Book Name:Aala Hazrat Khair Khwaah e Ummat
ایک مدنی اسلامی بھائی کا بیان ہے، کہتے ہیں: ہم دَرْسِ نظامی (یعنی عالِم کورس) میں پڑھتے تھے، ایک دِن اُستادِ محترم نے سبق سمجھایا، اِس پر مجھے کچھ اِشکالات ہوئے، ذہن میں سُوال اُٹھے، استاد صاحِب کی خِدْمت میں عرض کیے ، استاد صاحِب نے وضاحت فرمائی مگر تسلی نہ ہوسکی، تقریباً 40 منٹ کا پیریڈ اِس مسئلہ کے مُتَعَلِّق گفتگو میں گزر گیا٭ اگلے دِن پِھر اِسی مسئلہ پر استاد اور شاگِرد کے درمیان علمی مذاکرہ شروع ہوا، پُورا پیریڈ پِھر اسی موضوع پر گزر گیا٭ تیسرے دِن بھی ایسے ہی ہوا، مسئلہ تھا کہ حل ہو ہی نہیں پا رہا تھا۔ آخر یُوں ہوا، وہ مسئلہ تو ذِہن میں چل ہی رہا تھا، اُلجھن تو بنی ہی ہوئی تھی، آخر میں لائبریری میں گیا، فتاویٰ رضویہ شریف اُٹھایا، 27 وِیں جلد کھولی، پڑھنا شروع کیا تو اَلحمدُ لِلّٰہ! وہ مسئلہ جو 3 دِن کی علمی گفتگو سے بھی حل نہیں ہو پا رہا تھا، اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کا لکھا ہوا ایک جملہ پڑھا، اِسی سے وہ پُورا مسئلہ حل ہو گیا۔
اللہُ اکبر! آپ دیکھیے! یہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتنی عظیم خیر خواہی ہے، آپ نے اپنی نیندیں قربان کر کے، آرام کو ایک طرف رکھ کر اُمّت کو اتنا بڑا علمی ذخیرہ عطا فرما دیا کہ ہم ساری زندگی بھی صِرْف اعلیٰ حضرت کی کتابوں ہی پر تحقیقات کرتے رہیں تو یہ بھی کم ہے۔
وادی رضا کی کوہِ ہِمَالہ رضا کا ہے جس سَمت دیکھئے وہ عَلاقہ رضا کا ہے
اَگْلوں نے بھی لکھا ہے بہت علمِ دین پر جو کچھ ہے اِس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
پیارے اسلامی بھائیو! اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی خیر خواہیوں کا سلسلہ بہت طویل ہے، آپ کی سیرت کا ایک ایک گوشہ اُمّت کی خیر خواہی کے لیے وقف نظر آتا۔