روشن ستارے

حضرت سیدنا ہِشام بن عاص رضی اللہ عنہ

* مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

عالمِ فاضل ، صاحبِ خیر ، [1] مشہور شہسوار اور بہادر جنگجو[2]صحابیِ رسول حضرت سیدنا ہِشام بن عاص  رضی اللہُ عنہ  کی کنیت پہلے ابو العاص (یعنی نافرمانی کرنے والا) تھی لیکن رحمت عالم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اسے تبدیل کرکے ابومُطِیع (اطاعت کرنے والا) رکھ دی۔ [3]حضرت ہشام بن عاص مشہور صحابیِ رسول فاتح ِمصر حضرت سیدنا عَمرو بن عاص  رضی اللہُ عنہ  کے چھوٹے بھائی ہیں ، [4] بڑے بھائی حضرت عَمرو سن 8ہجری کے شروع میں اسلام لائے[5] مگر آپ قدیمُ الاسلام تھے اور مکے میں ہی بڑے بھائی سے پہلے مسلمان ہوئے۔ [6] حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک موقع پر آپ دونوں بھائیوں کے مومن ہونے کی گواہی دی[7]چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ ہوا : عاص کے بیٹے ہشام اور عَمرو دونوں مؤمن ہیں۔ [8]

ہجرت :

آپ  رضی اللہُ عنہ  نے سرزمینِ حبشہ کی جانب ہجرت کی پھر جب آپ کو ہجرتِ نبوی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خبر ملی تو لوٹ کر مکے آگئےمگر کافر باپ اور قوم نے آپ کو مدینے ہجرت کرنے سے روک دیا اور قید میں ڈال دیا۔ [9] ایک روایت میں ہے کہ مکے لوٹ آنے کے بعد آپ نے امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق  رضی اللہُ عنہ  سے وعدہ کیا کہ ان کے ساتھ مدینے کی جانب ہجرت کریں گے مگر کافر باپ نےآپ کو قید کردیا ، باپ کے مرنے کے بعد قوم نے قیدی بنائے رکھا آپ قید سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ قید سے خلاصی پائی اور سن 5 ہجری میں غزوۂ خندق کے بعد مدینےکی جانب ہجرت کی اور بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئے[10] سن 8 ہجری فتحِ مکّہ کے بعد نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف اطراف میں لشکر روانہ فرمائےتو آپ 200 افراد کا لشکرلے کر یمامہ کی جانب نکلے۔

سفرِ شام :

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ امیرُ المؤمنین حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  نے آپ کو ملک ِروم کی جانب اپنا قاصد بناکر روانہ کیا۔ اس واقعہ کے بارے میں حضرت ہِشام  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں : زمانۂ خلافت میں ہم 2 ساتھیوں کو روم کے بادشاہ ہرقل کی جانب بھیجا گیا تاکہ ہم اسے دعوت اسلام پیش کریں۔ ہم جب شاہِ روم کے پاس پہنچے تو اس کے بیٹھنے کی جگہ میں ہر چیز سرخ رنگ کی تھی ، آس پاس بھی سرخ رنگ کی چیزیں تھیں بلکہ اس کے کپڑے تک سرخ تھے ، جب ہم اس کے قریب ہوئے تو وہ مسکرایا اور بولا : ملاقات کے جو آداب تمہارے یہاں رائج ہیں اگر تم ان کے مطابق میرے آداب بجالاتے تو تمہارا کچھ نہ جاتا ، ہم نے کہا : ہمارے دین کے آدابِ ملاقات تمہارے لئے حلال نہیں اور تمہارے یہاں کے آدابِ ملاقات ہمارے لئے حلال نہیں ، اس نے پوچھا : تمہارے دین کے آدابِ ملاقات کیا ہیں؟ ہم نے کہا : السَّلامُ عَلَیک! اس نے پھر پوچھا : اپنے بادشاہ کے سامنے کس طرح کے آداب بجالاتے ہو؟ ہم نے کہا : ان ہی کلمات کے ذریعے! اس نے پھر پوچھا : وہ تمہیں کس طرح کا جواب دیتے ہیں؟ ہم نے کہا : ان ہی کلمات سے جواب لوٹا دیتے ہیں۔ اس نے پوچھا : تمہاری نماز اور روزہ کیسا ہوتا ہے؟ ہم نے اسے نماز اور روزے کے بارےمیں بتایا۔ اس کے بعد اس نے ہمیں ایک بہترین جگہ پر ٹھہرایا اور تین دن بعد ہمیں بلوایا ، پھراس نے سونے سے ملمّع کی ہوئی چار کونوں والی ایک بڑی سی (عمارت نما) چیز منگوائی جس میں چھوٹے چھوٹے خانے تھے اور ہر خانہ پر ایک دروازہ تھا ، اس نے ایک خانہ کھولا اور اس میں سے ریشم میں لپٹی ہوئی ایک تصویر نکالی اور کہا : یہ حضرت آدم  علیہ السّلام  کی تصویر ہے ، پھر ایک ایک کرکے خانے کھولتا گیا اور مختلف انبیاء کرام کی تصاویر نکالتا رہایہاں تک کہ ایک تصویر کے بارے میں اس نے پوچھا : تم جانتے ہو یہ کس کی تصویر ہے؟ ہم نے کہا : ہاں! یہ  محمدٌ رّسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تصویر ہے پھر ہم رونےلگے ، آخر میں ہم نے اس بادشاہ سے پوچھا : تمہارے پاس انبیاءِ کرام کی یہ تصاویر کہاں سے آئیں تو اس نے کہا : حضرت آدم  علیہ السّلام  نے اپنی اولاد میں اپنے انبیابیٹوں کو دیکھنا چاہا تو رَبّ نے ان کی تصویریں نازل فرمادیں ، یہ تصویریں سورج غروب ہونے کی جگہ پر موجود تھیں ، وہاں سے حضرت ذو القرنین  رضی اللہُ عنہ  نے حاصل کیں اور حضرت دانیال  علیہ السلام  تک پہنچادیں۔ پھر شاہ روم نے ہمیں تحفے تحائف دے کر رخصت کردیا ، ہم نے واپس آ کر بارگاہ ِ صدیق ِ اکبر میں سارا ماجرہ تفصیلاً ذکر کردیا ، امیرُ المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رونے لگے پھر فرمایا : بے چارہ! اگر اللہ کا اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ ہوتا تو ضرور وہ اس کا بھلا کردیتا۔ [11]

شہادت :

واقعۂ اجنادین 13 ہجری 27 یا 28 جمادی الاولیٰ[12] کو خلافتِ صدیقی میں پیش آیا جو مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان ہونے والا سب سے پہلا معرکہ تھا اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت عمرو بن عاص تھے[13] اس جنگ میں مسلمانوں کے مقابلے میں رومی اور عرب کے نصرانی کثیر تعداد میں جمع تھے اس پر بعض مسلمانوں نے آپس میں کہا : تمہارے آگے بہت بڑا لشکر ہے ، اگر مناسب جانو تو پیچھے ہٹ جاؤ اور حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں لکھو کہ وہ فوجی کمک پہنچادیں ، یہ سن کر آپ نے فرمایا : اگر تم یہ بات جانتے ہو کہ مدد صرف غالب حکمت والے اللہ کی جانب سے ہوتی ہے تو ا س لشکر سے ٹکراجاؤ اور اگر امیر المؤمنین کی جانب سے مدد کے منتظر رہوگے تو میں اپنی سواری پر سوار رہوں گا (یعنی لڑتا رہوں گا) یہاں تک کہ اللہ سے جاملوں ، اس پر بعض پُرجوش مسلمانوں کے منہ سے نکلا : اب تو حضرت ہشام بن عاص نے تمہارے کہنے کے لئے کچھ نہیں چھوڑا ، اس کے بعد شدید جنگ ہوئی جس میں کافی مسلمان شہید ہوئے۔ [14] اس نازک موقع پرآپ نے ملاحظہ کیا کہ بعض مسلمان دشمنوں پر حملہ کرنے سے پیچھے ہٹ رہےہیں تو آپ نے اپنا خود اتار کر پھینک دیا اور فرمایا : یہ غافل لوگ تلوار کی کاٹ کو برداشت نہیں کرسکتے ، جیسا میں کروں تم بھی ویسا کرو ، پھر آپ رومی لشکر کے درمیان میں گھس گئے اور کئی کافروں کو موت کے گھاٹ اُتارا ، پھر دشمنوں کی صفوں میں یہ پکارتے ہوئے گھستے چلے گئے : اے مسلمانو! میں ہشام بن عاص ہوں میری طرف آؤ ،  کیا تم جنت  سے بھاگتےہو؟ ۔ [15] کئی رومیوں کو جہنم واصل کیا آخر کار بےجگری اور دلیری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا اور گھوڑوں نے آپ کو روند ڈالا (یہاں تک کہ آپ کا جسم کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا)[16] اس جنگ میں اللہ کریم نے مسلمانوں کو فتح و کامرانی سے نوازا ، فاتح سپہ سالاربھائی حضرت عمر و بن عاص نے آپ کےجسم کے بکھرے ہوئے گوشت ، اعضاء اور ہڈیوں کو ایک کھال میں جمع کیا اور انہیں دفنادیا۔ [17] حضرت سیدنا عمر فاروق ِاعظم کو جب یہ اندوہناک خبر ملی تو ارشاد فرمایا : اللہ ہِشام پر رحم کرے! یہ اسلام کے بہت اچھے مدد گار تھے۔ آپ نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔ [18]

افضل کون؟

کچھ لوگوں نے حضرت عَمرو بن عاص سے پوچھا : آپ دونوں بھائیوں میں افضل کون ہے؟ ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا : ایک رات میں اور میرے بھائی نے اللہ سےشہادت کا سوال کرتے ہوئے رات گزاری ، صبح ہوئی تو میرے بھائی کو شہادت مل گئی اور میں محروم رہا ، اب اس بات سے ظاہر ہورہا ہے کہ میرا بھائی مجھ سے افضل ہے۔ [19]

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ، کراچی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ



[1] الاستیعاب ، 4 / 100

[2] تاریخ الاسلام للذہبی ، 3 / 103

[3] تاریخ ابن عساکر ، 74 / 12

[4] تاریخ الاسلام للذہبی ، 3 / 103 ، تہذیب الاسماء واللغات ، 2 / 346

[5] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 241

[6] تاریخ الاسلام للذہبی ، 3 / 103

[7] تاریخ الاسلام للذہبی ، 3 / 103

[8] مسند احمد ، 3 / 171 ، حدیث : 8048

[9] الاستیعاب ، 4 / 100 ، تاریخ الاسلام للذہبی ، 3 / 104

[10] انساب الاشراف ، 1 / 215ملتقطاً

[11] تاریخ ابن عساکر ، 74 / 12 تا18 ملخصاً

[12] البدایۃ والنہایہ ، 5 / 71

[13] طبقات ابن سعد ، 4 / 148 ، 147

[14] الجھاد لابن المبارک ، ص120

[15] طبقات ابن سعد ، 4 / 147

[16] تاریخ الاسلام للذہبی ، 3 / 104

[17] الاستیعاب ، 4 / 101 ، الجھاد لابن المبارک ، ص120

[18] تاریخ الاسلام للذہبی ، 3 / 103 ، 105

[19] تاریخ ابن عساکر ، 74 / 20


Share

Articles

Comments


Security Code