جنات کا عشقِ رسول

باتیں میرے حضور کی

جنات کا عشقِ رسول

*مولانا سید عمران اختر عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022

اللہ پاک نے اپنے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت و الفت کی دولت سے انسانوں کے علاوہ جمادات ، نباتات ، حیوانات حتّٰی کہ جنّات کو بھی حصہ عطا فرمایا ، مُکَلَّف ہونے کی وجہ سے انسانوں کی طرح بے شمار جنّات بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لاکر تبلیغِ اسلام کی خدمت میں مصروف رہے جیساکہ 26ویں پارے کی سورۂ احقاف کی آیت 29 تا 32 اور سورۂ جنّ کی پہلی اور دوسری آیت نیز ان کی تفسیر میں یہ مضمون موجود ہے کہ جنوں کی جماعت نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر توجہ کے ساتھ قراٰنِ کریم کی تلاوت سُنی ، اسلام قبول کیا اور پھر اپنی قوم میں واپس جاکر تلاوتِ قراٰن سننے اور اپنے ایمان لانے کا ذکر کیا اور انہیں بھی قبولِ اسلام کی دعوت دی۔ یاد رہے کہ جنات کی مختلف جماعتیں وقتاً فوقتاً بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں ، قراٰن بھی سُنا اور اسلام بھی قبول کیا جیساکہ ایسے ہی ایک واقعے کے بارے میں حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جنات کا یہ واقعہ دوسرا ہے اور قرآن مجید  ( کی سورۂ جنّ )  میں جو واقعہ مذکور ہے وہ واقعہ دوسرا۔[1]

قبولِ اسلام کے علاوہ جنّات کے ایسے بھی واقعات ہیں جو ان کی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عشق و عقیدت ، قلبی وابستگی کا واضح پتا دیتے ہیں ، کبھی یوں ہوا کہ بارگاہِ رسالت میں یہ جنات اپنے معاملات کا فیصلہ کروانے حاضر ہوئے تو ان کا فیصلہ فرمایا۔[2]کبھی یوں ہوا کہ حاضر ہوئے تو واپسی کے سفر کیلئے خوراک کی فریاد کی تو ان کی فریاد رسی فرمائی۔[3] کبھی یوں ہوا کہ حضرت نوح علیہ السّلام کے ہاتھ پر توبہ کرنے اور کئی انبیائے کرام علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام کی صحبتیں پانے والا ابلیس کا پڑ پوتا ہامہ حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا سلام بارگاہِ رسالت میں پیش کرنے کے بعد قراٰن سیکھنے کا خواستگار ہوا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے چند سورتیں سکھانے کے بعد آئندہ بھی اسے اپنی ملاقات کیلئے آتے رہنے کی تاکید فرمائی۔[4]  کبھی یوں ہوا کہ ہجرت کے موقع پر شانِ مصطفےٰ اور شانِ صدیقی میں قصیدہ گوئی کرتے ہوئے مقامِ ہجرت کی نشاندہی کی اور یوں حضور کے نشانِ منزل سے بے خبر عاشقانِ مصطفےٰ کی تسلی کا سامان کیا۔[5]کبھی ولادتِ مصطفےٰ کی خوشی میں میلاد کے چرچے کئے تو کبھی گستاخانِ رسول کو کیفر کردار تک پہنچاکر نرالے انداز میں اسلام اور بانیِ اسلام خیرُ الانام صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صداقت کا پرچار کیا ، آئیے جنّات کے عشقِ مصطفےٰ کے تعلق سے ایمان کو جِلا دینے والے دو واقعات ملاحظہ کیجئے :

 ( 1 ) جنّات کا اندازِ میلاد النبی : حضرت عبدُ الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت شریف ہوئی تو جبلِ ابو قٌبَیس اور حَجون کے پہاڑوں پر چڑھ کر جنات نے ندا کی۔ حجون پہاڑکے جن نے یہ ندا کی :  ” میں قسم کھاتاہوں کہ نہ تو کسی انسانی عورت نے ایسی شان پائی جیسی آمنہ زہریہ کو ملی اور نہ ہی کسی عورت نے ایسی شان و شوکت اور قابلِ فخر صفات والا بچّہ جَنا جو آمنہ کے ہاں پیدا ہوا ، یہ حضرت احمد  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  تمام قبائل میں سب سے افضل ہیں ، والدہ اور ان کے صاحبزادے دونوں ہی قابلِ عزت و واجبُ الاحترام ہیں۔ اور جبلِ ابو قبیس پر موجود جن نے یوں نِدا کی : اے بطحاء  ( یعنی مکۂ مکرمہ  ) کے مکینو ! حقیقت ماننے میں غلطی مت کرنا اور روشن عقل سے اس حقیقت کو واضح کرلینا کہ قبیلہ بنوزہرہ جو زمانوں سے تمہاری ہی نسل سے تھے اور آج بھی تمہارے سامنے ہیں ، اس نسل کے گزرے ہوئے اور موجود تمام لوگوں میں سے یا غیروں میں سے ہی سہی لیکن کوئی ایک خاتون تو ایسی دِکھا دو جس نے نبیِّ کریم  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  جیسا پاکباز جَنا ہو۔  [6]

 ( 2 ) نبوّتِ مصطفےٰ کی صداقت کا عَلم بَردار جنّ : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی علی الاعلان دعوتِ اسلام پر رؤسائے کفار بِپَھر گئے اور آپ کو جادوگر اور جھوٹا مشہور کرنے کا منصوبہ بنالیا البتہ جب اپنے ساتھی ولید سے رائے لی تو اس نے اظہارِ رائے کے لئے تین دن کی مہلت مانگی اور گھر چلا آیا ، اس کے گھر سونے چاندی کے دو بُت تھے ، جنہیں اس نے جواہرات و قیمتی لباس پہناکر کرسیوں پر بٹھا رکھا تھا ، اس نے مسلسل تین دن ان کی خوب عبادت کرنے کے بعد نہایت ہی گِڑگِڑا کر اپنے بُت سے کہا : میری بے لوث عبادت کا واسطہ مجھے بتاؤ کہ محمد سچے ہیں یا نہیں؟ اسی وقت ایک شیطانی جنّ ایک بت کے اندر گیا ، بت حرکت میں آیا اور بولا : محمد نبی نہیں ہرگز ان کی تصدیق مت کرنا۔ ولید خوش ہوگیا اور اس نے دوسرے کافروں کو بھی بلا کر بُت کی بکواس سنائی ، پھر ان بدبختوں نے بڑے مجمع کا اہتمام کرکے سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی بلوایا ، اپنے بُت کو مختلف رنگوں کا لباس پہنایا ، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر تشریف لائے ، کفّار نے بُت کو سجدہ کیاپھر ولید نے بُت سے کہا میرے معبود ! تو محمد کے بارے میں اظہارِ خیال کر ! بُت نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں نازیبا باتیں کیں ، آپ وہاں سے اُٹھ کر تشریف لےگئے ، راستے میں سبز لباس میں ملبوس ایک سوار ملا اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا ، سوار گھوڑے سے اُترا اور نہایت ادب سے سلام کیا اور بتایا : میرا نام مہین بن عبہر ہے ، کوہِ طور پر میرا گھر ہے میں نے حضرت نوح علیہ السّلام کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا ، میں سفر میں تھا ، وطن واپسی ہوئی تو گھر پہنچنے پر زوجہ نے روتے ہوئے بتایا کہ  ” مسفر “  نامی جن نے آپ کی گستاخی کی ہے ، میں اسی وقت اس کے تعاقب میں نکلا ، صفا و مَروہ کے درمیان وہ مجھے مل ہی گیا ، میں نے وہیں اس کا سر اُتار دیا ، یہ رہا اس کا سر اور وہ خود کتے کی صورت میں وہاں مَرا پڑا ہے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کی باتیں سُن کر خوش ہوئے نیز جب اگلے دن کفار پھر مجمع میں اسی ہبل نامی بُت کو زیورات و ملبوسات سے سجا کر اور اسے سجدہ کرکے بولے کہ محمد کو برا بھلا کہہ تو مہین نامی یہی جن حضور کی اجازت سے اس بت میں جاکر بولا ” اے اہلِ مکہ ! حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سچے ہیں ، ان کی باتیں اور دین سچا ہے ، یہ تمہیں باطل کی جگہ دینِ حق اپنانے کی دعوت دیتے ہیں ، جبکہ تم اور تمہارے بُت باطل و جھوٹے ہو ، خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہو ، اگر تم محمد عربی پر ایمان لاکر ان کی تصدیق نہ کرو تو روزِ قیامت دوزخ تمہارا دائمی ٹھکانا ہوگا لہٰذا حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لے آؤ جو اللہ کے رسول اور خَلْقِ خدا میں سب سے افضل ہیں “ اپنے ہی بُت سے یہ باتیں سُن کر ایک طرف تو کفار آگ بگولہ ہوگئے بلکہ ابوجہل نے اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پھر اسے نذرِ آتش کردیا جبکہ دوسری طرف رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہایت خوش ہوئے اور آپ نے اس جن کا نام عبدُ اللہ رکھ دیا۔[7]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] مراٰۃ المناجیح ، 8 /  259

[2] الجامع لاحکام القراٰن ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : 29 ، جز16 ، 8 / 153 ماخوذاً

[3] معجم الکبیر ، 10 / 65 ، 66 ، حدیث : 9966 ، 9968 ماخوذاً

[4] دلائل النبوۃ للبیہقی ، 5 / 418تا 420 ملخصاً ، اللآلی المصنوعہ ، 1 /  160 ، 162 ملخصاً

[5] لقط المرجان فی احکام الجان ، ص 178ماخوذاً

[6] لقط المرجان فی احکام الجان ، ص176

[7] جامع المعجزات ، ص 6


Share

Articles

Comments


Security Code