احکام تجارت

اوور ٹائم دئیے بغیر اس کے پیسے لینا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں سرکاری نوکری کرتا ہوں، وہاں تنخواہ کے علاوہ اوور ٹائم بھی دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اوور ٹائم نہیں کرتے ان کو بھی اوور ٹائم دے دیا جاتا ہے جیسے کسی کا ڈیوٹی ٹائم پانچ بجے تک ہے تو اس کو آٹھ یا نو بجے تک کا اوور ٹائم دے دیتے ہیں۔ لیکن لوگ اس اوور ٹائم میں کام نہیں کرتے اور معاوضہ وصول کر لیتے ہیں یہ بات افسرانِ بالا کے بھی علم میں ہے، ایم ڈی کو بھی معلوم ہے۔ یوں تقریباً پچیس سے پچاس کروڑ روپے اوور ٹائم کی مد میں جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے جائز کہتے ہیں کہ تنخواہیں کم ہیں اورتنخواہ کافی عرصے بعد بڑھتی ہے اس لئے اوور ٹائم لینے میں کوئی مضائقہ نہیں حالانکہ جن لوگوں کی تنخواہ زیادہ ہے وہ لوگ بھی لیتے ہیں اور افسرانِ بالا بھی یہ بات جانتے ہیں تو کیا اس طرح اوور ٹائم لینا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:اوور ٹائم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کام کا لوڈ زیادہ ہے مثلاً پانچ بجے تک ڈیوٹی ٹائم ہے اور اس وقت تک کام نہیں ہوسکتا تو ڈیوٹی ٹائم کے علاوہ وقت دے کر کام پورا کیا جائے اور جتنا وقت زیادہ دیا ہے اس کی طے شدہ اُجرت لے لی جائے۔ لیکن یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ مثلاً پانچ بجے تک ڈیوٹی ٹائم ہے اور پانچ بجے تک سب گھر چلے گئے یا پانچ بجے تو نہ گئے بلکہ آٹھ بجے ہی گئے لیکن کوئی کام نہیں کیا بلکہ ایسے ہی فارغ بیٹھے رہے اور ظاہر یہ کیا کہ آٹھ بجے تک کام کیا ہے، اسی بنیاد پر تو اوور ٹائم ملا ہے۔ یہ سراسر دھوکا ہے جس میں ملک اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا جارہا ہے آپ خود کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، جب ایک دفتر کی چار دیواری میں اتنا نقصان ہورہا ہے تو دیگر دفاتر میں، پورے ضلع اور پورے محکمے میں کتنا نقصان ہوگا۔ اگر یہ گورنمنٹ کا پیسہ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مالِ مفت ہے، بلکہ یہ قوم کی امانت ہے جو کہ بیتُ المال کے حکم میں ہے، قیامت کے دن اس کے ایک ایک پیسے کا حساب دینا پڑے گا۔ مرتکب افراد پر لازم ہے کہ اس عمل سے باز آئیں۔

جہاں تک افسران کو معلوم ہونے کی بات ہے تو یہ انجمن امدادِ باہمی کی ایک اُلٹی مثال ہے جہاں سب نے برائی کے کام پر ایک دوسرے سے سمجھوتہ کیا ہوا ہے۔

لوگوں کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ گناہ کو گناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیں گے۔ حضرتِ سیّدُنا حُذیفہ بن یَمان رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”علاماتِ قیامت بہتر(72) ہیں (ان میں سے چند یہ ہیں) جب تم لوگوں کو دیکھو کہ وہ نمازوں کو ضائع کریں گے، امانتیں ضائع کریں گے، سُود کھائیں گے، جُھوٹ کو حلال سمجھیں گے، خون بہانے کو معمولی سمجھیں گے، بلند و بالا عمارتوں پر فخر کریں گے، دین کو دنیا کے بدلے بیچیں گے، قطعِ رحمی (رشتہ داری توڑنا) عام ہوگی، مساجد میں گناہوں بھری آوازیں بلند ہوں گی، سرِ عام شرابیں پی جانے لگیں گی اور ظلم کرنے کو فخر سمجھا جانے لگے گا۔“(حلیۃ الاولیاء،ج 3،ص410، 411، رقم:4448ملتقطاً)

بہرحال سوال میں بیان کی گئی صورت دھوکا دہی، حرام اور گناہ کا کام ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔ پوچھی گئی صورت میں اوور ٹائم کے نام پر جو رقم حاصل ہوگی وہ خالص مالِ حرام ہے۔

بعض اوقات بندہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں نہیں لوں گا تو کیا فرق پڑے گا، یہ ہرگز نہ سوچیں کیونکہ فرد سے ہی معاشرہ بنتا ہے، اگر تمام افراد ٹھیک ہوجائیں تو معاشرہ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔

یاد رہے جو شخص حرام کھاتا ہے اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور حرام مال سے کیا ہوا صدقہ و خیرات بھی قبول نہیں ہوتا۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بے شک اللہ پاک ہے اور پاک ہی قبول فرماتا ہے اور اس نے مومنین کو وہی حکم دیا ہے جو مرسلین کو حکم دیا تھا چنانچہ اس نے رسولوں سے ارشاد فرمایا:( یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱))تَرجَمۂ کنز الایمان:اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔(پ18، المؤمنون: 51)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)اور مومنوں سے ارشاد فرمایا:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ)تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں۔(پ2،البقرۃ:172)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے، جس کے بال بکھرے ہوئے اور بدن غبار آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا کرے وہ قبول ہو) اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یارب! یارب! کہتا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، غذا حرام، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔(مسلم، ص393، حدیث:2346)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تجارت میں نفع نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ اگر کسی شخص کی دکان ہو اور اس میں مالِ تجارت پڑا ہو لیکن اس کی سیل نہ ہونے کے برابر ہو، اگر سیل ہوتی بھی ہو تو اتنی ہو کہ ہول سیل والے کے پیسے بھی مشکل سے پورے ہوتے ہوں تو کیا اس مالِ تجارت پر بھی زکوٰۃ ہوگی؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:جی ہاں! جو مال دکان پر بیچنے کے لئے رکھا ہوا ہے وہ مالِ تجارت ہے اس مالِ تجارت پر بھی زکوٰۃ لازم ہوگی جبکہ دیگر شرائطِ زکوٰۃ پائی جائیں اور قرض نکال کر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر مال بچتا ہو۔ مثال کے طور پر دو لاکھ روپے کا مال ہے اور اس شخص کا کاروباری معاملہ اس انداز کا ہے کہ یہ مقروض ہے اور یہ مال ملا کر اور کیش اور دیگر قابلِ زکوٰۃ اموال ملا کر اگر اس میں سے قرض مائنس کیا جائے تو نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر مال نہیں بچتا تو زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔ اگر قرض اور حاجت اصلیہ کو نکال کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار مال حساب میں بچتا ہے تو اس پر زکوٰۃ دینی ہوگی کیونکہ جن چیزوں پر زکوٰۃ دینا فرض ہے بیچنے کی چیز بھی ان ہی میں سے ہے، ایسا نہیں کہ شریعتِ مطہرہ نے صرف نفع پر زکوٰۃ فرض کی ہے بلکہ شرائط پائے جانے پر مال تجارت پر زکوٰۃ لازمی طور پر فرض ہوگی بلکہ اگر نقصان ہو رہا ہو جب بھی زکوٰۃ دینا ہوگی مثال کے طور پر کسی نے تجارت و انویسٹ کی نیت سے چالیس لاکھ کا پلاٹ خریدا، اس کی مالیت کم ہو کر زکوٰۃ فرض ہونے کے دن تیس لاکھ ہو گئی اور زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط پائی جاتی تھیں تو یہ شخص مذکورہ پلاٹ پر بلاشبہ زکوٰۃ دے گا لیکن ایک رعایت یہ ہے کہ زکوٰۃ فرض ہونے کے دن اس مال کی جو کرنٹ ویلیو ہے اسی کے اعتبار سے حساب لگائے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی 

٭…دار الافتاء اہل سنت نور العرفان کھارادر کراچی


Share

احکام تجارت

ہمارے بُزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم نے ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کیلئے آمدنی کے مختلف ذَرائع اپنائے، ان میں سے بعض بہت مال دار بھی ہوئے۔ یہ حضرات رِزْقِ حلال کیلئے کوشش کرنے کے باوجود اتنی کثرت سے عبادت کرتے تھے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ کمانے کی مصروفیات ان کو یادِ الٰہی سے غافل نہیں کرتی تھیں لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ نفلی عبادت تو ایک طرف رہی پنج وقتہ نَماز بھی دشوار معلوم ہوتی ہے اور اس کیلئے اپنی تجارتی مصروفیات کا بہانہ تراشتے ہیں حالانکہ بروزِ قیامت یہ عُذْر کچھ کام نہیں دے گا۔

مالدار، مریض اور غُلام

مشہور تابعی بُزرگ حضرت امام مُجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بروزِ قیامت مال دار، مریض اور غُلام کو بارگاہِ الٰہی میں حاضر کیا جائے گا۔ اللہ پاک مال دار سے ارشاد فرمائے گا: تجھے میری عبادت سے کیا چیزروکتی رہی؟وہ عرض کرے گا:مال و دولت کی کثرت کے باعث میں سَرکَش بن گیا تھا (جس کی وجہ سے میں تیری عبادت سے غافل رہا) چنانچہ اللہ پاک کے پیارے نبی حضرتِ سیِّدُنا سلیمان علیہ السَّلام کو بادشاہ ہونے کے باعث لایا جائے گا اور مال دار سے کہا جائے گا: تو زیادہ مصروف تھا یا یہ؟ وہ عرض کرے گا: یہ زیادہ مصروف تھے۔ اللہ  پاک ارشاد فرمائے گا:مصروفیّت نے انہیں تو میری عبادت سے نہیں روکا۔ پھر مریض سے اللہ پاک ارشاد فرمائے گا:کیا چیز تیرے لئے میری عبادت سے رُکاوٹ بنتی رہی؟ وہ عرض کرے گا: اے ربِّ کریم! مجھے اپنے جسم میں مشغولیت تھی (اس لئے میں تیری عبادت نہ کرسکا) چنانچہ حضرت سیِّدُنا ایّوب علیہ السَّلام کو جسمانی تکالیف سہنے کے باعث لایا جائے گا اور مریض سے کہا جائے گا: تو زیادہ تکلیف میں مبتلا تھا یا یہ؟ وہ عرض کرے گا:یہ زیادہ تکلیف میں تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: انہیں تو مصیبتیں میری عبادت سے نہ روک سکیں۔ پھر غُلام سے اللہ  پاک ارشاد فرمائے گا: تیرے لئے کیا چیز میری عبادت کے آڑے آئی؟وہ عرض کرے گا: میں اپنے آقاؤں کا ماتحت تھا (ان کے کاموں کی مصروفیات کے باعث تیری عبادت نہ ہوسکی) چنانچہ حضرت سیِّدُنا یوسف علیہ السَّلام کو لایا جائے گا اور غلام سے کہا جائے گا: تیری غُلامی زیادہ سخت تھی یا ان کی (جبری غلامی)؟ وہ عرض کرے گا: ان کی زیادہ سخت تھی۔ اللہ  پاک ارشاد فرمائے گا:انہیں تو کسی چیز نے میری عبادت سے نہیں روکا۔(حلیۃ الاولیاء،ج 3،ص329، رقم: 4146)

علّامہ نجمُ الدِّین محمد غَزِّی شافِعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:امام مُجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ روایت مرفوع کے حکم میں ہے (یعنی یہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیثِ مبارک ہے) کیونکہ اس طرح کی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی۔ (حسن التنبہ،ج 3،ص41)

مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ کیسی ہی مصروفیات ہوں ہمیں فرائض و واجبات کے لئے وقت نکالنا ہوگا،آدمی یہ سوچے کہ مصروفیات کچھ کم ہوں گی تب میں عبادات شروع کروں گا تو ایسا نہیں ہے بلکہ ہماری مصروفیات عام طور پر کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں لہٰذا جب یہ طے ہے کہ مصروفیات ختم ہونے والی نہیں تو پھر ہمیں اپنی مصروفیات کو کم کرکے ہی نمازوں وغیر ہ کے لئے وقت نکالنا ہوگا،اگر ہم اپنے معاملات کو کنٹرول کرلیں تو ہم نمازوں اور دیگر عبادات کے لئے وقت نکال سکتے ہیں۔اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں فرائض و واجبات ادا کرنے اور پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…عبد الرحمٰن عطاری مدنی 

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code