احکامِ تجارت، حضرت سیّدنا دَعْلَج رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا ذریعۂ معاش/ تجارت کے بارے میں فرامین/ ذریعۂ آمدنی کی اہمیت

کافروں کے استعمال شُدہ کپڑے بیچنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا پُرانے کپڑوں کا ٹھیلہ ہے اور اس میں کافروں کے بھی استعمال شدہ کپڑے ہوتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ پاک کے ساتھ ساتھ ناپاک کپڑے بھی ہوتے ہوں تو کیا اس طرح کپڑوں کو بیچنا جائز ہے ؟ اگر بالفرض کسی کپڑے کا ناپاک ہونا مجھے معلوم بھی ہو تواس کو بیچنا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: کپڑے پاک ہوں یا ناپاک دونوں صورتوں میں ان کا بیچنا جائز ہےالبتہ جب تک کپڑوں کا ناپاک ہونا معلوم نہ ہو ان کو پاک ہی سمجھا جائے گا۔ رہی بات کہ کسی کپڑے کے بارے میں آپ کو یقین کے ساتھ ناپاک ہونے کا علم ہے تب بھی اس کی خرید و فروخت تو جائز ہوگی لیکن خریدار کو ضرور بتایا جائے تا کہ وہ اسے پاک کیے بغیر استعمال نہ کرے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

جمعہ کی کونسی اذان کے بعد کاروبار بند کرنے کا حکم ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جمعہ کے دن کونسی اذان پر کاروبار بند کرنے کا حکم ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی کاروبار بند کرنا اور جمعہ کے لئے سعی کرنا واجب ہے۔ اذان ہونے کے بعدخرید و فروخت کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ صدرُ الشریعہ، بدرُ الطریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ارشاد فرماتے ہیں: ’’پہلی اذان کے ہوتے ہی سعی واجب ہے اور بیع وغیرہ ان چیزوں کا جو سعی کے مُنافی ہوں چھوڑ دینا واجب، یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے اگر خرید و فروخت کی تو یہ بھی ناجائز اور مسجد میں خرید و فروخت تو سخت گناہ ہے۔“(بہار شریعت،ج1،ص775)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مسائل سیکھے بغیر تجارت یا ملازَمت  کرنا کیسا ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص تجارت کے مسائل سیکھے بغیر تجارت کرتا ہے یا کوئی ملازم اجارے کے مسائل سیکھے بغیر ملازمت کرے تو اس کی کمائی حلال ہوگی یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: تجارت کرنے والے کے لئے تجارت کے اور ملازمت کرنے والے کے لئے ملازمت و اجارہ کے ضروری مسائل سیکھنا فرض ہے اور نہ سیکھنا گناہ ہے۔ البتہ کوئی بغیر مسائل جانے کاروبار یا نوکری کرتا ہے تو اگر کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جس سے روزی حرام ہو جاتی ہو تو ایسے شخص کی آمدنی کو حلال ہی کہیں گے۔اور اگر کوئی ایسی بات پائی جائے جس سے روزی حرام ہو جاتی ہے مثلاً کاروبار میں کم تول کر پورے پیسے لئے یا ملازمت میں چھٹی کرنے کے باوجود جھوٹی حاضری لگا کرتنخواہ لی تو اب اس قدر روزی حرام ہو گی جتنی قیمت کم تول کر اضافی وصول کی یا جو رقم جھوٹی حاضری کے دن کی اسے ملی۔ ضروری مسائل نہ جاننے والے کی مطلقاً پوری روزی حرام نہیں ہو تی۔البتہ یہ بات ہے کہ دینی مسائل نہ جاننے والے غلطیوں کے زیادہ مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ بَسا اوقات روزی بھی حرام ہو جاتی ہے لیکن انہیں معلوم ہی  نہیں پڑتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ذخیرہ اندوزی کی تعریف اور اس کا حکم؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اِحْتِکار کا حکم کیا ہے اور اِحْتِکار کس کو کہتے ہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: اِحْتِکار سخت ممنوع،ناجائز و گناہ ہے، اس کی مذمّت پر کئی احادیث وارد ہیں۔

حضرتِ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:” جس نے مسلمانوں پر غلّہ روک دیا ،اللہ تعالیٰ اُسے جُذام (کوڑھ) اور اِفْلاس میں مبتلا فرمائے گا۔‘‘(مشکوٰۃالمصابیح،ج1،ص535،حدیث:2895)

اِحْتِکار کا لغوی معنیٰ ہے گِرانی کے انتظار میں کسی بھی چیز کا ذخیرہ کرلینا۔ جبکہ شریعت کی اصطلاح میں وہ چیز جو انسانوں یا جانوروں کی بنیادی خوراک ہے اسے اس نیت سے روک کر رکھنا کہ جب اس کی قیمت زیادہ ہوگی تب بیچیں گے بشرطیکہ نہ بیچنے سے لوگوں کوضرر ہو اور وہ چیز شہر یا شہر کے قریب سے خریدی ہو، یہ اِحْتِکار کہلاتا ہے۔ لہٰذا اگر اس کے نہ بیچنے سے لوگوں کو ضرر نہیں ہوتا، یا وہ چیز اس کی اپنی زمین کی ہے یا وہ دور سے خرید کر لایا ہے تو ان صورتوں میں روک کر رکھنا اِحْتِکار میں داخل نہیں۔

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن لکھتے ہیں: ’’غلّہ کو اس نظر سے روکنا کہ گِرانی کے وقت بیچیں گے بشرطیکہ اسی جگہ یا اس کے قریب سے خریدا اور اس کا نہ بیچنا لوگوں کو مُضِر ہو مکروہ و ممنوع ہے، اور اگر غلّہ دُور سے خرید کر لائے اور بانتظارِ گرانی نہ بیچےیا نہ بیچنا اس کا خلق کو مُضِر نہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،ج17،ص189)

صدرُالشریعہ، بدرُالطریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:”اِحْتِکار یعنی غلّہ روکنا منع ہے اور سخت گناہ ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ گِرانی کے زمانہ میں غلّہ خریدلے اور اُسے بیع نہ کرے بلکہ روک رکھے کہ لوگ جب خوب پریشان ہوں گے تو خوب گِراں کرکے بیع کروں گااوراگر یہ صورت نہ ہو بلکہ فصل میں غلّہ خریدتاہے اور رکھ چھوڑتا ہے کچھ دنوں کے بعد جب گِراں ہو جاتا ہے بیچتا ہے یہ نہ احتکار ہے نہ اس کی ممانعت۔ غلّہ کے علاوہ دوسری چیزوں میں اِحْتِکار نہیں۔ “(بہارِ شریعت،ج2،ص725)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

جعلی پروڈکٹ بیچنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک کمپنی نے کوئی پروڈکٹ بناکر مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کی، اب کوئی دوسرا شخص اسی  نام سے اس پروڈکٹ کی نقل بناتا ہے اور اصل کمپنی کا نام استعمال کرکے یہ نقلی پروڈکٹ مارکیٹ میں سستے داموں بیچ رہا ہے۔ ایسا کرنا کیسا ہے؟ نیز اس پروڈکٹ کو سپلائی کرنا اور دوکاندار کا اسے گاہک کو بیچنا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: کسی کمپنی کا نام استعمال کرکے جعلی پروڈکٹ بنانا اور خریدنے والے کو بتائے بغیر بیچ دینا حرام ہے کہ یہ دھوکہ ہے اور دھوکہ دے کر مال فروخت کرنا ناجائز و حرام ہے۔ مسلمان کی تجارت جھوٹ، وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی جیسے تمام خلافِ شرع امور سے پاک ہونا چاہیے۔بکثرت احادیث ان کاموں کی مذمّت میں وارد ہوئی ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دار الافتااہل سنت نور العرفان ،کھارا در ،باب المدینہ کراچی


Share

احکامِ تجارت، حضرت سیّدنا دَعْلَج رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا ذریعۂ معاش/ تجارت کے بارے میں فرامین/ ذریعۂ آمدنی کی اہمیت

حالاتِ زندگی حضرتِ سیّدنا دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت تقریباً259ھ میں ہوئی۔آپ  استاذُ المحدثین، عظیم  فقیہ اور مال دار تاجر تھے۔ ایک عرصہ تک  مکۂ مکرمہ میں مقیم رہے اور سن 351ھ  یا353ھ میں وصال ہوا۔ (سیر اعلام النبلاء،ج12،ص204، 205،207) کس چیز کی تجارت کرتے؟ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کپڑے کے تاجر تھے۔(سیر اعلام النبلاء،ج12،ص207) مالدار کیسے ہوئے؟ حضرت ابنِ ابی موسیٰ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو  کہیں مال کی ادائیگی کرنی تھی۔ ان کا بیان ہے کہ زمین وسیع ہونے کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی تھی اور میں  بہت پریشان تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مال کس طرح سے ادا کروں؟ اسی پریشانی کے عالم میں صبح سویرے کَرْخ جانے کے ارادے سے  اپنے خچر پر سوار ہوگیا، میرا خچر کہاں جارہا تھا مجھے کچھ پتا نہیں تھا۔ خچر دَرْبُ السَّلُوْلی علاقے میں واقع حضرت دَعْلَج رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی  مسجد کے دروازے پر آکر رُک گیا ، میں مسجد میں داخل ہوا اور ان کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد حضرت دَعْلَج رحمۃ اللہ تعالٰی علیہمیری طرف متوجّہ ہوئے، مجھے خوش آمدید کہا اور اپنے گھر لے گئے،وہاں دسترخوان بچھایا گیا اورکھانے کے لیے ہَرِیْسہ(عرب کا مشہور حلوہ)پیش کیا گیا، میں سوچوں میں گُم کھانے لگا،آپ نے مجھ سے پوچھا:کیا بات ہے میں تمہیں  پریشان دیکھ رہا ہوں،میں نے اپنی پریشانی بتائی تو آپ نے فرمایا:بے فکر ہو کر کھاؤ، تمہاری حاجت پوری کردی جائے گی۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے مجھے دس ہزار دینار(یعنی سونے کی اشرفیاں) دیں، میں جب وہاں سے اٹھاتو میرا دل خوشی سے جُھوم رہا تھا۔ان دیناروں سے میں نے مال کی ادائیگی کی،اس کے بعد جب اللہ پاک نے مجھے مال عطا فرمایا تومیں آپ کو لوٹانے کے لئے حاضر ہوا ،آپ نے فرمایا:خدا کی قسم! میری نیّت  اس کو واپس لینے کی نہیں تھی، اس سے بچّوں کے لئے سامان خرید لو۔میں نے کہا: حضرت! آپ کو اتنا مال کیسے حاصل ہوا کہ آپ نے مجھے دس ہزار دینار دے دئیے؟ آپ نے فرمایا:میں قراٰن  کا حافظ بنا،علمِ حدیث حاصل کیا اور ساتھ ساتھ کپڑوں کی تجارت بھی کرتا رہا، ایک دن ایک تاجر میرے پاس آیا اورپوچھا:کیا آپ کا نام دَعْلَج ہے؟میں نے کہا: ہاں!اس نے کہا:میں اپنا مال مُضَارَبَت([1]) کے طور پرآپ کو دینا چاہتا ہوں اور دس لاکھ درہم مجھے دے کرکہا:ہاتھ کُھلّا رکھ کر کام کریں،مال خرچ کرنے کی جو جگہیں آپ کومعلوم ہیں وہاں مال لے جائیے۔ وہ تاجر ہر سال  میرے پاس آتا اورمجھے  دس لاکھ درہم  دے کرجاتا ،اس طرح مال بڑھتا جارہا تھا۔ایک مرتبہ اس نے کہا: میرا سمندر میں بکثرت سفر رہتا ہے،اگر میں ہلاک ہوجاؤں تو یہ مال آپ کا ہے اس شرط پر کہ آپ اس سے صدقہ کریں گے،مساجد بنوائیں گے اور اسے خیر کے کاموں میں خرچ کریں گے۔میں اس لئے مال نیکی کے کاموں میں خرچ کرتا ہوں۔ اللہ پاک نے میرے ہاتھ میں مال کو بڑھا دیا اور جب تک میں زندہ رہوں تم میرے اس معاملے کو چھپائے رکھنا۔(سیر اعلام النبلاء،ج 12،ص206ملخصاً)

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی



[1] ۔۔۔ مضاربت ایک ایسا عَقْد ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے۔ جس میں ایک فریق کی طرف سے رقم اور دوسرے کی طرف سے عمل ہوتا ہے جبکہ منافع(Profit) میں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ (ماخوذ ازتبیین الحقائق،ج 5،ص514)


Share

احکامِ تجارت، حضرت سیّدنا دَعْلَج رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا ذریعۂ معاش/ تجارت کے بارے میں فرامین/ ذریعۂ آمدنی کی اہمیت

مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد روزی کمانے کے لئے تجارت کو ذریعہ بناتی ہے،اسلام نے تجارتی معاملات کو بحسن و خوبی انجام دینے کے لئے کئی زریں اصول عطا فرمائے ہیں، اگر مسلمان تجارت میں سچائی اور دیانتداری  سے کام لیں تو ان کی تجارت کو چار چاند لگ جائیں،آئیے تجارت کے حوالے سے بزرگوں کے اقوال اور معمولات ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)گاہگ کم  ہونے کا سبب حضرت سیدنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارایک مرتبہ بازار میں تشریف لائے  اور کچھ لوگوں کے پاس  آکر بیٹھ گئے اوران سے پوچھا:بازار کیسا چل رہا ہے؟انہوں نے کہا:بکری کم ہے۔ آپ نے فرمایا:تم لوگوں نے دھوکے سے کام لیا ہوگا،پھر پوچھا:تمہارا سامان تجارت کیسا ہے؟انہوں نے کہا:ناقص ہے،آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا:تم نے جھوٹ بولا ہوگا۔ پھر پوچھا:تمہارے سامانِ تجارت کی مقدار کتنی ہے؟انہوں نے کہا:تھوڑی ہے،آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا:تم نے (چیز بیچتے وقت) قسم کھائی ہوگی۔(بہجۃ المجالس وانس المجالس لابن عبد البر،ج1،ص135)

(2)احکام تجارت نہ سیکھنے پر بازار سے نکال دیا حضرت سیدنا ابو محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا بیان ہے : میں نےمغرب کےوقت  محتسب کوبازاروں میں گھومتے دیکھا،وہ ہر دکان پر  ٹھہرکردکان دار سے  ان احکام کے متعلق  پوچھتا جو سامان تجارت کے متعلق  اس پر سیکھنا لازم ہیں اور یہ بھی پوچھتا کہ اس میں سودکس طرح شامل ہوجاتا ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟اگر وہ صحیح جواب دیتا تو اسے دکان داری کرنے دیتا ورنہ اسے دکان سے  کھڑا کردیتااور کہتا: ہم تجھے مسلمانوں کے بازار میں نہیں رہنے دیں گے تو مسلمانوں کو سود اور ناجائز چیزیں کھلائے گا۔(المدخل لابن الحاج مکی،ج1،ص114)

(3)اللہ پاک کے دسترخوان حضرت سیدناحسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: بازار زمین میں اللہ پاک کے دسترخوان ہیں،جو بازاروں  میں (تلاش رزق کے لئے)آتا ہے وہ ان میں سے کچھ نہ کچھ پاتا ہے۔(المجالسۃ و جواہر العلم،ج 3،ص 122،رقم3065)

(4)تاجر پر تعجب ہے!  حضرت سیدنا  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے تھے: تاجر پر تعجب ہے وہ کیسے سلامت رہ سکتا ہے،اگر اپنی چیز بیچتا ہے تو اس کی تعریفیں کرتا ہے اور اگر دوسرے سے کوئی چیز خریدتا ہے تو اس کی برائیاں کرتا ہے۔ (بہجۃ المجالس وانس المجالس لابن عبد البر،ج1،ص136)

(5)اللہ پاک سے تجارت حضرت سیدناجعفربن محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: میں غریب وتنگ دست ہوتا ہوں تو صدقہ کرکے اللہ پاک سے تجارت کرتا ہوں پس اس میں نفع پاتا ہوں۔(بہجۃ المجالس وانس المجالس لابن عبد البر،ج1،ص138)

اللہ پاک ہمیں احکام شریعت ملحوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے  اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

احکامِ تجارت، حضرت سیّدنا دَعْلَج رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا ذریعۂ معاش/ تجارت کے بارے میں فرامین/ ذریعۂ آمدنی کی اہمیت

بزرگانِ دین مخلوق کی محتاجی سے بچنے اور اللہ پاک کی عبادت پر مدد حاصل کرنے کے لئے کسبِ حلال کا جائز ذریعہ  اختیار کرنے کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے،چنانچہ٭حضرتِ سیّدُنا عمر فاروقرضی اللہ تعالٰی عنہفرماتے ہیں:راہِ خدا میں شہید ہونے کے بعد  مجھے  کوئی موت اس سے زیادہ محبوب نہیں کہ اللہ کے فضل (یعنی رزقِ حلال) کی تلاش میں  زمین میں سفر کرتا ہوا اپنی سواری پر مرجاؤں۔ ٭ایک بزرگرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا بیان ہے:میں نے حضرت سیّدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  سے  سمندر میں تجارت کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا:خشکی اور تَری میں تجارت کرو اور لوگوں کی محتاجی سے آزاد ہوجاؤ۔ ٭امام محمد بن سیرین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین کے پاس جب کوئی شخص عرب شریف سے آتا تو آپ اس سے فرماتے: تم تجارت کیوں نہیں کرتے؟حالانکہ حضرتِ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ قریش کے تاجر تھے۔ ٭ایک شخص کی حضرتِ سیّدُنا حسن بن یحییٰ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے سر زمینِ حَبشہ میں ملاقات ہوئی، آپ کے پاس تجارتی سامان تھا۔ اس نے پوچھا:آپ کا یہاں کیسے آنا ہوا؟آپ نے اسے حبشہ آنے کی وجہ بتائی(کہ میں تجارت کے سلسلے میں آیا ہوں) تو اس نے آپ کو ملامت کی اورکہا:کیا یہ سب کچھ طلبِ دنیا اور دنیا کی حرص نہیں ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:اے شخص!مجھے اس کام کی رغبت اس لئے ہوئی کیونکہ مجھے تم جیسے لوگوں کی محتاجی ناپسند ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا،اصلاح المال،ج7،ص450، 451، 454، 456) پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی چاہئے کہ فارغ نہ بیٹھیں اور دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں بلکہ کوئی نہ کوئی کام کریں یا ایسا پیشہ  اپنائیں جس کے ذریعے اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی ضَروریات کو بآسانی پورا کرسکیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code