تفسیر قراٰنِ کریم

وہ سجدہ ، روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی

* مفتی محمد قاسم عطاری

 (ماہنامہ اپریل 2022)

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)) ترجمۂ کنز العرفان : اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پ16 ، طٰہٰ : 14)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مسلمانوں کی اکثریت اسلام کی اہم ترین عبادت کی اہمیت سے واقف ہے لیکن اس کے مقصد سے غافل اور اس کی برکات و ثمرات کے حصول میں ناکام ہے۔ وہ عبادت نماز ہے اور اس کامقصد قربِ الٰہی کا حصول ہے۔ یہی نماز بزرگانِ دین کو قربِ الٰہی کے اعلیٰ مراتب پر فائز کردیتی تھی اور اسی نماز کی فرض صورتوں کو بخاری کی حدیث میں قربِ الٰہی کا محبوب ترین ذریعہ اور اس کی نفل صورتوں کو قرب میں مسلسل اضافے حتی کہ مقامِ محبوبیت تک پہنچانے والا قرار دیا ہے۔ ایسی کامل نماز کیسے پڑھی جائے؟ اس کا طریقہ بیان کرنا مقصود ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ فقہی احکام کے مطابق فرائض و واجبات و سنن و مستحبات کی ادائیگی کی رعایت کے ساتھ چند مزید چیزیں اپنی نماز میں شامل کریں اور دیگر چیزوں کی بنیاد ’’خدا کی یاد‘‘ ہے۔

 خداکی یاد والی نماز وہ ہوگی جس میں غفلت نہ ہو ، جیسا کہ قرآنِ مجید میں فرمایا : (وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵)) ترجمہ : اور غافلوں میں سے نہ ہونا۔ (پ9 ، الاعراف : 205)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  غافل نہ ہونے کی ایک بنیادی علامت یہ ہے کہ نماز اور جو اُس میں پڑھا جا رہا ہو ، نمازی اُسے جانتا ہو ، جیسا کہ فرمایا : ( حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ) ترجمہ : (نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک سمجھنے نہ لگو وہ بات جو تم کہو۔ (پ5 ، النّسآء : 43)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  غفلت سے بچنے کے لئے اپنے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح جَمالیں کہ نماز خدا سے شرفِ کلام پانے کی بہت پیاری صورت ہے ، نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : نمازی اپنے رب سے مناجات (سرگوشیاں) کرتا ہے۔ (مسلم ، ص220 ، حدیث : 1230) اِس کے برخلاف غفلت کی نماز خدا سے دور کردیتی ہے ، چنانچہ حدیث میں فرمایا : جسے اُس کی نماز بے حیائی اور برائی سے نہ روکے تو اِس سے اُس کی اللہ عزوجل سے دوری میں ہی اضافہ ہوتا ہے۔ (کنزالعمّال ، جز7 ، 4 / 212 ، حدیث : 20079) اورایسی نماز سے کامل فائدہ یعنی قربِ الٰہی حاصل نہیں ہوتا ، بلکہ تھکاوٹ ہی ملتی ہے ، چنانچہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ جنہیں نماز سے سوائے تھکاوٹ اور مشقت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (ابن ماجہ ، 2 / 320 ، حدیث : 1690) یا بہت تھوڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے ، جیسا کہ رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : بندہ نماز مکمل کرکے واپس پھرتا ہے ، مگر اُس کے لیے اُس نماز کے دسویں حصے کے برابر ہی ثواب لکھا جاتا ہے۔ (ابو داؤد ، 1 / 306 ، حدیث : 796)

وہ سجدہ ، روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی

اُسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب

دل کی حاضری نماز کی روح ہے اور کم از کم مقدار جس سے روح باقی رہے ، وہ تکبیرِ تحریمہ کے وقت دل کا حاضر ہونا ہے اور اِس قدر سے بھی کم ہو تو ہلاکت ہے۔ اِس سے زیادہ جس قدر حضورِ قلب ہو گا ، اُسی قدر روح ِ نماز ، اجزاءِ نماز میں پھیلے گی ۔

          نماز کی روحانیت پانے کا آسان طریقہیہ ہے کہ حضور ِ قلب حاصل کرے ، یعنی اعضائے بدن کے ساتھ دل کو بھی نماز میں لگائے ، نماز کے الفاظ واَوْرَاد سمجھ کر پڑھے ، خدا کی تعظیم پیشِ نظر رکھے اور اِس تعظیم سے دل میں اللہ کی ہیبت پیدا ہو ، نیزاللہ کریم سے رحمت کی امید رکھے۔

شوق ترا  اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب

ان چیزوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے : (1)حضورِ قلب (دل کی حاضری) : اِس سے مراد یہ ہے کہ بندہ افعالِ نماز میں سے جو فعل سر انجام دے یا جوکچھ زبان سے پڑھ رہا ہو ، دل بھی اُسی میں لگا ہوا ہو ، کسی اور طرف نہ ہو ، یعنی دل بھی نماز اور قراءت و تسبیحاتِ نماز کی طرف متوجہ ہو۔ (2)قرآن و تسبیحاتِ نماز سمجھنا : جو پڑھ رہے ہیں ، اُس کا ترجمہ ، معنی اور مفہوم بھی سمجھ کر نماز پڑھیں۔ (3)تعظیم و ہیبت : اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال و کمال دل میں سوچے ، تاکہ تعظیم و ہیبت کی کیفیت پیدا ہو۔ (4)اُمیدو حیا : اپنی ناقِص نماز کے باوجود ربِّ کریم عزوجل کی بارگاہ سے اُس کے فضل و رحمت اور بندہ پَرْوَرِی سے ثواب کی اُمید رکھے ، ہاں ساتھ میں اپنی کوتاہی کی وجہ سے ڈرتا بھی رہے ، بلکہ خدا کی عظمت و جلالت والی بارگاہ میں اپنی ناقِص نماز پیش کرنے ہی پر شرمسار ہواور اُس پاک بارگاہ میں ایسی نماز پڑھنے پر ہی شرم و حیا سے پانی پانی ہوجائے۔

      مذکورہ اوصاف حاصل کرنے کے طریقے!

(1)حضورِ قلب کے حصول کے لیے اپنی سوچ نماز کی جانب لگائے رکھنے کی کوشش کرے۔ آخرت کے ہمیشہ باقی رہنے اور اس میں حاصل ہونے والے عظیم ثواب اور دنیا کے ختم ہوجانے اور اس کی خرابیوں ، خامیوں اور آفات کا خیال کرے ، پھر سوچے کہ دنیاکے بادشاہوں ، عہدے داروں کے پاس جاتے ہوئے تو دل و دماغ بہت حاضر ہوتا ہے ، تو آسمان و زمین کے حقیقی مالک ، سچے بادشاہ ، قادرِ مطلق ، خالق و مالک ، رَبُّ العالمین واَحکَمُ الحاکِمین کی بارگاہ میں حاضری کے وقت دل کیوں حاضر نہیں ہوتا؟ ا ِس سوچ سے دل کی حاضری نصیب ہوگی۔ (2)سمجھ کر نماز پڑھنےکے لیے طریقہ یہ ہے کہ نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں ، آیتوں اور تسبیحات کا ترجمہ اچھی طرح یاد کرلے اور پڑھے ہوئے اَلفاظ کے ساتھ ان کے معانی پر توجہ بھی رکھے۔ اِس سے وَسْوَسے بھی دور ہوتےہیں اور نماز میں خُشُوع و خُضُوع بھی نصیب ہوتا ہے۔ (3)تعظیم و ہیبت دِلی کیفیت کا نام ہے ، یہ کیفیت تب حاصل ہوتی ہے ، جب انسان اللہ جَلَّ جَلالُہ کی عظمت و شان پہچانے اور اپنی بے کسی ، بے بسی اور لاچارگی پر غور کرے۔ یونہی خداوند قُدُّوس کے جلال و عظمت کے سبب برگزیدہ انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام پر طاری ہونے والی کیفیات و حالات پر غور کرے ، اس سے بھی خدا کی بارگاہِ بے نیاز کی ہیبت دل میں اُترتی ہے۔ (4)رحمت کی امید بڑھانے کےلیے اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں اور کروڑوں سالوں سے جملہ مخلوقات پر ہر آن برستی ہوئی رحمتیں اور خود اپنی ذات پر رب کریم کے بے پایاں احسانات یاد کرے اور آخرت میں نعمتوں سے مالا مال ، سلامتی کے گھر جنت کو یاد کرے اور نمازیوں کے لیے جنت کے وعدے یاد کرے۔ (5)عبادت پیش کرنے میں شرم و حیا محسوس کرنے کے لیے غور کرے کہ میری نماز کتنی ناقص ہےاور میرا وجود کس قدر عُیُوب پر مشتمل ہے ، اِخْلاص کی کس قدر کمی ہے ، جبکہ اُس بارگاہ میں عبادت کا نَذرانہ پیش کرنے والوں میں جملہ انبیاءو مرسلین ، ملائکہ مقربین ، صدیقین اور اولیاء و صالحین علیہم السّلام و رحمہم اللہ المبین داخل ہیں اور وہ ہستیاں بھی کہتی ہیں کہ اے مالک! ہم تیری عبادت ویسی نہ کرسکے جیسا اُس کا حق تھا ، تو جب کاملین کا یہ حال ہے تو مجھ جیسے ناقص کی نماز کس قدر ناقص ہوگی۔ یہ ایسےہی ہے جیسے دنیا کی بہترین کمپنیوں کے بنے ہوئے نہایت خوبصورت صاف ستھرے شورومز کے درمیان میں کوئی اپنا ٹوٹا پھوٹا ، گندا میلا ، ناقص ٹھیلا لے کر کھڑا ہوجائے۔ بس یہ سمجھیں کہ انبیاء و مرسلین ، ملائکہ مقربین ، صدیقین اور اولیاء و صالحین علیہم السّلام و رحمہم اللہ المبین کی عبادات ان کمپنیوں کی اشیاء سے کروڑوں گُنا ارفع و اعلیٰ ہیں اور ہماری عبادات خراب سے ٹھیلے سے بھی ہزاروں گُنا کم تر ہے۔

          اوپر بیان کردہ اعمال پر ایک عرصے تک پوری جانفشانی اور تندہی کے ساتھ عمل کیا جائے تو رب کے فضل و کرم سے یادِ الٰہی والی نماز نصیب ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاملین کے صدقے ہم ناقصین کو کامل نماز کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران  مجلس تحقیقات شرعیہ دارالافتا اہل سنت فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code