْعِ، فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ ترجمہ:حضرت سیدنا ابو قتادہ  رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کو فرماتے ہوئے سنا کہ بیع میں قسم کی کثرت سے پرہیز کرو کیونکہ یہ چیز کو بکوادیتی ہے لیکن برکت کو مٹادیتی ہے۔ (مسلم،ص668،حدیث: 4126)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہلِ سنت دارالافتا اہلِ سنت نورالعرفان،کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code