ننھے میاں کہانی

گاؤں کی سیر (قسط : 01)

* مولانا حیدر علی  مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

دوپہر کے کھانے پر ننھے میاں نے خوشی سے اپنی گرمی کی چھٹیوں کا اعلان کیا توماموں جان بولے : باجی! پھر ہم کل ہی روانہ ہو جاتے ہیں۔

امی جان بولیں : جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ امی جان کی بات ختم ہوئی تو ننھے میاں بولے : کہاں جانا ہے امی جان؟

امی جان کے بجائے ماموں جان بولے : ہم آپ کو اپنے گاؤں لے جا رہے ہیں ننھے میاں! یہ سُن کر تو ننھے میاں کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا ، کھانا بھول چکے تھے۔ رات میں بھی نانی اماں کے گھر جانے کی خوشی میں بڑی مشکل سے ننھے میاں کو نیند آئی اور خواب میں بھی گاؤں ، لہلہاتی فصلوں والے کھیت ، ٹیوب ویل جو کچھ آج تک اردو کی کتاب میں پڑھا تھاسب کچھ دیکھتے رہے۔

اگلے روز فجر کی نماز کے بعد سب نے ناشتہ کیا ، امی جان نے سفری بیگ رات ہی تیار کر دیئے تھے ، ناشتے کے بعد سب نہا دھو کر تیار ہوئے تب تک ابو جان رکشہ لے آئے تھے ، دادی اماں سے سلام اور دعائیں لے کر ننھے میاں ، امی جان اور ماموں جان کے ساتھ گھر سے روانہ ہو گئے۔

کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر 1 پر آ رہی ہے! اعلان سُن کرقُلی اپنے اپنے مسافروں کے سامان کو سر پر لادنا شروع ہو گئے ، ماؤں نے بچوں کو پٹڑی کی طرف جانے سے روکنے کے لئے ان کے ہاتھ پکڑ لئے  ، اتنے میں ماموں جان پانی ، جوس ، پھل اور نمکو لے آئے اور امی جان کو پکڑاکر بھاری بیگ خود اٹھا لئے اور کہا : باجی ہماری کوچ نمبر 4 ہے ، آپ میرے پیچھےپیچھے آ جائیں۔

ریل گاڑی میں اپنی برتھ پر پہنچ کر ننھے میاں اور امی جان تو بیٹھ گئے جب کہ ماموں جان نے دونوں بیگ طریقے سے برتھوں کے نیچے رکھ دیئے تاکہ دوسری سواریوں کے بیگ بھی نیچے ہی آ سکیں۔ امی جان نے ننھے میاں کو پہلے سفر کی دعا اور پھر سُورۃُ الْقُرَیْش پڑھائی ، اتنے میں ٹرین کی وِسْل سنائی دی تو ماموں جان نے بتایا کہ یہ ریل گاڑی چلنے کی نشانی ہے ، ننھے میاں اب آپ نے ہاتھ کھڑکی سے باہر نہیں نکالنا۔ شہر سے باہر نکلتے ہی ٹرین کی اسپیڈ تیز ہوئی تو ننھے میاں باہر دیکھتے ہوئے بولے : امی جان ! دیکھیں  گھر ، درخت سب کیسے پیچھے کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ جی بیٹا ، یہ لو جوس پی لو۔ باتیں کرتے ، کھاتے پیتے حیدر آباد آ گیا تو ننھے میاں بولے : ماموں جان! اور کتنی دیر ہے ہمارا گاؤں آنے میں؟

ماموں جان جو چائے پی رہے تھے بولے : بس ننھے میاں چار اسٹیشن بعد ہمارا اسٹاپ آ جائے گا۔ آئیں آپ کو ٹرین گھماتے ہیں۔ ماموں جان نے ننھے میاں کی انگلی پکڑی اور چل پڑے ، ایک جگہ لکھا تھا : بلا ضرورت زنجیر کھینچنے والے کو 2000 روپے ادا کرنا پڑےگا۔

ننھے میاں : ماموں جان! یہ کیوں لکھا ہے؟

ماموں جان بولے : بیٹا کسی ایمرجنسی کی صورت میں ریل گاڑی روکنے کے لئے ایک زنجیر لگی ہوتی ہے ، البتہ کوئی شرارتاً نہ کھینچ دے اس لئے یہ نوٹس لکھ کر لگایا گیا ہے۔

واپس آ کر ننھے میاں تو اوپر والی برتھ پر سو گئے اور امی  جان اپنے بھائی کے ساتھ باتیں کرنے لگیں۔ تین گھنٹے بعد امی جان نے اٹھایا ، ننھے میاں! ہم اپنے اسٹیشن پہنچنے والے ہیں ، اٹھ جائیں۔ ننھے میاں آنکھیں مَلتے اٹھے تو ماموں جان نے انہیں  پکڑ کر نیچے اتار لیا اور امی جان ان کا منہ دھلانے لے گئیں۔ واپس آ کر بیٹھیں تو ٹرین خیر پوراسٹیشن میں داخل ہو چکی تھی اور پلیٹ فارم پرقُلی اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ ماموں جان نے دونوں بیگ سنبھال لئے تھے اور امی جان نے ننھے میاں کا ہاتھ پکڑ لیا ، ریل گاڑی سے نیچے اترتے ہی سامنے چھوٹے ماموں نظر آ گئے اورقریب آ کر سلام کرنے  کے بعد بولے : آہا ، ہمارے ننھے میاں ہم سے ملنے آئےہیں اور ساتھ ہی انہیں اٹھا کر گلے سے لگالیا۔ باقی سب سے مل کر انہوں نے بڑے بھائی جان سے ایک بیگ لےلیا اور بولے : باجی آ جائیں ، باہر گاڑی کھڑی ہے گاؤں ہم اسی پر جائیں گے۔

پیارے بچّو! ننھے میاں نے گاؤں میں کیا دیکھا ، اس کے لئے آپ کو اگلی قسط کا انتظار کرنا پڑے گا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ


Share

Articles

Comments


Security Code