Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah An Nahl Ayat 125 Urdu Translation Tafseer

رکوعاتہا 16
سورۃ ﰇ
اٰیاتہا 128

Tarteeb e Nuzool:(70) Tarteeb e Tilawat:(16) Mushtamil e Para:(14) Total Aayaat:(128)
Total Ruku:(16) Total Words:(2082) Total Letters:(7745)
125

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(125)
ترجمہ: کنزالعرفان
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو ،بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔


تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ:اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو تین طریقوں سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم فرمایا۔ (1) حکمت کے ساتھ۔ اس سے وہ مضبوط دلیل مراد ہے جو حق کو واضح اور شُبہات کو زائل کردے۔ (2) اچھی نصیحت کے ساتھ۔ اس سے مراد ترغیب و ترہیب ہے یعنی کسی کام کو کرنے کی ترغیب دینا اور کوئی کام کرنے سے ڈرانا ۔ (3) سب سے اچھے طریقے سے بحث کرنے کے ساتھ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ  اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اس کی آیات اور دلائل سے بلائیں ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۵۱، ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ دعوتِ حق اور دین کی حقانیت کو ظاہر کرنے کے لئے مناظرہ جائز ہے۔

اَمر بالمعروف کے آداب اور چند مسائل:

اس آیت کی مناسبت سے یہاں امر بالمعروف کے آداب اور اس سے متعلق 6 شرعی مسائل ملاحظہ ہوں

(1)…امربالمعروف یہ ہے کہ کسی کو اچھی بات کا حکم دینا مثلاً کسی سے نماز پڑھنے کو کہنا۔ اور نَہی عَنِ الْمُنْکَر کا مطلب یہ ہے کہ بری باتوں سے منع کرنا۔

(2)…کسی کو گناہ کرتے دیکھے تو نہایت مَتانت اور نرمی کے ساتھ اسے منع کرے اور اسے اچھی طرح سمجھائے پھر اگر اس طریقہ سے کام نہ چلا اوروہ شخص باز نہ آیا تو اب سختی سے پیش آئے، اس کو سخت الفاظ کہے، مگر گالی نہ دے، نہ فحش لفظ زبان سے نکالے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو جو شخص ہاتھ سے کچھ کرسکتا ہے کرے۔ لیکن اس صورت میں  فتنے اور قانونی پہلو کو سامنے رکھے یعنی نہ خلافِ قانون کرے اور نہ ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے فتنہ ہو۔

(3)…امربالمعروف کے لیے پانچ چیزوں کی ضرورت ہے۔ (۱) علم۔ کیونکہ جسے علم نہ ہو وہ اس کام کو اچھی طرح انجام نہیں دے سکتا۔ (۲)اس سے مقصود رضائے الٰہی اور دینِ اسلام کی سربلندی ہو۔ (۳) جس کو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ شفقت و مہربانی کرے اور نرمی کے ساتھ کہے۔ (۴)حکم کرنے والا صابر اور بُردبار ہو۔ (۵) حکم کرنے والا خود اس بات پر عامل ہو، ورنہ قرآن کے اس حکم کا مِصداق بن جائے گا، کیوں کہتے ہو وہ جس کو تم خود نہیں کرتے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک ناخوشی کی بات ہے یہ کہ ایسی بات کہو، جس کو خود نہ کرو۔ اور یہ بھی قرآنِ مجید میں فرمایا کہ ’’کیا لوگوں کو تم اچھی بات کا حکم کرتے ہو اور خودا پنے کو بھولے ہوئے ہو۔

 (4)…امربالمعروف کی کئی صورتیں ہیں ۔ اگر غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان سے کہے گا تو وہ اس کی بات مان لیں گے اور بری بات سے باز آجائیں گے، توبری بات سے منع کرنا واجب ہے، اس کو باز رہنا جائز نہیں اور اگر گمان غالب یہ ہے کہ وہ طرح طرح کی تہمت باندھیں گے اور گالیاں دیں گے تو ترک کرنا افضل ہے اور اگر یہ معلوم ہے کہ وہ اسے ماریں گے اور یہ صبر نہ کرسکے گا یا اس کی وجہ سے فتنہ و فساد پیدا ہوگا، آپس میں لڑائی ٹھن جائے گی جب بھی چھوڑنا افضل ہے اور اگر معلوم ہو کہ وہ اگر اسے ماریں گے تو صبر کرلے گا تو ان لوگوں کو برے کام سے منع کرے اور یہ شخص مجاہد ہے اور اگر معلوم ہے کہ وہ مانیں گے  نہیں مگر نہ ماریں گے اورنہ گالیاں دیں گے تو اسے اختیار ہے اور افضل یہ ہے کہ بری بات سے منع کرے۔

(5)…عام شخص کسی قاضی (یعنی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے جج)،مفتی یا مشہور و معرو ف عالم کو امر بالمعروف نہ کرے کہ یہ بے ادبی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی خاص مصلحت کی وجہ سے ایک فعل کرتے ہیں ، جس تک عوام کی نظر نہیں پہنچتی اور یہ شخص سمجھتا ہے، کہ جیسے ہم نے کیا انہوں نے بھی کیا، حالانکہ دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ حکم ان علما کے بارے میں ہے، جو احکامِ شرع کے پابند ہیں اور اتفاقاً کبھی ایسی چیز ظاہر ہوئی جو عوام کی نظر میں بری معلوم ہوتی ہے۔ وہ لوگ مراد نہیں جو حلال و حرام کی پروا نہیں کرتے اور نامِ علم کو بدنام کرتے ہیں ۔

 (6)… جس نے کسی کو برا کام کرتے دیکھا اور خود یہ بھی اس برے کام کو کرتا ہے تو اس برے کام سے منع کردے کیونکہ اس کے ذمہ دو چیزیں واجب ہیں برے کام کو چھوڑنا اور دوسرے کو برے کام سے منع کرنا اگر ایک واجب کا تارک ہے تو دوسرے کا کیوں تارک بنے۔

 نوٹ: مزید معلومات کے لئے بہار شریعت جلد 3حصہ 16سے ’’امر بالمعروف‘‘ کا بیان مطالعہ فرمائیں ۔([1])

{اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ:بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی ذمہ داری صرف لوگوں تک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا پیغام پہنچانا اور ان تین طریقوں سے دینِ اسلام کی دعوت دینا ہے۔اللّٰہ تعالیٰ گمراہ ہونے  والوں اور ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے اور وہ ہر ایک کو ا س کے عمل کی جزا دے گا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۵۱-۱۵۲)


[1] ۔۔۔’’امر بالمعروف‘‘ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر اہلسنّت  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب’’نیکی کی دعوت‘‘ کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links