Book Name:Wo Hum Mein Se Nahi

صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ کو وہ عمارت نظر نہ آئی، فرمایا: وہ عمارت کہاں گئی؟ عرض کیا گیا: اُن صحابی  رَضِیَ اللہ عنہ  نے آپ کی ناراضِی کے خوف سے عِمارت (Building) گرا دی ہے۔ اس پر آپ  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  نے فرمایا: سُن لو! بےشک ہر عِمَارت اس کے مالِک کے لئے وبال ہے البتہ جو ضرورتًا بنائی گئی ہو۔([1])

مشہور مفسرِ قرآن، حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی    رحمۃُ اللہ عَلَیْہ   اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: حدیثِ پاک میں لفظِ وبال سے مراد اگر گُنَاہ ہے تو مطلب یہ ہے کہ ہر وہ عمارت جو بِلاضرورت صِرْف فخر و تکبر کے لئے بنائی جائے کہ یہ عَمَل ناجائِز ہے، فخر وتکبر کا ہر کام حرام ہے۔ اور اگر یہاں لفظِ وَبَال سے مراد آخرت کا بوجھ ہے تو ہر وہ عمارت اس میں داخِل ہے جو بلا ضرورت بنائی گئی ہو۔ غرض کہ دُنیوی ضرورت (مثلاً رہنے، کاروبار کرنے وغیرہ) کے لئے عمارت بنانا مُبَاح (یعنی جائِز) ہے اور دِینی ضرورت (مثلاً مسجد، مدرسے وغیرہ) کے لئے  عِمَارت بنانا ثواب کا کام ہے۔ اس کے عِلاوہ جو عِمارت محض نمائش (Show off)  کے لئے، فخر و غرور کے لئے بنائی جائے، وہ بنانے والے کے لئے روزِ قیامت وَبَال ہو گی۔ ([2])

صحابہ کرام کی نِرالی ادائیں

پیارے اسلامی بھائیو! اس حدیثِ پاک کی روشنی میں صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کے عشق کا انداز دیکھئے!  پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  نے اُونچی عِمارت دیکھی، اسے پسند نہ فرمایا، اس پر آپ  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  نے یہ بھی نہ فرمایا کہ یہ عِمَارت بنانا جائِز  نہیں ہے، ان  صحابی  رَضِیَ اللہ عنہ  کو عِمَارت گِرا دینے کا حکم بھی نہیں دیا بلکہ صِرْف ناراضِی کا اِظْہار ہی


 

 



[1]...ابو داؤد ،کتاب الادب،باب ما جاء فی البناء،صفحہ:815،حدیث:5237 ملتقطًا۔

[2]...مرآۃ المناجیح،جلد:7،صفحہ:22 ملتقطًا۔