Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Maryam Ayat 30 Urdu Translation Tafseer

رکوعاتہا 6
سورۃ ﰍ
اٰیاتہا 98

Tarteeb e Nuzool:(44) Tarteeb e Tilawat:(19) Mushtamil e Para:(16) Total Aayaat:(98)
Total Ruku:(6) Total Words:(1085) Total Letters:(3863)
30

قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
بچے نے فرمایا: بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔


تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ:بچے نے فرمایا بیشک میں   اللہ کابندہ ہوں ۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں  سے بات کرنا شروع کی اور فرمایا، میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ کابندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اگرچہ کلام کرکے اپنی والدہ ماجدہ سے تہمت کو دور کرنا تھا مگر آپ نے پہلے خود کو  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ قرار دیا تاکہ کوئی اُنہیں  خدا اور خدا کا بیٹا نہ کہے کیونکہ آپ کی نسبت یہ تہمت لگائی جانے والی تھی اور یہ تہمت  اللہ تعالیٰ پر لگتی تھی، اس لئے منصبِ رسالت کاتقاضا یہی تھا کہ والدہ کی برأ ت بیان کرنے سے پہلے اس تہمت کو رفع فرما دیں  جو  اللہ تعالیٰ کے جنابِ پاک میں  لگائی جائے گی اور اسی سے وہ تہمت بھی اٹھ گئی جو والدہ پر لگائی جاتی کیونکہ  اللہ تعالیٰ اس مرتبۂ عظیمہ کے ساتھ جس بندے کو نوازتا ہے، بِالیقین اس کی ولادت اور اس کی فطرت نہایت پاک و طاہر بناتا ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۳۴)

{اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ:اس نے مجھے کتاب دی ہے۔} اس کتاب سے انجیل مراد ہے۔ حضرت حسن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا قول ہے کہ آپ والدہ کے پیٹ ہی میں  تھے کہ آپ کو توریت کا اِلہام فرما دیا گیا تھا اور جھولے میں  تھے جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کردی گئی اور اس حالت میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام فرمانا آپ کا معجزہ ہے ۔بعض مفسرین نے آیت کے معنی میں  یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ نبوت اور کتاب ملنے کی خبر تھی جو عنقریب آپ کو ملنے والی تھی۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۳۴، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۶۷۲، ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بچپن میں  ملنے والے عظیم ترین فضائل:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اللہ تعالیٰ نے چار بچوں  کو چار چیزوں  کے ساتھ فضیلت عطا کی:

(1)… حضرت یوسف عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں  میں  وحی کے ساتھ فضیلت دی۔

 (2)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھولے میں  کلام کرنے کے ساتھ فضیلت دی۔

 (3)… حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فہم سے فضیلت دی۔

 (4)… حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بچپن میں  نبوت عطا کر کے فضیلت دی۔

             اور سب سے عظیم فضیلت اور سب سے بڑی نشانی وہ ہے جو  اللہ تعالیٰ نے سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا کی کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ولادت کے وقت سجدہ فرمایا،  اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سینے کو کشادہ فرمایا، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کے وقت حوروں  اور فرشتوں  کو خادم بنایا اور ولادت سے پہلے ہی عالَمِ اَرواح میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت سے سرفراز فرما دیا اور یہ عظمت و فضیلت آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کا خاصہ ہے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۳۰)

حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی براء ت میں  فرق:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر بہتان لگا تو ان کی عِفَّت و پاکیزگی خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیان فرمائی۔ اب یہاں   اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجۂ مُطَہّرہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکے ساتھ ہونے والا معاملہ ملاحظہ ہو، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :حضرت والد ماجد ’’سُرُورُالْقُلُوْب فِیْ ذِکْرِ الْمَحْبُوْب ‘‘میں  فرماتے ہیں  ’’حضرت یوسف کودودھ پیتے بچے، اور حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ کی گواہی سے لوگوں  کی بدگمانی سے نجات بخشی، اور جب حضرت عائشہ پر بہتان اٹھا، خود ان کی پاک دامنی کی گواہی دی، اور سترہ آیتیں  نازل فرمائیں ، اگرچاہتا ایک ایک درخت اور پتھر سے گواہی دلواتا، مگر منظور یہ ہوا کہ محبوبۂ محبوب کی طہارت وپاکی پر خود گواہی دیں  اور عزت واِمتیاز ان کا بڑھائیں ۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۶۹)

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links