اُمّتِ مصطفےٰ کے فضائل

حدیث شریف اور اس کی شرح

امّتِ مصطفےٰ کے فضائل

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022

اللہ پاک کے اس فرمان : (كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ)  ( ترجمۂ کنزُالایمان : تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کےبارے میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اَنْتُمْ تُتِمُّونَ سَبْعِينَ اُمَّةً اَنْتُمْ خَيْرُهَا وَاَكْرَمُهَا عَلَى اللہ یعنی تم 70 اُمّتیں پوری کرو گے ، اللہ کے نزدیک تم ان سب سے بہتر اور عزّت والے ہو۔[1]

اللہ پاک کی ہم پر خصوصی کرم نوازی ہے کہ اُس نے ہمیں مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اُمّتی بنایا ، اللہ نے رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طفیل اُمّتِ مصطفےٰ کو جن فضائل سے نوازا ہے تمام اُمّتوں میں  ”بہترین اُمّت “  ہونے کا اعزاز اُن میں سب سے بڑھ کرہے۔ترمذی شریف کی اس حدیثِ مبارکہ میں بھی اسی اعزاز کا ذکر ہے ، شارحینِ حدیث نے اس کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :

بہترین اُمّت سے مراد : اللہ پاک کےعلم میں اُمّت ِ مصطفےٰ تمام اُمّتوں میں بہترین ہے ، اس کا بہترین ہونا لوحِ محفوظ میں لکھ دیا گیا تھا اور پچھلی اُمّتوں میں اُمّت ِ مصطفےٰ کی اِس خوبی کا چرچا رہا۔[2]

اُمّتِ مصطفےٰ میں ” بہترین  “ ہونے کا اعزاز سب کے لئے ہے یامخصوص افراد کے لئے؟اس اعتبار سےچند اقوال ہیں :

 ( 1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا :  ’’ سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں اور پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں اور پھر ان کے بعد والے لوگ سب سے بہتر ہیں۔[3]یہ حدیث ِ پاک اس بات پر دلیل ہے کہ یہ فضیلت صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کے لئے ہے اوراس اُمّت کے ابتدائی لوگ اپنے بعد والوں سے افضل ہیں۔ [4]

 ( 2) ” بہترین  “ ہونے میں پوری اُمّتِ مصطفےٰ داخل ہے کیونکہ ساری اُمّت میں ہی بہترین ہونے کی یہ وجوہات پائی جاتی ہیں۔مثلاً حسنِ اعتقاد ، ایمان پر ثابت قدمی ، دن بدن بڑھتا ہوا عشقِ رسول اور دامن ِاسلام کسی بھی قیمت پر نہ چھوڑنا وغیرہ۔ [5]حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حق یہ ہے کہ اس میں خطاب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ساری اُمّت سے ہے کہ اس اُمّت میں اگرچہ گناہ گاربھی ہیں مگر چونکہ ان کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت ہے اس لئے اس خیریت  ( بہترین ہونے ) میں وہ بھی داخل ہیں، موتی کیچڑ میں سَن کر بھی موتی رہتا ہے بشرطیکہ حضور سے وابستہ رہیں۔ [6]

 ( 3) یہ اعزاز صرف مہاجرین کو حاصل ہے۔

 ( 4)اس سے مراد شہداء اور نیک لوگ ہیں ۔

 ( 5) ”  بہترین “ کااعزازاُن لوگوں کے لئے ہے جو بھلائی کا حکم دیتےہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔ [7]نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا بہترین کا اعزاز پانے کے لئے شرط ہے ، جب لوگ اِسے چھوڑ دیں گے تو یہ اعزاز ختم ہوجائے گا۔ [8]امام مجاہد رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : لوگوں میں ظاہر ہونے والی اُمَّتوں میں تم سب سے بہتر اُمَّت اسی وقت کہلاؤگے جب تم میں آیتِ مبارکہ میں بیان کی گئیں شرائط  ( یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا) پائی جائیں۔ [9]

ستّر کا عدد پورا کرنے کا مفہوم : ستّر کا عدد کثرت بیان کرنے کے لئے آیا ہے یعنی کثیر امتیں آئیں جن میں سے سب سے افضل یہ اُمّت ِ  مصطفےٰ ہے یا یہ مراد ہے کہ جن انبیائے کرام علیہمُ السّلام پر لوگوں کی بڑی تعداد ایمان لائی اُن اُمّتوں کی تعداد  69 ہے اور70 ویں اُمّت ہونے کا اعزاز اُمّتِ مصطفےٰ کو حاصل ہے۔اِتمام  ( پورا کرنے) کا ایک مطلب آخری ہونا ہے یعنی جیسے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے آخری نبی ہیں ایسے ہی اُمّتِ مصطفےٰ سب سے آخری اُمّت ہے۔ [10]

اُمّتِ مصطفےٰ کے30 فضائل و اعزازات : اللہ کریم نے امتِ محمدیہ کوبہت سے فضائل واعزازات سے نوازا ہے مثلاً  ( 1)پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کی اجازت عطا فرمائی  ( 2)پانی کو گندگی دور کرنے کاذریعہ بنایا  (3)نمازِ جمعہ کی نعمت دی  ( 4)نماز باجماعت کے اعزاز سے نوازا  ( 5)امّت کے اتفاق کو دلیل اور اختلاف کو رحمت بنایا ، جب کہ اُن سے پہلوں کا اختلاف عذاب تھا  ( 6)اُمّت کے لئے طاعون کو شہادت و رحمت بنایا ، پچھلی اُمّتوں کے لئے عذاب تھا  ( 7)دعا کو مرتبۂ قبولیت سے نوازا گیا  ( 8)وضو کو گناہ بخشوانے کا ذریعہ بنایا  (9)تسبیح کرنے والے اُمّتی جب پہاڑ اور درختوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو یہ چیزیں ایک دوسرے کو مبارک باد دیتی ہیں  ( 10)اُمّتِ محمدیہ کے اعمال اور روحوں کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور فرشتے اُن کو مبارک باد دیتے ہیں  ( 11)اُن میں قطب و اوتاد اور نجبا و ابدال[11] ہیں۔ امام حسن رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگرابدال نہ ہوتے تو زمین اپنے خزانوں سمیت دھنس جاتی ، اگر نیک لوگ نہ ہوتے تو زمین میں فساد ہوتا ، اگر عُلَما نہ ہوتے تو لوگ چوپایوں کی طرح ہوتے  ( 12)آسمان کے فرشتے اُمّت کی اذان اور تلبیہ سنتے ہیں  (13)اُمّت میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جسے رحمت سے نوازا نہ جائے  ( 14)یہ اُمّت جب جہاد کرتی ہے تو فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں  ( 15)اِس اُمّت کو قراٰن میں  ” اے ایمان والو! “ کہہ کر پکارا گیا ہے جب کہ پچھلی اُمّتوں کو اُن کی کتابوں میں  ” اے مسکینو! “ کہہ کر پکارا گیا تھا  ( 16) سجدوں کا اثر اُن کے چہرے سے نمایاں ہوگا  (17)یہ اُمّت پل ِ صراط سے جلد گزرنے کا اعزاز پائے گی  ( 18)نیک لوگ گناہ گاروں کی شفاعت کرسکیں گے  ( 19)اللہ پاک اِس اُمّت کے جن لوگوں کو دنیا میں اُن کے کئے کی سزا دے گا تو وہ قیامت کے دن اُن گناہوں سے پاک ہوکر آئیں گے  ( 20)اس اُمّت کے ستّر ہزار لوگ بغیر حساب کتاب کے جنّت میں داخل ہوں گے  (21)پانچ نمازوں کی نعمت سے اِس اُمّت کو نوازا گیا ہے اور یہ نمازیں ان کے گناہ بخشوانے کا ذریعہ ہیں  (22)اللہ پاک نے سب سے زیادہ آسانیاں اس اُمّت کو عطا فرمائی ہیں  ( 23)پچھلی اُمّتوں میں گناہوں کی توبہ کے لئے خود کو قتل کرنا تھا ، اِس اُمّت سے یہ آزمائش اُٹھالی گئی   ( 24)حرام کی طرف اٹھنے والی نگاہ کا کفارہ آنکھ پھوڑنا تھا ، اِس اُمّت کے لئے یہ کفارہ جائز نہیں  ( 25)گندگی جہاں لگ جاتی تو اُسے پانی سے پاک نہیں کیا جاسکتا تھا بلکہ کاٹنا پڑتا ، اِس اُمّت کے لئے ایسا نہیں  ( 26)25  فیصد مالِ زکوٰۃ دینے کا حکم تھا اِس اُمّت کو فقط ڈھائی فیصد دینے کا حکم ہے  ( 27)خودکشی کرنے والے پرجنّت حرام تھی ، اس اُمّت کے لئے یہ حکم نہیں  ( 28)اس اُمّت کے کسی فرد کا عمل نامقبول ہو تو اس کی پردہ داری رہتی ہے  جبکہ گزشتہ اُمّتوں کو عمل کے نا مقبول ہونے پر رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا ، بنی اسرائیل کا کوئی فرد گناہ کرتا تو کھانے کے ذائقے سے محروم کردیا جاتا اور اُس کے گناہ گھر کے دروازے پر لکھ دیئے جاتے۔ اِس اُمّت کا ربِّ کریم نے پردہ رکھا ہے کہ استغفار کرنے سےاُن کے گناہ بخش دیتاہے اور ندامت و شرمندگی اُن کی توبہ ہے  ( 29)پچھلی اُمّتوں پر آنے والے عذاب اِس اُمّت پر نہیں آئیں گے  ( 30)پچھلی اُمّتوں کے مقابلے میں اُمّتِ محمدیہ کی عمر اور عمل کم جب کہ ثواب زیادہ ہے۔ [12]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ  اسلامک ریسرچ سینٹر ، کراچی



[1] پ4 ، اٰل عمرٰن : 110 ، ترمذی ، 5/7 ، حدیث : 3012

[2] لمعات التنقیح ، 9/832

[3] بخاری ، 2/516 ، حدیث : 3651

[4] الحدیقۃ الندیۃ ، 1/7 ماخوذاً

[5] لمعات التنقیح ، 9/832

[6] مراٰۃ المناجیح ، 8/597

[7] لمعات التنقیح ، 9/832

[8] عارضۃ الاحوذی ، 11/98

[9] مواہب لدنیہ ، 2/319

[10] لمعات التنقیح ، 9/832

[11] اولیائے کرام کے مختلف منصب کے نام

[12] المجالس الوعظیہ ، 2/274تا277ملتقطاً


Share

Articles

Comments


Security Code